ججز کی تقرری اور حکومتی مؤقف

حکومت وقت بظاہر دلچسپ مگر خطرناک قسم کے اقدامات کی عادی معلوم ہوتی ہے اور ہر گزشتہ بحران بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اب تو حکومت کے لیے بہت خطرات پیدا ہوگئے ہیں مگر نامعلوم کیوں اپوزیشن اور حکومت مخالف گروہوں کے سارے اندازے ایک ایک کر کے ریت کا گھروندہ ثابت ہوتے چلے جاتے ہیں۔

کبھی کیری لوگر بل پر ایسا لگتا ہے کہ ابھی جنگجو اور مہم جو قسم کے فوجی دندناتے ہوئے ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم پر دھاوا بول دیں گے اور کچھ ہی دیر بعد ریڈیو اور ٹی وی پر “میرے عزیز ہم وطنوں “ والی اسٹیریو ریکارڈنگ سننے کو ملے گی شائد یہی وجہ ہے کہ آفس سے واپسی پر لوگ اسی امید پر جلد از جلد گھر پہنچنے کی کوشش کے دوران بے پناہ بے ہنگم ٹریفک کو دیکھ کر یہی سوچتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں کہ ہو نا ہو آج تو کچھ ہو کر ہی رہنا ہے اور حکومت تو گئی سمجھو۔

اور کبھی این آر او کے موقع پر سیاسی فتووں کی بارش ہوجاتی ہے کہ اب تو حکومت کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھک ہی گئی۔

اور اب ججز کے مسئلے میں لگتا ہے کہ لو جی مک گئی ساری گل۔

ہر روز لوگ اپنے اپنے کام دھندوں کے دوران ہونے والی عجیب و غریب اور ناقابل بیان حد تک سنجیدہ تبصروں اور حقائق سننے کے بعد گھر پہنچ کر ٹی وی اسکرین کے سامنے ان فارغ قسم کے مبصرین اور ماہرین کو سنتے سنتے بے زار آجاتے ہیں کہ جن کو شائد ان کے گھر والے بھی توجہ سے نہیں سنتے ہونگے۔

اور پھر رات گئے ٹی وی بند کر کے سو جاتے ہیں اور صبح اٹھ کر اس امید پر ٹی وی دوبارہ کھول کر دیکھتے ہیں کہ کہیں رات کو ہی کسی آمر یا با اختیار قسم کے چیف صاحبان میں سے کسی نے عوامی جذبات و احساسات کو محسوس کر کے کوئی سوموٹو ایکشن تو نہیں لے لیا ۔

وزیر اعظم گیلانی صاحب فرماتے ہیں کہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ حکومت موجودہ عدلیہ سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔ قومی اسمبلی میں حیرت انگیز طور پر پرجوش انداز سے وزیراعظم نے فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہوئے کہا کہ ججز کی تقرری کی سفارشات پر مشاورت کے حوالے سے سپریم کورٹ جو بھی تشریح کرے گی، حکومت کو قبول ہوگی۔ جس انداز سے وزیراعظم صاحب نے قومی اسمبلی میں تقریر کی اس سے تو یہی معلوم ہوتا تھا کہ وزیراعظم صاحب نے اپنے قانونی مشیران سے اس معاملے پر ناصرف گفتگو اور صلح مشورہ کر لیا ہے بلکہ وہ اپنے مؤقف یعنی حکومت اقدامات پر بہت حد تک پراعتماد اور ڈٹے ہوئے ہیں مگر کوئی مخالفت کا تاثر دینے کے بجائے افہام و تفہیم کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں اور یہی جمہوریت کی عنایت کردہ خوبصورتی ہے کہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ صحیح بھی ہیں تو بھی اپنے سمجھنے کو حرف آخر سمجھنے کے بجائے دوسرے کے مؤقف کا ناصرف احترام کریں بلکہ یہ تاثر بھی دیں کہ اگر آپ غلط ہوئے تو آپ اس بات کو کھلے دل سے تسلیم کرلیں گے کہ غلطی آپ سے ہی ہوئی اور یہ کہ ایسا قدم غلط فہمی سے تو ہوسکتا ہے مگر ارادتاً نہیں۔

وزیراعظم صاحب نے گیند ججز کی کورٹ میں ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر ججز چاہتے ہیں کہ انہیں یعنی ججز کو ہی ججز تعینات کرنے کا اختیار دیا جائے اور اس میں صدر وزیراعظم یا گورنر کا کوئی کردار نہ ہو تو ایسا کرنے کو بھی تیار ہیں اگر پارلیمنٹ ایسا چاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ بالادست ہے اور قانون سازی کا اختیار بھی پارلیمنٹ کو ہی حاصل ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ وزیراعظم نے کہا کہ آئینی کمیٹی جو بھی فیصلہ کرے گی اس کا تعلق موجودہ عدلیہ یا تعیناتی سے نہیں۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ سپریم کورٹ ججز تعیناتی کیس کا جو بھی فیصلہ کرے گی وہ قابل قبول ہوگا۔

اس طرح ججز کے لیے بہت کڑا وقت ہے کیونکہ اس کیس کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ آنے والے ادوار میں مسلمہ حیثیت کا حامل بن جائے گا اور آنے والے دنوں میں ججز اور آج کی اپوزیشن جب کل حکومت بنانے کے قابل ہوگی جب اس کو بھی لگ پتا جائے گا۔

بحرحال آنے والے دنوں میں ججز کے معاملے کا کچھ بھی ہو۔ آئین کی شق میں یہ بات عام فہم ہے کہ صدر کو اختیار حاصل ہے جج کی تعیناتی وغیرہ کا اور چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہے اب آئینی و قانونی کھلاڑی جانیں کہ چیف جسٹس سے مشاورت اتنی ضروری ہے کہ اس مشاورت یعنی مشورہ کو ماننا بھی صدر کے لیے اتنا ہی ضروری ہے کہ اگر وہ مشورہ نا مانا جائے تو صدر صاحب نے آئین کی ہی خلاف ورزی کر لی۔

بہرکیف حکومت کو برا بھلا اور اس کے ہر کام میں عیب اور کیڑے نکالنے والے ضرور اس بات سے چیں بچیں ہونگے مگر حکومت نے کوئی غیر آئینی کام بظاہر نہیں کیا اور آئین کی تشریح کل کچھ بھی ہو حکومت اس بات پر بھی مکمل عہد کررہی ہے کہ جو تشریح اس معاملے پر کورٹ کی طرف سے کی جائے گی اس کا احترام کیا جائے گا۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ احترام یکطرفہ ہوگا یا عدلیہ بھی حکومت کے مسئلے مسائل کو حل کرنے میں احترام اور برداشت سے کام لے گی یا صرف عدلیہ میں اتنی طاقت پیدا ہوگئی ہے کہ سب ادارے تو عدلیہ کا احترام کریں اور عدلیہ سب سے بالاتر ہے اور یہ بات بھی واضع ہونی چاہیے کہ عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ میں کس کا کردار کس نوعیت کا ہے کیا سب اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرنے کی پابند ہیں یا سب ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کرنے میں آزاد ہیں۔

ویسے کوئی زیرو پوائنٹ زیرو ون پرسنٹ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکومت کا اقدام غیر آئینی نہیں بلکہ صحیح تھا جیسا کہ علی احمد کرد صاحب اور دوسرے ماہرین قانون کے بیانات چلے تھے اس معاملے کو لے کر بالکل ابتدائی اسٹیج پر۔ ہوسکتا ہے اب ماہرین قانون کے بیانات سیاسی و مصلحتی وجوہات کی بنا پر تبدیل ہوچکے ہوں۔

مگر جناب یہ حکومت تو واقعی اتنی بہادر معلوم ہوتی ہے کہ ہر قسم کے بحرانوں میں ناصرف کود پڑتی ہے بلکہ کپڑے جھاڑ کر اٹھ بھی کھڑی ہوتی ہے
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 504528 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.