کراچی این اے246 انتخابی معرکہ ،ایم کیو ایم نے میدان مارلیا

کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ 246میں ہونے والا ضمنی انتخاب اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ہوگیا۔ کراچی کو فتح کرنے والی سیاسی جماعتوں کے مطالبہ پر یہ ضمنی انتخاب رینجرز کی نگرانی میں اور سی سی ٹی وی کمیروں کی موجودگی میں عمل میں آیا۔ تحریک انصاف عمران خان نے ہار تسلیم کرکے انتہائی ہوش مندی، سیاسی برد باری اور جمہوری انداز فکر کو فروغ دینے کی روایت کو آگے بڑھایا ہے ۔جب کہ تیسرے نمبر پر آنے والی سیاسی جماعت جسے کئی سیاسی جماعتوں بشمول نواز لیگ، مولانا فضل الرحمٰن، سمعی الحق، سنی تحریک اور دیگرکی حمایت بھی حاصل تھی نے اس کے بر خلاف غیر جمہوری، غیر دانشمندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے ’میں نہ مانوں‘ والی پالیسی پر قائم رہنے کی نوید سنائی جو سیاسی و جمہوری اعتبار سے مثبت نہیں کہی جاسکتی۔

گزشتہ ایک ماہ سے جاری اعصاب شکن ماحول کا ڈراپ سین ہوگیا جس نے پورے پاکستان کے سیاسی حلقوں کو 246کے گرد ایسے جکڑ ا ہوا تھا کہ ہر جماعت، ہر سیاسی گروہ، ہر سیاسی ورکر کراچی کے اس ضمنی انتخاب کو نہ معلوم کیوں اس قدر اہمیت دے رہا تھا۔ جب بھی ٹی وی کھولیں ، کوئی سا بھی چینل سامنے آئے بات کراچی کی، ایم کیو کی، الطاف حسین کی ہی ہورہی ہوتی تھی۔ میڈیا نے اسے اور بھی زیادہ گھمبیر اور ایسی ہائپ کریٹ کر رکھی تھی کہ جیسے 246میں ہونے والا معرکہ پاکستان میں کیا انقلابی تبدیلی لے آئے گا یا اس کے نتائج سے پاکستان میں سیاسی صورت حال تبدیل ہوجائے گی، شاید اس کے مختلف نتائج سے کراچی پیرس بن جائے گا، یہاں دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی، امن و امان کی صورت حال بدل جائے گی،ہر روز بے گناہ مرنے والوں کا سلسلہ بند ہوجائے گا، چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، موبائل چھیننے کی وارداتیں ختم ہوجائیں گی۔کیا پاکستان کے تین صوبوں میں امن ہے،کیا وہاں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں، امن و امان کی صورت حال تسلی بخش ہے، لوگ بے گناہ نہیں مارے جارہے،اغوا برائے تاوان کے واقعات نہیں ہورہے، چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، موبائل چھیننے کی وارداتیں نہیں ہورہیں۔پھر صرف کراچی کے حلقہ 246سے یہ امیدیں کیوں لگائی جارہی تھیں۔ در اصل لکھنے والے اور ٹی وی پر بڑھ چڑھ کر گفتگو کرنے والوں کو اصل حقیقت معلوم تھی کہ اصل معاملہ کیا ہے، اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں۔بعض سیاسی حلقے کیا چاہتے ہیں۔ پورے کراچی ، حیدر آباد ، سکھر اور دیگر شہری علاقوں کو تو چھوڑ دیجئے صرف اس ایک حلقے یعنی 246کے انتخابی نتائج 1970 سے موجودی ضمنی انتخاب تک کی صورت حال پر ایک نظر ڈالیں تو اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ یہاں سیاسی میدان کس کس نے مارا اور یہاں پر سیاسی معرکہ آرائی کرنے والوں کو لوگوں نے کس انداز سے لیا، کسے مسترد کیا کسے کامیاب کیا۔

1970کی دیہائی میں یہ حلقہ ڈبلیو32کراچی 5تھا، پورے پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی لیکن اس حلقے والوں نے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد کو اپنا امید وار منتخب کیا ۔یہاں سے وہ 39ہزار878ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔1977کی دیہائی میں یہ حلقہ 186کراچی 4 تھا، اس انتخاب میں بھی اس حلقے کے لوگوں نے پروفیسرغفور احمد پر ہی اعتماد کیاجبکہ پورے پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی پیپلز پارٹی کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد کو 55 ہزار139ووٹ ملے اور وہ کامیاب ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ اس دوران جب کہ پاکستان بھر میں بھٹو شہید کی حکومت تھی کراچی میں جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد اور پروفیسر محمود اعظم فاروقی مرحوم یہاں کے نمائندہ تھے۔ اس وقت الطاف حسین ملک کی سیاست میں پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی مہاجر قومی موومنٹ وجود تھا، نہ ہی مہاجر کی بنیاد پر انتخابات میں کوئی سیاسی جماعت حصہ لیا کرتی تھی۔یہ دونوں قومی رہنما ء کراچی کے ہر دلعزیز سیاسی رہبر ہوا کرتے تھے۔لیکن یہی وہ دور تھا کہ جب سیاست میں قومیت کا عنصر پیدا کیا گیا، یہ عنصر کوٹہ سسٹم تھا جس نے تفریق کا بیج بویا، ایک دوسرے کے خلاف زبان اور علاقے کی بنیاد پر لوگوں کو آمنے سامنے کھڑا کردیا گیا۔ یہاں سے سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی کی سیاست میں تبدیلی آئی ، لوگوں کی سوچ بدلنے لگی، نہ انصافی کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ لیکن ہمارے سیاست دانوں نے نفرت کے اس ناسور کا علاج کرنے کے بجائے اسے اور بڑھاوا دیا، لسانی بل پاس کرکے یہ پیغام دیا گیا کہ تم جو چاہو کر لو ہم تو وہی کریں گے جو ہم چاہیں گے۔ اب حلقہ 246کے آئندہ ہونے والے انتخابات کی طرف چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد یہاں کے باسیوں نے کسے سر پر بٹھایا اورکسے مات دی۔

اب کراچی کی سیاسی فضاء میں تبدیلی آئی، الطاف حسین کی طلبہ سیاست اور پھر ملکی سیاست میں پیدائش ہوئی ۔وہ سیاست کا طالب علم تو نہیں تھا لیکن سیاست اس کے خون میں رچی بسی تھی، کراچی کے ایک بڑے اور مخصوص طبقے کی محرومی ، ان میں پائی جانے والی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے اس پیدائشی سیاست کے کھلاڑی نے ایسی چال چلی کہ کراچی ہی نہیں بلکہ سندھ کے شہری علاقوں کے مکینوں کو اپنے سیاسی چکر میں ایسا جکڑا کہ وہ آج تک اس بھنور سے نکل نہیں سکے۔ یہاں تک کہ اس کے خلاف ریاست کی پوری مشینری لگا دی گئی، بار بار اسے پچھاڑنے کے طرح طرح کے حربے استعمال کیے گئے اور اب بھی کیے جارہے ہیں لیکن وہ تو سیاسی چٹان ثابت ہوا۔1988کے انتخابات پھر 1990میں یہ حلقہ الطاف حسین کے زیر اثر چلا گیا۔ یہاں سے ڈاکٹر عمران فاروق مرحوم دو بار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ اس وقت یہ حلقہ 187کہلاتا تھا۔یہاں کے کچھ علاقے حلقہ 188تھے اس جگہ سے ایم کیو ایم کے ایس ایم سلیم کامیاب ہوئے اور انہوں نے 31ہزار12ووٹ حاصل کیے تھے۔1993کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم حصہ نہیں لیااور انتخابات کا بائیکاٹ کردیتی ہیں۔ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت یہاں نہیں بنتی۔ وجوہات کا سب کو علم ہے۔اب ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل ہوجاتا ہے ایم کیوایم1997 میں ان کے والد فاروق احمد کو ٹکٹ دیتی ہے وہ بھی اس حلقہ سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے ہیں انہیں 62ہزار 621ووٹ ملتے ہیں۔یہاں کے دوسرے حلقے سے ایم کیوایم کے حسن مثنیٰ ایک لاکھ 5ہزار323ووٹ لے کر کامیاب ہوجاتے ہیں۔یہ عمل اس صورت میں ہورہا ہوتا ہے جب الطاف حسین ملک سے باہر لندن میں بیٹھ کر اپنی جماعت کو چلارہے ہوتے ہیں۔

10اکتوبر 2002کے انتخابات میں ایم کیو ایم عزیز اﷲ بروہی کو ٹکٹ دیتی ہے باوجود اس کے کہ یہ حلقہ اور علاقہ مخصوص زبان بولنے والوں کا ہے لیکن ایم کیو ایم کا امیدوار ہونا کامیابی کی دلیل تصور کی جارہی تھی ۔ بروہی صاحب کامیاب ہوجاتے ہیں وہ 53 ہزار 134ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ 18فروری 2008کے الیکشن ہوتے ہیں، اس حلقہ سے سفیان یوسف ایم کیو ایم کے امیدوار ہوتے ہیں انہیں ایک لاکھ86ہزار933ووٹ ملتے ہیں اور وہ کامیاب قرار پاتے ہیں۔اب ہم آجاتے ہیں 11مئی2013کے عام انتخابات کی جانب اس انتخاب میں ایم کیو ایم پاکستان پیپلز پارٹی سے ٹوٹ کر آنے والے رکن اسمبلی بلوچ سردار نبیل گبول کو اس حلقہ سے اپنا امیدوار نامزد کرتی ہے۔ نبیل گبول صاحب کو ایم کیوایم راس نہیں آئی حالانکہ انہیں اس حلقے سے 37ہزار 824ووٹ ملے ۔ انہوں نے مئی 2013سے کوئی مارچ 2015تک یعنی دو سال اسلام آباد میں گزارے، حلقے میں آنا تو دور کی بات کراچی میں ہی نہیں آئے، سردار، شاہی مزاج، خاندانی رئیس بھلا ایم کیوایم کے جلسوں میں دریوں پر کیسے بیٹھ سکتے تھے۔ گھنٹو الطاف حسین کا خطاب سننا ان کے بس کی بات ہی نہیں تھی۔ انہوں نے نے ایم کیو ایم کو آگے جانے کی سواری سمجھا تھا ۔ انہیں جانا آگے ہے ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لوٹ کے بدھو گھر کو آئے وہ واپس پی پی میں بھی جاسکتے ہیں۔ زرداری صاحب سے بات بن نہیں رہی۔ تاریخ تو یہ بتا تی ہے زرداری صاحب نے سچ کہا کہ جو پیپلز پارٹی سے گیا وہ گمنامی میں چلا گیا۔ پیپلز پارٹی میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں ۔ یہی نہیں کیو ایم میں بھی ایسے مثالیں ہیں کہ جن کو بے پناہ مقبولیت حاصل تھی، ہر روز ٹی وی شو میں فلسفی بنے گفتگو کیاکرتے تھے جس دن ایم کیوایم سے گئے بے نام و نشان ہوگئے۔ اس بات کا اشارہ خود الطاف حسین نے اپنی تقریر میں ان لوگوں کے نام لے کر کیا اور واقعی ایسا ہی ہے ۔

اب تک کے انتخابات کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے 23اپریل 2015کے ضمنی الیکشن کو دیکھیں تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ الیکشن کا رزلٹ یک سر الٹ جائے۔ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ الطاف حسین ان دنوں کئی معاملا ت جیسے عمران فاروق کیس، منی لانڈرنگ کیس اور رہی سہی کثر نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے ، وہاں سے گرفتار ہونے والے ملزمان، سزایافتہ قیدی، بھتہ خوری میں مطلوب لوگ اور نہ جانے کیسے کیسے گھناؤنے عمل کرنے والوں کی وہاں سے گرفتاری، غیر ملکی اسلحہ وغیرہ وغیرہ ، اور اس کے نتیجے میں میڈیا کی جانب سے کی جانے والی طوفانی مہم، پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کی جانب سے ایم کیو ایم پر تیروں کی بارش، کالم نگاروں کے ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے خلاف نہ جانے کیسے کیسے الزامات اور تجزیے۔ سب سے بڑھ کر کپتان کو موقع مل گیا کہ وہ ایک بار پھر الطاف حسین کی کھل کر مخالفت شروع کردے اور کی، حالانکہ اپنے دھرنوں کے دوران اور اس کے بعد کپتان کو ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے طرف سے چپ سی لگ گئی تھی۔ کیایہ مصلحت تھی ، وہ صرف گو نواز گو پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھنا چاہتے تھے ۔ اب موقع مل گیاتھا ، تحریک انصاف کا ہر کارکن شیر کی طرح دھاڑ تا، ایم کیو ایم کو للکارتا نظر آنے لگا، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں بھی یہی کچھ کرتی دیکھا ئی دے رہی تھیں۔ زرداری صاحب نے اپنے بندوں کو خاموش رکھا اور وہ اس پالیسی میں کامیاب بھی رہے۔ زرداری صاحب کے سابقہ دوست پیپلز پارٹی کے بے لگام سیاسی ورکر سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے اس دوران پر پرزے نکالے پریس کانفرنسیز کیں، بیانات بھی دیے لیکن وہ اپنی چال میں کامیاب نہ ہوئے۔

الیکشن کمیشن نے حلقہ 246میں ضمنی الیکشن کا اعلان کردیا اور 23اپریل کو یہ میدان سجا، بے شمار سیاسی لوگوں، تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ الطاف حسین سخت دباؤ میں ہے، ایم کیو ایم میں دھڑے بنے ہوئے ہیں وہ کسی بھی وقت نعرہ تکبیر کہہ کر باہر آسکتے ہیں۔ اس بات کے خواہشمند ان کے انتظار میں رہے ، ناامیدی اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔خیال تو یہ تھا کہ کپتان میچ جیت ہی جائے گا بلکہ الطاف حسین کو کلین بولڈ کر دے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، کپتان اور اس کے ساتھی جو کراچی میں 23اپریل کے میچ میں شامل تھے ضرورت سے زیادہ آگے نکل گئے۔ حالانکہ کراچی میں تبدیلی کی جانب ہوا چلنا شروع ہوگئی تھی لیکن کپتان نے بعض ایسے بیانات دے ڈالے جیسے کہا کہ ’میں کراچی فتح کرنے جارہا ہوں‘ پتہ نہیں یہ بیان درست ہے یا غلط لیکن اس قسم کے بیانات اور کپتان کے فرنٹ فٹ پر کھیلنے والے کھلاڑیوں نے بعض اوچھے ہت کنڈے استعمال کیے جس سے اس حلقے کے لوگوں نے الٹا کپتان اور اس کی ٹیم کو ناک آؤٹ کردیا۔ ایم کیو ایم کے امیدوار کنور نوید جمیل کو 93ہزار ووٹ ملے جب کے کپتان کے امیدوار عمران اسمٰعیل کو 23ہزار ووٹ ملے، جماعت اسلامی کے امیدوار راشد نسیم کو 9ہزار ووٹ ملے۔ یعنی کپتان کے امیدوار سے ایم کیو ایم کے امیدوارکو 70ہزار زیادہ ووٹ ملے اور جماعت اسلامی کے امیدوار سے 84ہزار زیادہ ووٹ ملے۔بھلا کوئی موازنہ ہے ۔ اب تو ٹھپے لگانے کا الزام بھی نہیں لگایا جاسکتا، جعلی ووٹنگ کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ نبیل گبول کے الیکشن میں اس کے مخالف امیدوار احمد شرجیل کو 31ہزار 874ملے تھے۔ اس اعتبار سے ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم کے امید وار کو زیادہ ووٹ پڑے اور مخالف امید وار نمبر دو کو پہلے سے کم ووٹ ملے۔ باوجود اس کے کہ یہ الیکشن رینجرز کی نگرانی میں ہوا، اور ہر پولنگ اسٹیشن میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب تھے۔دھاندلی اور جالی ووٹنگ کی جو شکایات سامنے آئی ہیں وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کپتان نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شکست تسلیم کر لی۔ یہی سیاسی دانشمندی تھی۔ اب کپتان کے ساتھیوں کو بھی الیکشن کی گرمی سے باہر آجانا چاہیے ۔ کراچی یہاں رہنے والے تمام لوگوں کا ہے۔ الیکشن میں جو کچھ ہوا اسے بھلا کر عوام کی بھلائی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی جنہوں نے کسی مصلحت کے باعث ایم کیو ایم مخالف جماعت کی حمایت کی ، حکومت کو بھی ، سیاسی اور دیگر مقتدر اداروں کوبھی اس حلقہ کے رزلٹ کو تسلیم کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو تسلیم کر نا چاہیے۔ سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری نے درست کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کریں اور باہمی رواداری اوربرداشت کا ماحول پیدا کیا جائے۔(جدہ ، سعودی عربیہ24اپریل2015)

 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1436938 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More