چوہدری نثار علی خان 1985سے ممبر
قومی اسمبلی منتخب ہوتے آرہے ہیں جو یقینا ایک ریکارڈ ہے۔ 2002سے قبل
چوہدری نثار صرف ٹیکسلا سے قومی اسمبلی کی نشست پر اانتخابات لڑتے رہے جبکہ
2002کے انتخابات میں چوہدری نثار نے دو قومی اسمبلی کی نشستوں پر انتخاب
لڑا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ان انتخابات میں چوہدری نثار نے حلقہ این اے
باون سے پہلا بار انتخابا ت میں حصہ لیاجبکہ این اے تریپن سے وہ پہلے بھی
انتخابات میں حصہ لیتے رہے۔ان انتخابات میں چوہدری نثار حلقہ این اے باون
سے تو جیت گئے لیکن اپنے آبائی حلقہ این اے تریپن سے ہار گئے۔2008کے
انتخابات میں پھر دونوں حلقوں سے انتخابات میں حصہ لیااس بار دونوں حلقوں
سے کامیابی نے چوہدری نثار کے قدم چومے۔گذشتہ انتخابات کی شکست کو مدنظر
رکھتے ہوئے این اے تریپن کی نشست اپنے پاس رکھی اور این اے باون کی نشست
خالی کردی اور یہاں سے میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ممبر
اسمبلی منتخب کروایا۔2013کے انتخابات میں پھر قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں
سے انتخابات میں حصہ لینے کیساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی چھ سے
بطور آزاد امیدوار بھی حصہ لیا۔صوبائی اسمبلی کا بطور آزاد امیدوار حصہ
لینا بھی ایک الگ کہانی ہے۔حلقہ پی پی چھ مسلم لیگ ن کے موجودہ سینیٹر
چوہدری تنویر خان کا آبائی حلقہ سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ عرصہ دراز سے چوہدری
نثار اور چوہدری تنویر کے درمیان حالات کشیدہ آرہے ہیں۔ انہی کشیدہ حالات
کیوجہ سے چوہدری نثار نے پی پی چھ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات
میں حصہ لیا اور انتخابات جیت کر یہ ثابت کردیا کہ پی پی چھ کسی کا بھی
آبائی حلقہ نہیں ہے۔البتہ چوہدری نثار کے پی پی چھ کی سیٹ چھوڑنے کے بعد
پھر ٹکٹ چوہدری تنویر کے بھتیجا کو ملا ۔کچھ ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ
چوہدری نثار نے صوبائی اسمبلی کی نشست پر سے اس لئے حصہ لیا تھا کہ وہ
’’تخت لاہور‘‘ کے امیدوار تھے لیکن شاہی حکم کی بجاآوری کرتے ہوئے وفاقی
وزرات داخلہ پرمتمکن ہو گئے اور تاحال متمکن ہیں۔
چوہدری نثار پر ایک یہ اعتراض کیا جاتا ہے مشرف کیخلاف تحریک میں ان کا
کوئی خاص کردار نہ تھالیکن چوہدری نثار کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ 2002کے
انتخابات میں جہاں ن لیگ نے پورے ملک سے شاید اٹھارہ نشستیں حاصل کی تھیں
جن میں سے ضلع راولپنڈی سے ایک نشست قومی اسمبلی کی حاصل کی تھی جوکہ
چوہدری نثار علی خان کی تھی۔ اس ابتلا کی دور میں اسمبلی میں چوہدری نثار
کی کارکردگی ٹھیک رہی۔ایک اور بڑی قربانی جو چوہدری نثار نے دی وہ گذشتہ
سال دی تھی جب عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے دھرنے کیوجہ سے حکومت شدید
مشکلات میں تھی توحکومت نے سابق صدر آصف زرداری کی تجویز پر پارلیمان کا
مشترکہ اجلاس بلایا جس میں چوہدری نثار کی ایک تقریر کے جواب میں
پیپلزپارٹی کے چوہدری اعتزاز احسن نے ان کی خوب کلاس لی لیکن میاں برادران
کی خواہش پر چوہدری نثار ایسے انا پرست او ر ضدی راجپوت نے جواب نہ دیا اور
بحث کو بھی ایک پریس کانفرس کے ذریعے ختم کردیا۔یاد رہے کی چوہدری نثار کی
منفی شہرت میں اناپرستی،ضد کے ساتھ ساتھ کارکنان حتی کہ ساتھی پارلیمنٹرینز
کے ساتھ درشت رویہ بھی زبان زد عام ہے۔
حالیہ دنوں میں چوہدری نثار اور میاں نواز شریف کے درمیان شدید نوعیت کے
اختلافات کی خبر پھر گرم ہے۔ جس کی بنیادی وجہ چوہدری تنویر کا سینیٹر
بنایا جانا بتایا جاتا ہے۔اسی وجہ سے دیکھا گیا کہ چین کے صدر کے حالیہ دور
پاکستان میں وہ کچھ زیادہ سرگرم نظر نہ آئے بلکہ کچھ مواقع سے غائب بھی
رہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایم کیوایم کے عمران فاروق قتل کیس کے مبینہ
سہولت کار کی برطانیہ حوالگی اور یمن معاملہ پر یو اے ای کے وزیر داخلہ کے
غیر سفارتی بیان پر چوہدری نثار کا دلیرانہ جواب بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔
ان دونوں واقعات نے ن لیگی حکومت کے لئے مسائل زیادہ کیئے۔یادر ہے کہ
امارتی وزیر داخلہ کو کرارا جواب اور چند ہفتے قبل کامیاب دورہ امریکہ
کیوجہ سے چوہدری نثار ایک قومی راہنما کا اسٹیٹس حاصل کر چکے ہیں۔وقت تحریر
تک یہ خبر بھی آچکی ہے کہ میاں شہباز شریف چوہدری نثار اور میاں نواز شریف
کے بیچ راضی نامے کے لئے متحرک ہو چکے ہیں۔امید ہے کہ وہ حسب سابق کامیاب
ہوں گے۔کیونکہ چوہدری نثار کی کامیابیوں میں یقینا میں برادران کی قیادت کا
بھی ہاتھ ہے۔
اس بظاہر بحرانی دور میں جب چوہدری نثار کے حلقہ انتخاب کے مسلم لیگی
راہنماؤں کی رائے کے حوالے سے کام کیا گیا کہ جن کہ اخباری بیانات،
اشتہارات اور بینرز پر صرف چوہدری نثار ہی ہوتے ہیں تو ان میں سے اکثریت نے
کا موقف یہ تھا کہ ان کی چوہدری نثار سے وفاداری ن لیگ کیوجہ سے ہے اگر
چوہدری نثار مسلم لیگ ن کو خیر آباد کہتے ہیں تو وہ لوگ ان کے ساتھ مسلم
لیگ کو نہیں چھوڑیں گے۔کیونکہ ان کی چوہدری نثار کیساتھ کمٹمنٹ ان کی مسلم
لیگ ن سے وفاداری سے مشروط ہے۔یاد رہے کہ روایات کے مطابق انتخابات میں ’’ہوا‘‘
کے رخ کا بھی ایک خاص اثر ہوتا ہے۔
یہ بھی اہم بات ہے کہ کارکنا ن تو کارکنا ن ہیں ممبران اسمبلی چوہدری نثار
کے آمرانہ طرز کے شاکی ہیں۔موجودہ صورتحال میں اگر بالفرض محالہ چوہدری
نثار مسلم لیگ ن سے راہیں جدا کرتے ہیں ( جو کہ راقم کی نظر میں فی الحال
ممکن نہیں)تو حلقہ کے تمام ووٹرز ان کے لئے بغیر مسلم لیگ نے کے ٹکٹ کے چشم
براہ نہیں ہوں گے۔اس تمام تر صورتحال کو جلالی میاں کے سامنے رکھتے ہوئے
چوہدری نثار کے لئے مشورہ مانگا تو زیادہ لمبے چوڑے جواب کے بجائے وہ علامہ
اقبال کا یہ مصرع گنگنانے لگے۔
موج ہے دریامیں ،بیرون دریا کچھ نہیں |