ملالہ اور نوبل انعام

 (یہ آرٹیکل ۲۴، اکتوبر۲۰۱۲ کو لکھا گیا تھا)
جس جس نے اپنے اپنے آرٹیکل میں یہ لکھا کہ ملالہ کے ساتھ والی اس بچی شازیہ کا کیا قصور تھا جس کو سیدو شریف کے ہسپتال میں وہاں کے ڈاکٹرز کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا گیا جب کہ ملالہ کے لیے پاکستان کے سی۔ایم۔ایچ ہسپتال، عمران خان کا شوکت خانم ہسپتال کے ساتھ ساتھ امریکہ، برطانیہ سمیت شاید ہر بڑے ملک نے علاج کی پیشکش کی ہے۔ہاں جی، وہ بچی قصوروار تھی۔ اس بچی کا قصور یہ تھا کہ اس نے کبھی بھی حیثیت سے بین الاقوامی طور پر کچھ بھی شیئر نہیں کیا۔ نہ اس نے کبھی طالبان کے خلاف کوئی بات کی نہ اس نے اسلام کے خلاف کوئی بات کی۔نہ اس نے پاک فوج کی سوات میں فوجی کارروائی پر کسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا۔ نہ اس بچی نے کبھی خواتین پر ظلم کی بات کی اور نہ ہی اس نے یہ لکھا کہ سوات کی خواتین کو باہر نکلنے سے منع کیا جاتا ہے۔ اگر وہ بچی بھی اور شاید تیسری بچی بھی یہ سب کچھ کہہ سکتی تو آج وہ بھی ملالہ کے ساتھ کسی اچھے ہسپتال میں اپنا علاج کرا رہی ہوتیں۔

ڈاکٹر عبدالسلام کو 1979 عیسوی میں طبیعات کا نوبل انعام دیا گیا۔ اگر تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو آج تک جن جن افراد کو یہ نوبل انعام ملا ہے ان میں سے ننانوے فیصد غیر مسلم ہیں۔ ڈاکٹر عبد السلام کو مسلمان قطعاً نہ سمجھا جائے کہ وہ قادیانی ہیں۔ اور قادیانیوں کو تمام مسلم امہ غیر مسلم قراد دے چکی ہے۔ جو باقی بچے ، ان میں ایک خاتون شیرین عبادی ایران کی ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہلاتی ہیں اور شاید یہ ملالہ بھی اس خاتون کے ساتھ آئندہ کسی سال میں نوبل انعام لینے والی دوسری مسلمان خاتون بن جائے۔ لیکن بنظر غائر دیکھا جائے تو شیرین عبادی کو اگرچہ امن کا نوبل انعام ملا ہے، لیکن اسکے پیچھے جو وجوہات ہیں، وہ ایران والے بھی جانتے ہیں اور اسلامی ممالک بھی۔ جو خاتون انسانی حقوق کی خواتین کی چیئرپرسن ہو، خواتین اور بچوں کے ان حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہو جو دینِ اسلام نے 1400 سال پہلے ہی عطا کردیے ہیں۔ تو ایسی خاتون یقینا نوبل انعام کمیٹی کی نظروں میں بہت اعلیٰ مقام کی حامل ہو گی۔ کیونکہ جن حقوق کی بات یہ محترمہ کرتی رہی ہیں وہ یہ ہی ہوں گے کہ ان کو بازاروں میں کھلے عام گھومنے پھرنے دیا جائے، مخلوط محفلوں میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے، حکومت میں جتناحصہ مرد حضرات کا ہے اتنا ہی خواتین کا بھی ہونا چاہیے۔ اگر کوئی خاتون پردہ کرنا چاہے تو اسکی مرضی، کسی پر یہ پابند لاگو نہ کی جائے۔ بلکہ بقول اس قسم کی تنظیموں میں شامل خواتین کے پردہ تو پتھر کے زمانے کا رواج تھا، اب جدت پسندی اختیار کرنی چاہیے۔ تو مجھے نہ جانے کیوں لگتا ہے کہ اگر خوش قسمتی سے ملالہ زندگی کی طرف لوٹ آئی تو اس نے بھی زندگی کے کسی مقام پر امن کا نوبل انعام ضرور حاصل کرنا ہے۔ امن کا نوبل انعام، جس کے بانی نے ڈائنامائیٹ ایجاد کیا تھا۔

ملالہ، گل مکئی کے نام سے بی بی سی کو مکتوب لکھا کرتی تھی اور اس میں لکھا کرتی ہو گی کہ طالبان نے اسکا گھر سے نکلنا بند کر دیا ہے، کیونکہ انھوں نے سکول ہی بند کردیے ہیں۔ میں طالبان کی طرفداری نہیں کر رہا کیونکہ انھوں نے یہ کام یقینا غلط کیا تھا۔ کہ تعلیم کا حق مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی اتنا ہی ہے۔ اور پھر یہ تو بچیوں کا سکول بھی علیحدہ ہوتا تھا، جس میں خواتین استانیاں پڑھایا کرتی ہوں گی۔ لیکن گل مکئی یہ لکھنا بھول گئی کہ بچیوں پر تو تعلیم کی پابندی لگ گئی ہے لیکن لڑکے بھی اس نعمت سے فی الوقت معذور ہیں۔ انکے والد محترم مرد ہوتے ہوئے بھی سکون سے نوکری بھی نہیں کر سکتے۔ یہاں تک کہ شاید مساجد بھی خدا کے خوف کی بجائے طالبان کے خوف سے آباد ہوتی ہوں گی۔ گل مکئی یہ بھی لکھنا بھول گئی کہ اب اگر کوئی خاتون گھر سے نکل کر کہیں کسی رشتے دار کے گھر بھی جاتی ہے تو اسکو کوئی مرد نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ اس خاتون کو اب یہ ڈر نہیں ہوتا کہ کوئی اسکے نظروں نظروں میں ہی ایک ہی نظر میں گھر تک پہنچا کر نہیں آتا۔ گلی مکئی یہ لکھنا بھول گئی کہ پہلے اسکے علاقے میں گناہوں کے پارک ہوتے تھے، جہاں مرد عورت مخلوط گھوما کرتے تھے، بلکہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، ایک دوسرے سے آنکھوں ہی آنکھوں میں بات چیت کر کے دوستی کیا کرتے تھے، اب ان گناہوں سے لوگ کافی حد تک بچ چکے ہیں۔

لیکن جو کچھ گلی مکئی نے لکھا ہو گا وہ امریکہ، برطانیہ اور دوسرے غیر مسلم انسانی حقوق کی تنظیموں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا۔ وہ تنظیمیں جنھیں کشمیر میں، فلسطین میں، فلپائن میں، برما میں کبھی کسی قسم کا ظلم نظر نہیں آیا۔ بس پھر کیا تھا ان تنظیموں نے اپنے نمائندے مختلف روپ میں بھیج کرگل مکئی کے حوالے سے اس علاقے کا سروے کرتے رہے اور عین گل مکئی کے دل کی آواز کی طرح اپنی رپورٹیں اپنے افسرانِ اعلیٰ کو پہنچاتے رہے۔ نتیجہ کیا تھا، ملالہ کی بین الاقوامی ایوارڈ کے لیے نامزدگی۔ جو کہ اگرچہ اسے نہ مل سکا لیکن بین الاقوامی طور پر اسکی ایک پہچان بن گئی۔ ان ہی غیر مسلم آقاؤں کے کہنے میں ملالہ کو امن کو قومی ایوارڈ دیاگیا۔ اسکا کارنامہ کیا تھا ، سوات میں امن قائم کرنا اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جدو جہدکرنا۔

مجھے یہ بھی یقین ہے کہ اگر طالبان چند سال مزید سوات میں رہ جاتے تو ملالہ کو بین الاقوامی ایوارڈ بھی اب تک مل چکا ہوتا بلکہ شاید اس وقت وہ امریکہ ، برطانیہ میں سے کسی ملک کی شہری ہوتی اور اسکو وہاں تمام شہری سہولیات میسر ہوتیں، ویسے ہی جیسے شیریں عبادی آج کل برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہے۔ کیونکہ ایران کی حکومت نے اسکے نظریات کو قبول نہیں کیا تھا بلکہ شاید اسکے نوبل ایوارڈ کو ضبط بھی کر لیا تھا۔ تو اگر طالبان چند سال اور سوات میں اسلام کے قوانین کو لاگو کیے ہوئے رہتے تو ملالہ آج کی بجائے 2، 3 سال پہلے ہی بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کرکے شہرت کی بلندیوں کو چھو رہی ہوتی۔
آج جس اخبار کو اٹھا کر پڑھا جائے، جس ٹی وی چینل کو دیکھا جائے ملالہ کی خبر کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ملالہ کو مستبقل کے نوبل انعام کے ساتھ پاکستان میں کوئی اعلٰی عہدہ دینے کی بھی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ نیوز کاسٹر اسکے حوالے سے ایک بات خاص طور پر کہتے ہیں کہ اسکی صحت یابی کے لیے خاص طور پر دعا کی گئی۔ اﷲ پاک اسے صحت دے، روحانی بھی اور جسمانی بھی۔ اسکو اپنے راہ پر چلنے کی عملی توفیق عطا کرے، پھر میں دیکھتا ہوں کہ ملالہ کب تک امریکہ ، برطانیہ کی چہیتی بیٹی رہتی ہے۔ اگر اسامہ بن لادن نے ملالہ کی صورت میں نہ جنم لیا تو کہییے گا کہ میں نے غلط کہا۔ میری دل سے دعا ہے کہ اﷲ اسکو روحانی صحت بھی عطا کرے اور وہ خود ہی اپنے موجودہ نظریات سے پھر کر اﷲ پاک کے پاک دین کو پھیلانے میں لگ جائے اور مستقبل کی رابعہ بصری کی پیرو کارثابت ہو۔

اﷲ پاک ہم سب کو اپنے دین پر ہر لحاظ سے عمل کی توفیق عطا فرمائے، کہ یہ بہت پیارا اور سادہ دین ہے۔ عین انسانی فطرت کے مطابق۔ عورت چاہتی ہے کہ وہ محفوظ رہے، ہر تکلیف دہ چیز سے، اور مرد کی نظر سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔ تو اسلام نے اسکا آسان حل پردہ کی صورت میں فرما دیا۔ اﷲ ہم سب پر رحم فرمائے، آمین۔
Ibn e Niaz
About the Author: Ibn e Niaz Read More Articles by Ibn e Niaz: 79 Articles with 71219 views I am a working, and hardworking person. I love reading books. There is only specialty in it that I would prefer Islamic books, if found many types at .. View More