کسانوں کی خود کشی
(Shamim Eqbal Khan, India)
’اِنفارمیشن ٹکنالوجی ‘نے
دنیا کو سمیٹ کرمٹھی میں لاکر رکھ دیا ہے اور ہم جب بھی مٹھی کھولتے ہیں
ہمیں نئی سے نئی اطلاعات اُسی طرح ملتی رہتی ہیں جس طرح ہم ابھی تک ’گردن
جھکا کر تصویر یار دیکھ لیا کرتے تھے (جب بھی زراگردن جھکائی دیکھ لی تصویر
یا)‘ ۔ہندوستان میں 60فی صد لوگوں کا گزر بسر کھیتی کسانی پر ہے۔انھیں کی
محنت سے پیدا شدہ غلہ بقیہ چالیس فی صدلوگ بھی کھا کر ڈکار مارتے ہیں اور
یہ نہیں سوچتے ہیں کہ جو غلہ کھا کر ہم نے ڈکار ماری ہے وہ غلہ کتنی محنت
سے کسان اُگاتا ہے اور اُسے ہم ساہو کاروں سے مہنگے سے مہنگا خرید کر کھاتے
ہیں لیکن کسان اپنی ضروریات زندگی بھی نہیں پوری کر سکتاہے اور مرنے تک سوچ
لیتا ہے اور مر کر دکھا بھی دیتا ہے۔این․سی․آر․بی(نیشنل کرائم رکارڈ بیورو)
کی اطلاعات کے مطابق بھارت میں46 کسان یومیہ خود کشی کر رہے ہیں۔1995سے
2013 تک کُل اٹھارہ سالوں میں 2,95,438کسانوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ بھارت
کی کُل خود کشیوں میں 11.2فی صد خود کشی کسانوں کی ہوتی ہے۔ان خودکشیوں کے
پیچھے دانشوروں کے الگ الگ خیالات ہیں جیسے مانسون کی آنکھ مچولی، قرض کا
بوجھ،جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلیں، حکومت کی پالیسیاں،عوامی ذہنی
صحت،ذاتی اور خاندانی مسائل وغیرہ۔
مندرجہ بالا ڈاٹا میں گجیندر سنگھ کی خود کشی شامل نہیں ہے۔کیونکہ یہ ایک
ایسی بھارتی فلم تھی جس کا اختتام صانحہ پر ہوتا ہے(حالانکہ اس طرح کی
فلمیں اب نہیں بنتی ہیں کیونکہ اب کوئی ٹریجڈی کِنگ نہیں ہے)۔یہ سانحہ اس
فلم کے اسکرپٹ میں نہیں تھا لیکن صانحہ بن گیایا بنا دیاگیاکیونکہ قدرت
کویہ دکھانا تھا کہ’ہم ڈرامہ کو بھی حقیقت بنا دیا کرتے ہیں‘۔جنتر منتر کا
یہ حادثہ ’عام آدمی پارٹی‘ کی میٹنگ کے دوران عمل میں آیا۔گجیندر سنگھ کو
آج بھارت کا بچہ بچہ جان گیا ہے لیکن مرنے کے بعد۔شاید وہ اتنی شہرت اپنی
زندگی میں پانا چاہتے تھے۔اپنی خواہش پوری کرنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا
ہے،ورنہ شدّاد نے اپنے لیے جنّت بنائی تھی لیکن وہ اس میں داخل نہیں ہو سکا
۔ یہ اس کی خواہش ضرور رتھی لیکن اس کی قسمت نہیں تھی۔
گجیندر سنگھ با عمل ضرور تھے۔انھوں نے دوبار اسمبلی کا انتخاب بھی لڑا لیکن
ہار گئے، ان کی ویب سائٹ تھی،جے پوری صافہ کا کاروبار بھی کرتے تھے، پگڑی
کے ماہر تھے اس سلسلہ میں انھوں نے قومی انعام بھی حاصل کیا۔فلموں میں پگڑی
باندھنے کے لیے ان کی خدمات لی جاتی تھیں، قومی لیڈروں کی بھی پگڑی باندھتے
رہتے تھے لیکن وہ ان کی شہرت کی وجہ نہیں بن سکی ہاں اگر کسی نیتا کی پگڑی
اچھال دیتے تو کامیابی کے آثار کچھ بن سکتے تھے۔اس کام میں ان کو شاید یہ
خطرہ لاحق ہو کہ میں تو پیچھے رہ جاؤں گا اُس کی شہرت میں چار چاند اور لگ
جائیں گے، لہذا بہترتو یہی ہے کہ جو بھی کرناہے اپنے دم پر کرو۔یہی سب سوچ
وچار کر کے، جے پور سے چل کر جنتر منتر ، نئی دہلی پہنچے اور سماج وادی
پارٹی کی ٹوپی اُتار کر، ہاتھ میں جھاڑو پکڑ کر شہرت کی بلندیوں کو چھونے
کے لیے ہزاروں کے مجمع میں پیڑ پر چڑھ گئے۔
خود کشی کرنے والے بہت سے لوگ بچا لیے جاتے ہیں۔کسی نے مٹّی کا تیل اپنے
اوپر چھڑک لیا لیکن ماچس جلانے سے پہلے وہ پکڑ لیا جاتا ہے۔ شاید اسی طرح
سے گجیندر سنگھ نے بھی کچھ سوچ رکھا ہو کہ میرے لٹکنے سے پہلے لوگ مجھے بچا
لیں گے ۔اسی لیے اس نے اپنے بھائی کو فون بھی کیا ہوگا کہ ٹی․وی․ کھلو اور
مجھے دیکھو، اس سے پہلے وہ اپنی بہن سے بھی بات کر چکا تھا۔بہر حال اس کی
موت پر کافی سیاسی روٹیا سینکی جائیں گی جن میں کچھ روٹی جلیں گی اور کچھ
کچی رہ جائیں گی۔
کسانوں کی خود کشیاں پہلے بھی ہوتی تھیں، اب بھی ہوتی ہیں لیکن اب کچھ
دِکھنے زیادہ لگی ہیں یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحویل آراضی آرڈیننس کی
مخالفت میں لوگ دیکھنے زیادہ لگے ہیں اور موسم کی مار بھی ذمہ داری نبھا
رہی ہے۔مودی جی نے کہا ہے ’’کسی کسان یا انسان کی موت سے بڑا سانحہ کوئی
نہیں ہو سکتا اور وہ اس سلسلہ میں اپوزیشن کی تجاویز کا خیر مقدم کریں
گے‘‘۔یہ ہویٔ ۵۶؍انچ سینے والی بات لیکن یہ بات اُسی وقت مانی جائیگی جب وہ
’خیر مقدم کریں!‘ اور اسے ’جملہ‘ نہ بنائیں۔تحویل آراضی قانون جو پہلے تھا
، آپ کی پارٹی کی رضامندی بھی اسے حاصل تھی۔لیکن اب جو آرڈیننس تھوپنا چاہ
رہے ہیں اس میں کسان بھوک سے بھی مریگا اور نا قابل برداشت حالت میں خود
کشی بھی کریگا۔اور ہم ’جے کسان‘ کا نعرہ لگا کر اُسے ’بھاؤ بھینی شردھانجلی
ارپِت کرتے ہوئے دفن کر دیا جائیگا‘۔
|
|