کراچی آ پریشن۔۔۔۔ایم کیو ایم کی ساخت میں فرق؟
(Haji Naseer Khan Khosa, )
متحدہ قومی مو ومنٹ یا متحدہ
قومی تحریک کی بنیاد 1978ء میں ایک لسانی تنظیم کے طور پر رکھی گئی ۔ اس
تنظیم کے بانی الطاف حسین تھے اور اس کے قیام کا ایک اہم مقصد جامعہ کراچی
میں زیر تعلیم اردو بولنے والے طالب علموں کے مفادات کا تحفظ تھا۔ بعد ازاں
اس تنظیم نے اپنے دائرے کو وسعت دے کر اسے صوبہ سندھ کی سیاسی جماعت کا
درجہ دے دیا ۔ ابتدائی دور میں ایم کیو ایم سے مراد ’’ مہاجر قومی موومنٹ‘‘
تھا 1997ء میں اس جماعت نے خود کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے اپنا
نام سرکاری طور پر مہاجر قومی موومنٹ سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھا اور
اپنے دروازے دوسری زبانیں بولنے والوں کے لئے بھی کھول دیے۔اسی طرح کراچی ،
حیدر آ باد، میر پورخاص، شکار پور اور سکھر ایم کیو ایم کی گڑھ تصور ہوتے
ہیں۔ بلوچستان کے جعفرآباد ، ں نصیر آ باد ، کوئٹہ و دیگر اضلاع میں کافی
فعال ہے اور پنجاب میں بھی مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔
نبیل گبول ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کیا تو جنرل الیکشن میں اسے ایم
کیو ایم کے قائد الطاف حسین بھائی اپنا زاتی نشست تحفہ میں دی پارٹی کے
مرکز نائن زیرو عزیز آ باد کے حدود این اے 246 سے بھاری اکثریت 137874ووٹ
سے کامیابی حاصل کی جبکہ پی ٹی آ ئی کے امیدوار عامر شرجیل کو 31875ووٹ ،
جماعت اسلامی کے امید وار10321، مومن ظفر خان آ زاد امیدوار کو3541ووٹ اور
پی پی پی کے امیدوارشہز اد مجید کو1716ووٹ چار اور امیدواروں کو 1000 ملے
تھے ۔ نبیل گبول کی خوش قسمتی تھی کہ قائد الطاف حسین بھائی نے خود ہی ان
پر مہر بانی کر کے ایک محفوظ ترین نشست تحفے میں دی( نیکی راس کس کو آ تا
ہے ) اور بعد ازان نبیل گبول نے سیاسی ماحول کے مطابق ۔ تو این اے 246 پر
نشست خالی ہوگئی الیکشن کمیشن نے اس حلقے پر ضمنی انتخابات کا شیڈول
23اپریل جاری کیا تھا ۔ گزشتہ روز الیکشن ہو گئے ۔الیکشن سے قبل یہاں بہت
سیاسی گہما گہمی تھی۔ تین سیاسی جماعت میدان میں تھے ایم کیو ایم کا تو
مرکز اور مضبوط ترین نشست تھا ۔ لیکن تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی
یہاں میدان میں اترے ۔ ن لیگ ، پی پی پی و دیگر سیاسی جماعتوں نے ایم کیو
ایم کے ساتھ اصلا ح اور قائد ایم کیوایم کی زاتی نشست کی احترام کرتے ہوئے
اپنے امیدوار کھڑا نہیں کئے ۔ جبکہ ایم کیو ایم نے کنور نوید بھائی کو اس
نشست پر ٹکٹ فراہم کیا تحریک انصاف نے اپنے ساتھی عمران اسماعیل جماعت
اسلامی نے راشد نسیم کو ٹکٹ جاری کیا تھا۔عمران خان تو بہت خوش فہمی میں
تھے کراچی کی عوام ان کو پسند کرتا ہے اور نوجوان اسے ووٹ دیں گے اور
کامیابی حاصل ہوگی مزید کہتے تھے کراچی کی عوام ایم کیو ایم کی جال سے
نکلنا چاہتا ہے تیسری قوت کی انتظار میں ہے تحریک انصاف ان کی دل عزیز
جماعت ہے اور نیو جنریشن میں خواتین باالخصوص انھیں کامیاب کریں گی لیکن
افسوس ایسا نہیں ہوا ۔ ہوا وہی جو اکثر ہوتا ہے جہاں تک میرا سیاسی خیال
یہی تھا کہ ایم کیو ایم بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرے گی کراچی
مکمل کنٹرول میں ہے ۔ رزلٹ کچھ ا یسا رہا ایم کیو ایم کے امیدوار کنور نوید
نے 93ہزار 122ووٹ حاصل کیے ، عمران اسماعیل نے 22ہزار اور جما عت اسلامی کے
امیدوار راشد نسیم نے 9ہزار ووٹ لئے لیکن یہاں ٹرن آ ؤٹ معمول کے مطابق
35فیصد ہی رہا ۔ الیکشن رینجرز کی زیر نگرانی ہوئے ہیں رینجرز نے حالات و
واقعات کو کنٹرول کیا کسی قسم کی کوئی بڑی واقعہ پیش نہیں آ یا جس سے یہ
ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کسی حد تک درست ہوئے ہیں اور پر امن بھی۔
ایم کیو ایم کے رہنماء فاروق ستار بھائی نے اعتراف کیا ہے کہ ووٹنگ کے عمل
میں رکاوٹیں کھڑی کر کے ہماری جیت کی مارجن کو کم کیا جارہا تھا۔انھوں نے
مزید انکشاف کیا کہ انھیں میڈیا کے زریعے معلو م ہو رہا تھا کہ پولنگ
اسٹیشنریز پر رینجرز اور پولیس اہلکار ووٹروں سے ان کی انتخابات کے متعلق
معلومات بھی کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق کے
خلاف خواتین کے پولنگ بوتھ میں مرد سرکاری اہلکار موجود تھے ۔ ایم کیو ایم
کے امیدوار کنور نسیم نے کہا ہے کہ این اے 246میں ایم کیو ایم کے ووٹ کم
کرنے کے لئے ووٹرز کی حوصلہ شکنی کے اقدامات بھی کئے گئے تھے ڈبل سواری پر
پابندی ایم کیو ایم پر لگائی گئی تھی تاکہ پولنگ پر اثر اندازی ہو سکے ۔
ایک ہی کمرے میں 2,3قطاروں سے بد نظمی پیدا ہوئی ، چیکنگ کے نام پر ایم کیو
ایم کے ووتڑز کو پریشان بھی کیا گیا۔
جماعت اسلامی کے امیدوار راشد نسیم نے کہا ہے کہ رینجرز کی وجہ سے پولنگ پر
امن رہی ہے ورنہ حالات خراب ہو سکتے تھے ۔ پاکستان تحریک انصاف چیئر مین
عمران خان نیاعتراف کیاہے کہ پہلی مرتبہ ایم کیو ایم نے فیئر الیکشن لڑا ہے
۔ پاکستان تحریک انصاف سربراہ عمران خان نے تسلیم کر کے سیاسی میدان میں
ایک اچھی بات کی ہے ۔ الطاف حسین بھائی تو کسی سے تعصب نہیں رکھتے کراچی آ
تے وقت عمرا ن خان کو بہت عزت دلائی استقبال اور مقابلے کے لئے خوش آ مدید
بھی کہا ہے۔
بحرحال : کوئی مانے یا نا مانے لیکن الطاف حسین بھائی پر کتنے ہی الزامات
عائد ہوئے ہیں اور کتنے ہی جھوٹی ایف آ ئی آ ر درج ہوئے ہیں جس کی کوئی حد
نہیں جیساکہ ٹارگیٹ کلنگ ، بھتہ خوری اور قتل و غارت جیسے مقدمات درج ہوئے
جس سے ایم کیو ایم اور قائد الطاف حسین بھائی کا کوئی تعلق نہیں ہے قائد
الطاف حسین بھائی نے ایم کیو ایم کی ووٹ بینک پر اثر اندازی نہیں ہونے دیا
۔ 23اپریل ضمنی الیکشن تقریباََ صاف و شفاف ہوئے 93ہزار 122ووٹ حاصل کر کے
سیاسی میدان میں اپنی مقبولیت پالیسی اور استحکام کو جاری رکھا ۔ اس سے قبل
ایک لاکھ چالیس ہزار ووٹ تو پڑے تھے مگر اُن ووٹ میں تضاد یہ تھا وہ شفاف
نہیں تھے ۔ اس بار تو عمران خان نے بھی شکست تسلیم کیا کہ الیکشن شفاف ہوئے
ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ایم کیو ایم کراچی میں اپنی سیاسی بصیرت قائم ہے
عمران خان کی تبدیلی تو ممکن ہے لیکن جنرل الیکشن میں عمران خان کراچی سے
اچھی پوزیشن لے لیکنNA-246پر عمران خان کو مزید سخت محنت کی ضرور ت ہے۔ایم
کیو ایم نصیر آ باد زون نے این اے 246 میں کامیابی کی خوشی شاندار ریلی اور
جلسہ بھی منعقد ہوا جس سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بھائی نے خطاب
کیا۔ نصیر آ باد پاکستان کا واحد خطہ ہے جہاں سیاسی نہیں شخصی نظام ِ سیاست
ہے دو سابق وزیر اعظم حلقہ میں ایم کیو ایم کی پزیرائی قابل تعریف ہے ۔
جہاں کارکنان الرٹ ہوتے ہیں قائد الطاف حسین کی ہر کال پر لبیک اور خوش آ
مدید کہتے ہیں جو کہ ایم کیو ایم کو مزید فعال کرنے کا زریعہ بن سکتا ہے۔
کراچی کے ضمنی الیکشن میں بھر پور کامیابی کے بعد کوئی یا نہ کہے کہ ایم
کیو ایم کی ساخت کمز ور ہوئی ہے ۔ جھوٹے اور میڈیا ٹرائل نما گرفتاری ایم
کیو ایم پر آپریشن و الزامات ایم کیو ایم کو کوئی نقصان پہنچا نہیں سکتی
اور نہ ہی کارکنان میں انتشار پھیلا سکتا ہے ۔ کراچی ہر دلعزیز ہے جو عزیز
آباد کی طرح ایم کیو ایم کا گھر ہے گھر میں نشست کا مالک گھر کا مالک ہی
ہوتا ہے ۔ مستقبل میں پارٹی مزید فعال ہوگا ۔ کراچی آپریشن کے بعد تو سیاس
دانوں و تجزیہ نگاروں کے خیالات ہی مترادف ہوا کراچی میں ایم کیو ایم ہی ہے
۔ وہی ایم کیو ایم ، وہی ووٹ بینک اور وہی سلسلہ جو پہلے تھا ۔ مطلب یہ کہ
ایم کیو ایم سے ٹکرانے والی قوت ایم کیو ایم سے کمزور رہے گی۔ |
|