سلامتی کونسل نے یمن بحران
پرقراردادمیں فوری طور پر جنگ بندی کاحکم دیاہے جسے سعودی عرب کی ایک
سفارتی کامیابی سے تعبیرکیاجارہاہے۔یہی وجہ ہے کہ حکومت نے پارلیمنٹ کے
مشترکہ اجلاس میں منظورکی جانے والی متفقہ قراردادپرپیدا ہونے والی غلط
فہمیوں کے ازالے کی کوششیں شروع کردی ہیں اورمعاملہ کوٹھنڈاکرنے کیلئے قلیل
تعداد میں پاک فوج کے دستوں کی سعودی عرب روانگی متوقع ہے۔ دراصل یمن کے
تنازعے پرپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والی بحث پر سعودی عرب سمیت
اتحادمیں شامل دیگر خلیجی ممالک بھی مطمئن تھے تاہم آخری لمحات میں اس
متفقہ قرارداد میں شامل کیے جانے والے لفظ ''غیر جانبداری''نے سارے کئے
کرائے پرپانی پھیردیا۔
متفقہ قراردادمیں اگرچہ اس عزم کااظہارکیاگیاہے کہ مشکل کی گھڑی میں
پاکستان سعودی حکومت اور عوام کے شانہ بشانہ کھڑاہوگالیکن ساتھ ہی کہاگیاہے
کہ پاکستان کواس تنازعے میں غیرجانبداررہنا چاہئے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب
نے پاکستان سے بری،بحری اورفضائی مددفراہم کرنے کی درخواست کی تھی تاہم
ذرائع نے بتایا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائے جانے سے پہلے ہی سیاسی
وعسکری قیادت نے سعودی عرب کاقائل کرلیاتھاکہ سعودی سالمیت کویمن کے حوثی
باغیوں سے فوری طور پرکوئی خطرہ نہیں لہندافوری فوج بھیجنے کی بھی ضرورت
نہیں ہے تاہم آگے چل کراگرایسی کوئی صورتحال پیش آتی ہے تو سعودی عرب کی
علاقائی سالمیت اور حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے پاکستان فوج بھیجنے سمیت ہر
قدم اٹھائے گا۔سعودی شاہی خاندان مطمئن ہوگیاتھا،یوں پاکستان کی سیاسی
اورعسکری قیادت نے سارے معاملے کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ سنبھال لیاتھا۔
فوری فوج بھیجنے کا معاملہ ٹل گیا تھااور فوج بھیجنے کی مخالف سیاسی
پارٹیاں بھی خوش ہوگئی تھیں۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ابتدائی دنوں میں بھی بحث کاسارا محوران نکات
کے گردگھومتارہاکہ پاکستان کوپرائی جنگ میں نہیں کودناچاہئے تاہم اگرسعودی
عرب کی سالمیت یا حرمین شریفین کوخطرہ لاحق ہواتوساری قوم،سیاسی پارٹیاں،
حکومت اورعسکری قیادت اس خطرے کے خلاف ایک صفحے پرہوں گی ۔ذرائع کے مطابق
سعودی عرب کومطمئن اورقائل کرنے کے بعدہی یمن تنازعہ پرپارلیمنٹ کا مشترکہ
اجلاس بلانے کافیصلہ کیاگیاتھاتاکہ خارجہ امورسے متعلق اس حساس ایشو پر
تمام سیاسی پارٹیوں کااتفاق رائے حاصل کرلیا جائے، اس میں عسکری قیادت کی
مشاورت بھی شامل تھی۔ارکان نے پانچ روزتک یمن کی صورتحال پرپاکستان کے
متوقع کردارپربحث کی تاہم پانچویں روزمتفقہ قرار داد منظور ہونے سے پہلے اس
میں ''غیرجانبدار''رہنے کالفظ شامل کرادیاگیا۔
اگرچہ قراردادمیں لفظ غیرجانبدارشامل کرانے کاکریڈٹ عمران خان لے رہے ہیں
تاہم اجلاس میں شریک بعض رہنماؤں نے بتایاکہ پیپلزپارٹی، ایم کیوایم، اے
این پی نے بھی اس لفظ کوشامل کرانے میں کلیدی کردارادا کیاجس پرمتحدہ
امارات نے سخت ردّعمل کااظہارکرتے ہوئے اسے ایک طرح سے ایران کی حمایت
پرمحمول کیا جبکہ سعودی عرب نے کھلے عام کوئی سخت بیان جاری کرنے سے
گریزکیا لیکن اس حوالے سے اپنی ناپسندیدگی کاپیغام پہنچادیاتھا جس کے فوری
بعدمعاملے کو سنبھالنے کیلئے دوطرفہ کوششوں کاآغاز کردیاگیا۔شہبازشریف کی
معیت میں سرتاج عزیز اور خارجہ سیکرٹری اس حوالے سے اعلیٰ سعودی قیادت
کوایک مرتبہ پھراپنی مثبت حمائت کا یقین دلاکرواپس پہنچ چکے ہیں۔
دراصل سعودی عرب اوراس کے حلیف دیگرخلیجی ممالک نہ صرف قرارداد میں غیر
متوقع طورپرشامل کرائے جانے والے لفظ ''غیر جانبدار''پربرہم ہیں بلکہ اس
ایشو پر بحث کے دوران سعودی عرب کے حوالے سے جوزبان استعمال کی گئی،اس پر
بھی خاصے ناراض ہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح بین السطور ایرانی مؤقف کی
تائید کی گئی ۔یہ سب کچھ طے شدہ تھا ، ایران کی جانب سے پاکستان میں کی
جانے والی لابنگ ،ایران سے وابستہ مفادات رکھنے والی بعض سیاسی پارٹیاں ،جن
میں ایک مخصوص فرقے کے بااثر لوگ اورسب سے بڑھ کرمیڈیاکے ایک بڑے حصے نے
کلیدی کرداراداکیا۔ یہ وہ سارے عوامل تھے جن کے ذریعے حکومت پردباؤ ڈال کر
ایسی قرارداد منظورکرانے کاراستہ ہموارکیاگیا،جوہرمشکل گھڑی میں کام آنے
والے سعودی عرب کیلئے ناراضگی کاسبب بن گئی،اس طرح پاکستان کوجوبہترین موقع
ملاتھا، اسے ضائع کر دیاگیا۔
یمن تنازعے کے حوالے سے سعودی عرب اوردیگرخلیجی ممالک سمیت سب پاکستان کی
طرف دیکھ رہے تھے۔پاکستان سفارتی ،عسکری اوردیگرممکنہ ذرائع سے اس تنازعہ
میں مرکزی کرداراداکرسکتاتھا،اس کے عوض سعودی عرب اوراتحادی ممالک نے پیشکش
کی تھی کہ جو چاہے مانگ لو،یہ پاکستان کے پاس سنہری موقع تھا جبکہ ذرائع کے
بقول سعودی عرب فوج بھیجنے کامقصدہرگزیہ نہیں تھاکہ پاکستانی فوجی یمن جاکر
حوثیوں کے خلاف کوئی آپریشن کرتے، یہ صرف ایک علامتی اشارہ ہوتاجس کا
مقصدسعودی عرب مخالفین کوڈراناتھاکہ وہ تنہا نہیں،اگراس کی سالمیت کوخطرہ
ہواتوپاکستان اس کادفاع کرے گا بالکل اسی طرح جیسے کویت عراق تنازعے میں
پاکستان نے ایک ڈویژن فوج تعینات کردی تھی لیکن سعودی مخالف قوتوں اورلابی
نے اس معاملے کوایسے پیش کیاجیسے فوج بھیجنے کاسیدھامطلب ایران سے دشمنی
مول لینااورملک میں فرقہ وارانہ فساد ات کوبھڑکانا ہوگا جو کہ بالکل غلط
تاثرتھا۔
ذرائع کے مطابق جو٢٠لاکھ کے قریب پاکستانی سعودی عرب،١٠ لاکھ عرب امارات
اوردیگرخلیجی ممالک میں ملازمت کررہے ہیں،نہ صرف ان کامستقبل خطرے میں
ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ ان ممالک سے جوزرِمبادلہ آتاہے ،وہ بھی
متاثرہو سکتاہے ۔پھریہ کہ ان ممالک کی جانب سے پاکستان کی جومددکی جاتی ہے
،اس کی تفصیلات سامنے لائی جائیں تولوگ حیران رہ جائیں گے۔صرف پچھلے ایک
ماہ کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کو٤٩٠ملین ڈالرجبکہ متحدہ امارات نے ٤١١ملین
ڈالر دیئے۔اس کے برعکس اس عرصے میں یورپی یونین نے محض ٢٥ملین ڈالر برطانیہ
نے ١٦٤ملین ڈالرفراہم کئے۔
یمن تنازعہ پرپاکستان کے علاوہ تین دیگرممالک نے بھی قراردادپیش کی ہیں،ان
میں ایران کی طرف سے آنے والی قراردادمیں کہاگیاہے کہ فوری جنگ بندی کرکے
ڈائیلاگ شروع کئے جائیں جبکہ روس کی قرار دادبھی کم وبیش یہی ہے تاہم اردن
نے عرب لیگ کی ایماء پرجو قرار دادپیش کی ،اس میں کہاگیاہے کہ پہلے حوثی
باغی سرنڈرکریں ،پھرہادی حکومت بحال کی جائے اوراس کے بعدبات چیت کاعمل
شروع کیا جائے ۔یہ قراردادایران اورروس کوپسندنہیں آئی کہ حوثی باغی ملک کے
اہم مقامات پرقبضہ کرچکے ہیں ، اگر ڈائیلاگ سے پہلے سرنڈر کرکے سیز فائر
کرتے ہیں توان کے مقاصدکونقصان پہنچتا ہے ۔ادھرپاکستان چوتھا ملک ہے جس نے
یمن تنازعہ پر یہ قراردادپیش کی ہے اور اس میں غیر جانبداررہنے کا لفظ ڈال
کراپنا مؤقف روس اورایران کی قراردادوں کے قریب ترکردیاہے جس سے معاملہ
بگڑگیا ۔ اب اگرچہ اس نقصان کوکنٹرول کرنے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں لیکن
یہ دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کے مترادف ہے۔ذرائع کے بقول فوج کے ٨سے ٩یونٹس
تیارکیے جا رہے ہیں جو چند روز میں سعودی عرب بھیجے جاسکتے ہیں۔
بالکل اسی طرح کی صورت حال کویت عراق جنگ کے موقع پربھی پیش آئی تھی جب
پاکستان نے اپنی ایک ڈویژن فوج کویت عراق سرحد پرتعینات کردی تھی لیکن اس
وقت کے آرمی چیف نے صدام حسین کے حق میں بیان دیکرکویت اور اس کے اتحادی
ملک سعودی عرب کا ناراض کردیاتھاجس کانتیجہ یہ نکلاکہ اتنا کچھ کرنے کے
پربھی پاکستان کوکچھ نہیں ملا اوردوسری جانب مصرنے عملی طورپرکچھ نہیں
کیاتھا ، صرف نعرے لگائے لیکن سعودی عرب اورامریکاسے اپنے٧/ ارب ڈالرکے
قرضے معاف کرانے میں کامیاب ہوگیاتھا۔
اب نقصان کے ازالے کیلئے جوکوششیں شروع ہوئیں ہیں،اس کے بعدہی سعودی
وزیرخارجہ کی جانب سے یہ بیان آیاہے کہ پارلیمنٹ کی مشترکہ قراردادپاکستان
کا داخلی معاملہ ہے لیکن یمن کے معاملے میں ثالثی توایک مذاق ہے۔صلح متحارب
گروپوں کے درمیان کروائی جاتی ہے ،قانونی حکومت اورباغیوں میں نہیں۔حزب
اللہ نے حوثیوں کوتربیت اورایران نے اسلحہ دیا۔یمن میں ایک طرف باغی ہیں
اور دوسری طرف قانونی حکومت ہے جو مظلوم ہے اورہم مظلوم کاساتھ دیں گے اور
ظالم کاہاتھ روکیں گے۔پاکستانی قوم ، فوج اورمذہبی جماعتوں کامؤقف ہے کہ
ہمیں سعودی عرب کاساتھ دیناچاہئے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور سعودی
عرب کا ایساگہراتعلق ہے کہ دونوں یک جان دوقالب ہیں۔سعودی عرب امن وجنگ،
خوشی وغم ،ہرقسم کے حالات میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اورآئندہ بھی ہرحال
میں پاکستان کے ساتھ دیتارہے گا۔ ہم پاکستان کے ساتھ مشورہ کرنے کے عادی
ہیں اگرعالم اسلام کوئی تالہ ہے تو سعودیہ اورپاکستان اس کی دوچابیاں ہیں۔
یاد رہے کہ سعودی وزیرمذہبی امورصالح الشیخ بن عبدالعزیز اپنے قلمدان سے ہٹ
کر سعودی شاہ کے نمائندہ خصوصی کے طورپربھی پہچانے جاتے ہیں۔
ادھردوسری طرف یمن سعودی اوراتحادی فوجیوں کی کاروائیوں کے نتیجے میں حوثی
باغی پسپا ہونے لگے تھے اورباغیوں نے یمن کے دوسرے بڑے اورساحلی شہرعدن
کاخالی کرناشروع کر دیا تھا جس کے جواب میں منگل٢١/اپریل کی شب سعودی فوجی
ترجمان اوروزارتِ دفاع کی جانب سے یمن میں فوجی آپریشن روکنے کااعلان سامنے
آگیا سعودی قیادت میں اتحادی فورسز نے یمن میں فضائی کاروائی کے ذریعے
مطلوبہ نتائج حاصل کرلئے ہیں۔اس آپریشن کے نتیجے میں حوثی باغیوں کے
ہتھیاروں اورمیزائلوں کوتباہ کرکے ان کی جنگی قوت کوختم کردیاگیاہے اوراب
سعودی عرب اوردیگرپڑوسی ممالک کیلئے پہلے جیسے خطرات باقی نہیں رہے۔بیان کے
مطابق اب اتحادی افواج یمن کی بحالی اورآبادکاری پرتوجہ دیں گی جبکہ سعودی
عرب کی داخلی سلامتی کے حوالے سے انسدادِ دہشتگردی پرتوجہ مرکوزکی جائے گی
لیکن چندگھنٹوں کے بعدحوثی دوبارہ واپس آناشروع ہوگئے اورالقاعدہ نے بھی
دوبارہ ان علاقوں پراپنے قبضے کیلئے کاروائیوں کا آغاز کردیا جس کی بناء
پرسیز فائر کوختم کرناپڑا۔
دوسری جانب حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی سربراہی میں جاری آپریشن
''فیصلہ کن طوفان''کے دوسرے مرحلے میں آپریشن سے متاثرہ یمنی عوام کیلئے
بڑے پیمانے پر امدادکے حوالے سے سرگرمیاں بھی شروع کردی گئی ہیں جبکہ یمن
میں جنگ کی وجہ سے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات مزیدکشیدہ ہوتے جا رہے
ہیں۔ایرانی پاسداران انقلاب کے ڈپٹی چیف جنرل حسین سلامی نے سعودی شہروں
پرحملوں کی ترغیب دی ہے۔ایران کی بری فوج کے سربراہ جنرل احمدرضانے سعودی
عرب کودھمکی دی ہے کہ اگر ہمارے یمنی بھائیوں (حوثیوں باغیوں)پرحملے
بندنہیں کئے توسعودی عرب پرفوجی حملہ کردیاجائے گا۔یمن نے ایران کی ثالثی
میں امن مذاکرات کی پیشکش کو مستردکر دیا ہے۔ یمنی وزیرخارجہ ریاض یاسین
کاکہناہے کہ امن مذاکرات کیلئے ایران کی کسی بھی قسم کی کوشش قابل قبول
نہیں کیونکہ تہران خود یمن تنازعہ میں ملوث ہے۔ان کاکہناہے کہ حوثی باغیوں
اور سابق صدرعبداللہ صالح کے حامی باغی فوجیوں کوصنعااورعدن سمیت تمام
شہروں سے دستبردارہوناہوگا،ہتھیارپھینکنے کے بعد''صورا''جاکرعام شہریوں کی
طرح رہناہوگا۔
دراصل امریکی منصوبے ''عرب بہار''کے مطابق لیبیا،تیونس اوردیگر ملکوں کی
تباہی کے بعداب سعودی عرب کی باری ہے اوریمن کی مشترکہ سرحدی علاقے جہاںتیل
کے بڑے ذخائر موجود ہیں ، وہاں پر ایک ایسی شیعہ ریاست کے قیام کامنصوبہ ہے
جومسقلاًاس علاقے میں شورش کا سبب بنی رہے اورقیام امن کے نام
پرامریکااوراس کے اتحادیوں کو مداخلت کا جواز حاصل ہو جائے اورجس طرح عراق
جنگ میں ایران نے مقتدیٰ الصدرکی پشت پناہی کرکے عملاً عراق کی تقسیم
میںامریکااوراس کے اتحادیوںسے اپناحصہ وصول کیاہے ،ایساہی درپردہ تعاون
کرکے وہ مستقبل میں ایک وسیع ترشیعہ ریاست کے قیام کے منصوبے پرعمل پیراہے
۔اس صدی کامسلم امہ کا یہ سب سے بڑاالمیہ ہوگااگر صہیونی اورامریکی سازش اس
خطے میں فرقہ واریت جنگ کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یقینا ان حالات میں
پاکستان کوانتہائی دانشمندی کے ساتھ ان معاملات میں پھونک پھونک کرسفارتی
اور عسکری اقدامات اٹھانے ہوں گے ۔ چین کے اشتراک کے ساتھ اگلے چند سالوں
میں اس خطے کی تقدیربدلنے کی جومنصوبہ بندی کی گئی ہے اس کو سبوتاژکرنے
کیلئے کئی طاقتیں ادھارکھائے بیٹھی ہیں لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ ہم
خوفزدہ ہوکرمصالحتی پالیسی اختیارکرلیں بلکہ ہمیں یہاں اللہ نے ایک بہترین
اورسنہری موقع بھی عطا کیاہے کہ ہم سارے حجازکے امن کی ذمہ داری سے
قطعاًغافل نہ ہوں ۔
ادھرشہبازشریف کی معیت میں جانے والااعلیٰ سطحی وفدممکنہ طور پرسعودی حکومت
کومطمئن میں کرنے میں مکمل طورپرکامیاب نہیں ہوسکاجس کے فوری بعدیہ فیصلہ
کیاگیاکہ نواز شریف خودشاہ سلمان سے موجودہ بگڑتی صورتحال کوسنبھالنے کیلئے
مثبت پیش رفت کا عملی یقین دلائیں ۔یہی وجہ ہے کہ چینی صدرکے اہم دورے کے
فوری بعدوزیراعظم نے اپنی کابینہ کے اہم ارکان کے ساتھ تینوں افواج کے
سربراہوں کے ساتھ طویل صلاح ومشورے کئے اور بالآخر٢٣ /اپریل کوآرمی چیف کے
ساتھ اہم دورے پر سعودی عرب پہنچے جہاں ان کا ایک مرتبہ پھر پرجوش استقبال
کرکے سعودی عرب نے پاکستان کواپنے بانہوں میں سموکرمحبت اوریگانگت کا پیغام
دیا ہے! |