جو میرا رہنما ہے کاش! ....... میراہم زباں ہوتا!

ہندوستان میں اُردودشمنی کی کون کون سی مثالیں پیش آئی ہیں سے متعلق تبصرہ کرنامقصودنہیں لیکن ریاست جموں وکشمیرمیں اُردودشمنی سے کس قدراُردوکونقصان پہنچا ،یامنظم سازش کے تحت نقصان پہنچایاگیاسے متعلق قارئین کوآگاہ کرنے ،نئی حکومت کی ذمہ داریوں اوراُردوکے خیرخواہوں کے کردارسے متعلق چندباتیں گوش گذارکرنا ضروری سمجھتاہوں۔ اگرچہ میںاُردوکانوحہ گر بننانہیںچاہتاہوں بلکہ عملی طورپراُردوکی بقاءکےلئے اپنے قلم اوراپنے وجود(جسم )سے کام لے کراپنے تئیں عائدفرض کی انجام دہی چاہتاہوں۔ریاست جموں وکشمیرمیں مجاہدین اُردوکی بہت بڑی کھیپ موجودہے جوکہ اُردوکی بقاءکےلئے ناقابل فراموش کام کررہی ہے لیکن آپسی تال میل اورمضبوط لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے اُردوداں طبقہ اُردوکے حقو ق کی بحالی میں کسی حدتک ناکام ہوتادکھائی دے رہاہے جوکہ باعث تشویش ہے۔قلم سے اُردوکی ترویج وبقاءکےلئے لامثالی کام لیاجارہاہے مگرریاستی سرکارسے پوری دُنیامیں تیسری بڑی زبان اورریاست جموں وکشمیرکی آئینی وسرکاری زبان اُردو کے حقوق کے حصول کےلئے جدوجہدمیں کہیں نہ کہیں وہ شدت نہ لائی جاسکی ہے جس کی تاب نہ لاتے ہوئے ریاستی سرکارمحبان اُردوکے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔یکم مارچ ۵۱۰۲ءکوجموں یونیورسٹی کے جنرل زورآورسنگھ آڈیٹوریم اُردوکے ساتھ کھلواڑاورتذلیل کی مثال اُس وقت منظرعام پرآئی جب پی ڈی پی ،بی جے پی اتحادوالی نئی حکومت کے وزیراعلیٰ اوران کی کابینہ کے وزراءحلف اُٹھارہے تھے ۔اس حلف برداری تقریب میں 25 وزراءمیں سے محض 4 وزراءنے اُردوزبان میں حلف نامہ پڑھااوراُردوکی قدردانی کاثبوت پیش کیاجبکہ 21وزراءنے اُردوکونظراندازکرکے اُردودشمنی کاکھلم کھلادعویٰ ہی پیش کیا،دیگران کے علاوہ انگریزی وہندی میں حلف اُٹھانے والوں میں بذات خودریاستی وزیراعلیٰ اورپی ڈی پی کے سرپرست اعلیٰ مفتی محمدسعید(جوانصاف مہیاکرانے کاہرپل دم بھرتے ہیں )بھی شامل ہیں نے بھی ریاست کی آئینی اورسرکاری زبان اُردودُشمنی کاثبوت حکومت کے قیام کے پہلے ہی روزدے کریہ عندیہ دیاکہ وہ بھی سابقہ حکومتوں کی طرزپراُردوکش پالیسیوں پرعمل پیراہونے کامنصوبہ رکھتی ہے۔ستم ظریفی توتب ہوئی جب گذشتہ مخلوط حکومت کے آخری اسمبلی اجلاس میں حزب اختلاف کے ممبراسمبلی ہونے کی حیثیت سے اُردوکے حقوق کی بحالی کے سلسلے میں اُردوبِل کوپیش کرنے والے (تاہم بِل کسی وجہ سے پیش نہ ہوسکاتھا) پی ڈی پی کے ممبراسمبلی حلقہ درہال ذولفقارچودھری نے اُردوکے بجائے انگریزی میں حلف نامہ پڑھ کراُردووالوں کے ارمانوں کاگلہ گھونٹا۔باوثوق ذرائع کے مطابق ریاستی وزیراعلیٰ اوردیگروزراءکے حلف نامے اُردومیں راج بھون سے تیارتھے مگراس کے باوجودانگریزی اورہندی میں حلف اُٹھانے کامطلب صاف ہے کہ نئی حکومت کی پالیسیاں اُردوکش ہی ہیںجوکہ اُردوداں طبقہ کےلئے لمحہ فکریہ ہے۔اُردوزبان کااحترام کرنے والے 4وزراءنعیم اختر،سیدبشارت بخاری،عبدالمجیدپڈراورعبدالحق خان کودِل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکبادپیش کرتاہوں جنھوں نے اُردوکے وقارکوبلندرکھااوردیگرسیاستدانوں کوآئینہ دکھایاکہ وہ اپنی تہذیب اورآئینی زبان کے استحصال کے مرتکب اورگناہ گاربنے ہیں،ساتھ میں مذکورہ چاراُردودوست وزراءسے توقع ہے کہ وہ آئندہ بھی اُردودوستی کے جذبے کوسلامت رکھ کرمحبان اُردوکے حوصلوں کودوام بخشیں گے۔تشویش اورحیرت کامقام تویہ ہے کہ انگریزی میں حلف اُٹھانے والے وزراءمیں وہ سیاستدان بھی شامل تھے جواُردوزبان کی بقاءکے لئے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن انہوں نے بھی ہٹ دھرمی اوربے حسی کی تمام حدودکوپارکرتے ہوئے سرکاری زبان میں حلف اُٹھانااپنے لئے شرمندگی کا باعث ہی سمجھا۔ اگرہم ملک کی دیگر ریاستوں کی حلف برداری تقاریب کاجائزہ لیں تومعلو م ہوتاہے کہ ان ریاستوں کے بیشتروُزراءسرکاری زبان میں ہی حلف اُٹھاتے ہیں۔خیر!ریاست جموں وکشمیرمیں گنگاہمیشہ سے اُلٹی بہتی آئی ہے اوریہ سلسلہ تاہنوزجاری وساری ہے۔توقع ہے جن وزراءنے انگریزی میں حلف اُٹھایاہے جب وہ اسمبلی میں جائیں گے تولمبی لمبی تقاریرمیں اُردوکے اشعارکوبارباردہرائیں گے،توان کے ضمیرکی آوازانہیں حلف برداری تقریب کی یاددلاکرجھنجھوڑے گی۔افسوس کامقام ہے کہ آئینی زبان کواپنے مفاد کےلئے استعمال کرناانہیں گوارہ ہے مگرحلف برداری آئینی زبان میں اُٹھانے میں انہیں شرم نہ جانے کیوں آتی ہے؟ ۔نہ جانے کیامیل ہے اِن سیاستدانوں کے دِلوں میں ،کس قدراِن کے دِلوں میں اُردودشمنی کاجذبہ ہے ۔ان کے اُردودشمن جذبے سے ریاست کی وحدت اورسا لمیت خطرے میں آنے کے امکانا ت کی نویدملتی ہے۔اللہ کرے !ان انگریزی نوازوزراءکااُردودشمن جذبہ اُردودوستی کے جذبے سے تبدیل ہوجائے۔اُردوکاریاست کی وحدت اورسا لمیت سے کیاتعلق ہے سے متعلق محبان اُردوباربارریاستی سرکاروں کوباورکرواتے آئے ہیں لیکن آج میں بھی یہ واضح کردیناچاہتاہوں ۔پوری دنیا جانتی ہے کہ اُردو نہ صرف ایک شیریں زبان ہے بلکہ ایک تہذیب یافتہ زبان بھی ہے جس میں نہ صرف پورے ہندوستان کا مشترکہ کلچر موجود ہے بلکہ اپنی خوبیوں اورصلاحیتوں کے بل بوتے پراسے ڈوگرہ حکمرانوں نے ہماری ریاست کی آئینی زبان کادرجہ بھی عطاکیاہے۔تواریخ سے جانکاری ملتی ہے کہ ڈوگرہ حکمران اُردوکے شیدائی رہے ہیں اورڈوگرہ حکمرانوں نے اس زبان کی آبیاری اپنے خون جگر سے کی ہے ۔ڈوگرہ حکمران ریاست کی سا لمیت کے زبردست حامی تھے اسی لئے انہوں نے اس زبان کو فروغ دینے میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی ۔ انہیں اس بات کا احساس ہوچکا تھا کہ اگر ریاست کو متحدد رکھنا ہے تو اُردو کو فروغ دینا بہت ضروری ہے اس لئے ۹۸۸۱ءمیں مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے اُردو کو اس ریاست کی سرکاری زبان قرار دیا لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ آزادی کے بعد جمہوری حکومتوں نے اس زبان کا استحصال طرح طرح سے کیا ۔ریاست میں اُردوایک ایسی زبان ہے جس نے تینوں خطوں،جموں۔کشمیراورلداخ کوایک ہی لڑی میں پروئے رکھاہے اوریہی وہ زبان ہے جوتینوں خطوں کی عوام کے رابطے کی زبان ہے۔ریاست میں اُردوکے چاہنے والوں کی تعدادہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے جواس زبان پراپناسب کچھ نچھاورکرنے کے لیے ہمہ وقت تیاررہتے ہیں۔ریاست کے لاکھوں محبان اُردوکاسابقہ اورموجودہ سرکارسے صرف اتناسامطالبہ ہے کہ وہ اُردوکے جوحقوق اس کے آئینی وسرکاری زبان کی حیثیت سے ہیں دیئے جائیں لیکن سرکارحقوق دینے کی سعی کرنے کے بجائے سرکاری اہلکاروں کی جانب سے اُردوکی بے دریغ کی جارہی بے حرمتی کی تماشائی بنی رہتی ہے۔ انگریزی اورہندی میں 21وزراءبشمول وزراعلیٰ کے حلف اُٹھانے سے اُردوکے لاکھوں شیدائیوں کونہ صرف مایوسی ہوئی ہے بلکہ اُردوداں طبقہ میںان وُزراءکیخلاف شدیدغم وغصہ پایاجاتاہے۔یہاں ہندوستان کی ایک ریاست کی حلف برداری تقریب کی مثال پیش کرناچاہتاہوں جس میں بدقسمتی سے ایک ممبراسمبلی نے ریاست کی سرکاری زبان کونظراندازکرتے ہوئے ہندوستانی زبان میںحلف کیالیاکہ ممبراسمبلی پرآناًفاناً جوتوں کی برسات ہوگئی اورانتظامیہ نے بڑی مشکل سے حالات کوسنبھالا۔ریاست کی سرمائی دارالخلافہ ”جموں“ جہاں پرنئی حکومت کی حلف برداری تقریب منعقدہوئی کو کبھی اُردو کا شہر کہاجاتا تھا۔ یہاں اُردو مشاعروں کی بہت بڑی روایت رہی ہے۔ جموں کا موجودہ راجندر بازار اُردوبازار کے نام سے جاناجاتا تھا۔ کاروباری اور سرکاری اداروں کے سائین بورڑ اُردو میں ہی تحریر تھے لیکن فرقہ پرستوں کو یہ سب کچھ ایک آنکھ بھی نہیں بھایا۔ انہوں نے مختلف سازشیں کرکے نہ صرف اُرددو زبان کو نقصان پہنچایا بلکہ اس شہر کی سا لمیت کو بھی زک پہنچائی اور ریاست کی سرکاریں اُردو زبان کی بربادی کا مشاہدہ بڑے اطمینان سے کرتی رہیں۔سابقہ ریاستی سرکاروں نے متعددباراُردوکے حقوق کی بحالی سے متعلق کمیٹیاں تشکیل دیں ،رپورٹیں بھی سرکاروں کوپیش کی گئیں مگرپھربھی اُردوکوحقوق نہ دیئے گئے ۔نئی قائم ہوئی پی ڈی پی بی جے پی حکومت کے قائدمفتی محمدسعیداوردیگروزراءسے پرزوراپیل ہے کہ وہ درج بالااقدامات اُٹھاکراُردوکے حقوق کی بازیابی کویقینی بنایاجائے تاکہ ریاست کی سا لمیت برقراررہے اورریاست ایک گلدستے کی طرح ہی قائم رہے۔
(۱) اسکولوں میں اُردو اساتذہ کی تقرری کویقینی بنایاجائے(۲) محکمہ مال، محکمہ پولیس اور محکمہ جنگلات میں اُردو کوبحال کرکے بدیسی زبان کے چلن کاخاتمہ کیاجائے۔(۳)انصاف کے گھرکہلانے والی عدالتوں میں اُردو کے چلن کویقینی بنایاجائے۔(۴)تمام سرکاری دفاتر کے سائن بورڈ انگریزی کے بجائے اُردو میں نصب کیے جائیں ۔(۵) ائرپورٹ ، ریلوے اسٹیشنوں اوربس اڈوں پراُردومیں سائن بورڈنصب کیے جائیں(۶) سیکرٹریٹ میں اُردوکوبے دخل ہونے سے بچایاجائے(۷) نائب تحصیلدار اور پٹواریوں کی بھرتیاں نیزدیگر سرکاری ملازمتوں میں اُردو امیدواروں کی تعیناتی یقینی بنائی جائے۔(۸)ریاست میں اُردواکیڈمی ،اُردویونیورسٹی کاقیام عمل میں لایاجائے(۹)سرکاری اسکولوں میں جماعت اول سے لیکردسویں جماعت تک اُردوکولازمی مضمون کے طورپررائج کیاجائے۔(۰۱) راشن کارڈانگریزی میں اُردومیں شائع کیاجائے وغیرہ قابل ذکرہیں۔

حلف برداری کی اس تقریب سے صاف ظاہرہوتاہے کہ ہماری حکومت نہ صرف اُردودُشمن ہے بلکہ اُردوکوریاست سے غائب کرنے پربھی تُلی ہوئی ہے اوراگرایساہوتاہے تویقینامستقبل میں ریاست تین حصوں میں تقسیم ہوکررہے گی یہی فرقہ پرستوں کی شدیدخواہش بھی ہے۔آخرمیںاردو کے خیرخواہوںسے توقع کرتاہوں کہ وہ اُردوکے حقوق کی جنگ کوتیزکریں اوراپنے تئیں عائد فرائض کو تن دہی سے انجام دینے میں کوئی کثرباقی نہ رکھیں۔ ےہی نہےں آپسی رنجشوں کو چھوڑ کر ےک جوئی سے اس تہذےبی زبان کے تحفظ کے لئے کام کرےں تبھی اردو نئی راہوں پر گامزن ہو سکتی ہے ۔ناچیزکی رائے ہے کہ اُردوداں طبقہ ایک پلیٹ فارم پرمتحدہوکراُردوکے حقوق کی بحالی وبازیابی کےلئے باقاعدہ احتجاجی مہم چھیڑکرریاستی گورنراورریاستی وزیراعلیٰ کے دفترکے باہراحتجاج پہ بیٹھ جائے اورتب تک نہ اُٹھے جب تک عملی طورپرسرکاراُردوکے حقوق کی بحالی کےلئے اقدامات نہ اُٹھائے۔یہ توناچیزکی رائے ہے اُردوداں طبقہ کی سوچ وفکرکے ایک قطرے کے برابربھی میراعلم نہیں پھربھی اپنی رائے دے کرمیں نے اپنافرض نبھایا۔اُمیدہے ہم سب خیرخواہان اُردوکی بقاءاورترویج میں اپنااپناکردارنبھاکراس کے حقوق کی بازیابی کی جنگ میں ضرورسرخروہوں گے۔آخرمیں التجاہے کہ کوئی بات میری حیثیت سے زیادہ تحریرہوگئی ہوتواپناعزیزسمجھ کرمعاف فرمادیںاوراصلاح کےلئے نیک مشورے سے ضرورنوازیں۔اللہ حافظ ۔

Tariq Ibrar
About the Author: Tariq Ibrar Read More Articles by Tariq Ibrar: 64 Articles with 58055 views Ehsan na jitlana............. View More