نظریاتی ، سیاسی اوراعتقادی اختلافات

اﷲ تعالیٰ نے ہرانسان کو سوچنے اوراچھے برے میں تمیزکرنے کی صلاحیت دی ہے۔تاہم ہرانسان کے سوچنے کااندازدوسرے سے مختلف ہوتاہے۔ کسی ایک چیز، مسئلے یاایشوکے بارے ہرانسان کااپناالگ زاویہ نگاہ ہوتاہے۔ہرشخص اسے مختلف اندازسے دیکھتا ہے اوراپناالگ اورمنفردنقطہ نظر رکھتاہے۔یہ سوچ اورنقطہ نظر ایک نظریے کوجنم دیتاہے ، جس کے تحت انسانی زندگی کاسارانظام چلتاہے۔اس نظریے کے پیچھے اسکے عقائد، تصورات ، مشاہدات اورماضی کے تجربات کارفرماہوتے ہیں۔چونکہ تمام انسانو ں کی سوچ، ذہنی استعداداور فہم وادراک ایک جیسا نہیں ہوتا ، اسلئے انکے نظریات بھی ایکدوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔یہی سے انسانی زندگی تفاؤت اورنظریاتی اختلاف کاشکارہوجاتی ہے۔نظریاتی اختلافات ہردورمیں اوردنیاکی ہرقوم میں پائے جاتے ہیں اور یہی انسانی زندگی کاحسن ہے۔کیونکہ یہ اختلاف حقائق تک پہنچنے اورتحقیق اورجستجوکاذریعہ ہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺنے یہی اختلاف باعث رحمت قراردیاہے۔کیونکہ اس اختلاف کی بدولت ہم حقائق کے ان پہلوؤں تک پہنچ سکتے ہیں ، جوہمارے سوچ ونظرسے پوشیدہ ہوتے ہیں۔لیکن اس ضمن میں ایک بات قابل توجہ ہے کہ ہم اختلاف کو باعث مخالفت نہ سمجھے بلکہ اسے ایک طاقت سمجھے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ اگرکسی مسئلے پر سوچتے ہیں تواسکاکوئی بھی حل نکل سکتاہے۔لیکن اس سلسلے میں ہماری نظرمیں وسعت کا ہوناضروری ہے۔ہمیں اپنے مقام نظرسے اٹھ کر دوسروں کے مقام نظرسے دیکھناہوگااوراختلافات کو دل وجان سے تسلیم کرناہوگا۔

ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم اختلافات سے نفرت کرتے ہیں اورہمیں دوسروں کے سوچ، فکر اورنظرئے کے سامنے ہمیشہ اپنانقطہ نظرارفع دکھائی دیتاہیاورہمیں ہراس شخص سے نفرت ہوتی ہے جوہمارے نظرییکاحامی نہ ہو۔ہمیں اپنے مقابلے میں ہرشخص کانقطہ نظرغلط دکھائی دیتاہیاوراس لئے ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں بلکہ بسااوقات ہماری نفرت دشمنی کی حد تک پہنچ جاتی ہے اورپاکستان میں تواکثریہی نظریاتی اختلافات انتہاپسندی اورقتل وغارت کاسبب بنتے ہیں۔

ہماراسیاسی نظام بھی بری طرح اس قسم کے اختلافات کے زدمیں ہے۔ہرلیڈر کااپناایک نام نہادنظریہ ہوتاہے اوروہ اس نظریے کی بنیاد پر عوام کو بیوقوف بناتاہے۔عوام اندھادھند بغیرسوچے سمجھے اوربغیرکسی تحقیق کے پارٹی کے منشورکے فروغ کے لئے ہمہ تن سرگرم عمل رہتے ہیں۔بلکہ اکثرتوبغیرتحقیق کے محض اپنے باپ داداکی تقلید کرتے ہوئے کسی پارٹی میں ہوتے ہیں۔کیونکہ تحقیق کے لئے علم اورعلم کے لئے لکھنے پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے اوریہی لوگ ان صفات سے مبرا ہوتے ہیں۔دن رات اپنے نظریے کو درست ثابت کرنے کے لئے دوسروں کے سوچ، فکر اورنظرئے پربری طرح تنقیدکرتے ہیں۔اس مقصدکے لئے بے بنیاد اورجھوٹے دلائل کے انبارلگائے جاتے ہیں۔حالانکہ مقابلے کایہ طورترقی یافتہ اقوام میں نہیں ہوتا۔دوسروں سے اونچااڑنے کے لئے اپناپرواز بلند رکھناچاہئے اورنظریں آسمان پر رکھنی چاہئے،نہ کہ ہماری نظریں دوسروں کے کمزوریوں پرہو۔ جولوگ کسی کو نقصان پہنچاتے ہیں،ان کو بدنام کرتے ہیں،ان سے حسد کرتے ہیں یاان سے الجھتے ہیں ، وہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔یہی حال ہمارے ملک میں موجود تمام پارٹیوں کاہے۔لیڈرزایکدوسرے کے خلاف کافی نازیباکلمات اور مبتذل الفاظ کااستعمال کرتے ہیں اورایکدوسرے کے نظریات کو کم تراورباطل ثابت کرنے کے لئے ہرمحاذ پر خوب مشق سخن جاری رکھتے ہیں۔جب اتنے بڑے لیڈروں کیطرز گفتارکایہ عالم ہوتوپارٹی کے عام ورکروں کاکیاکہنا۔یہی نظریاتی اختلاف ، سیاسی اختلافات کاسبب بن جاتے ہیں اورپھرکچھ زیادہ محب سیاست کارندے، جن کی تنگ نظری کادائرہ بہت وسیع ہوتاہیاورانکی سوچ، فکر اورنظرئے بہت محدودہوتے ہیں اوروسیع النظری، وسعت قلبی اورروشن خیالی کاان کے پاس سے گزربھی نہیں ہواہو، ان کااشتعال قابل دیدہوتاہے۔ملک کے ہرحصے میں بحث ومباحثے کی خوب محفلیں جمی رہتی ہیں۔جہاں ایکدوسرے کے نظریے کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی گرماگرم مناظرے ہوتے ہیں۔بلکہ بسااوقات توبات عزت نفس مجروح ہونے تک پہنچتی ہے اورصرف یہی نہیں اکثرایکدوسرے کے عقیدوں پرحملے کرتے ہیں۔ایک دوسرے پر تیزوتند جملوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھارپتھروں کے واربھی کئے جاتے ہیں۔ایک کاگریبان پھاڑدیاجاتاہے تودوسرے کاسرپھوڑدیاجاتاہے۔میراذاتی مشاہدہ ہے کہ ایسے بہت سے لوگ جواپنے قائدکے نظریے اورپارٹی کے منشورکے سواہ سب کچھ غلط، بے بنیاد اورباطل سمجھتے ہیں ، بلکہ اپنے مخالفین کومذہبی تنقید کابھی نشانہ بناتے ہیں۔ان کا خیال ہوتاہے کہ جولوگ انکے حامی ہیں اورانکے نظریے کوسپورٹ کرتے ہیں ، وہ زندگی کے ہرشعبے میں کامیاب ہیں بلکہ وہ انکو دین دنیامیں فلاح اورکامیابی کاسرٹیفیکٹ دے دیتے ہیں جبکہ کچھ جاہل اپنی کم علمی اور جذبات کی طغیانی میں ہمارے علماء کرام کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ایسے میں معاشرہ بری طرح افرای تفری کاشکارہے۔ ہرطرف نفرت کاراج ہے۔ایک ہی مذہب کے پیروکار،ایک ہی ملک میں رہنے والے اور ایک ہی زبان بولنے والے آج کس طرح ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔اختلافات کے لئے چھوٹی چھوٹی اورمعمولی سی باتیں ،جولیڈرہمارے لئے وجوہ تنازعہ بناتے ہیں اورہم عوام ان کی اندھی تقلید کرتے ہیں اوران باتوں کو طول دے کر تشدد کاراستہ اختیارکرتے ہیں۔توکیااس سے یہ بہترنہیں ہے کہ ہم بڑی بڑی باتوں کو اپنائیں جوہمارے لئے باعث اتفاق ہیں۔اﷲ کی وحدانیت پر اورنبی کریم ﷺ کے آخری نبی ہونے ہم سب کاعقیدہ ہے۔عبادات، اخلاقیات اورمعاملات سب میں ہم قرآن وحدیث کے تابع ہیں۔حقوق اﷲ اورحقوق العباد بھی دل وجان سے تسلیم کرتے ہیں۔یہ بھی مانتے ہیں کہ ہم سب مسلمان ہیں ، ایک قوم ہیاورپاکستان کو ہماری ضرورت ہے۔لہذا ہمیں تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی ملک کی سلامتی ، ترقی اورخوشحالی کے لئے متفق اتفاق اوراتحاد کی ضرورت ہے۔
MP Khan
About the Author: MP Khan Read More Articles by MP Khan: 107 Articles with 119914 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.