شہر میں ووٹ بینک سسٹم کی بڑھتی ہوئی خرافات پر بیباک تبصرہ

کمشنر،کلکٹر،ایم ایل اے اور برسراقتدار گروپ کی توجہ کا طالب

جمہوری نظام میں حق رائے دہی کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔حق رائے دہی انسان کاوہ حق ہے جس کے استعمال سے وہ اپنی پسند کے حکمراں کیلئے اپنی رائے صادر کرتا ہے۔مگر المیہ یہ ہے کہ آزادی سے لیکر آج تک حق رائے دہی کا نظام غیر شفافیت کی بھینٹ چڑھتا رہا ہے۔ عرصہ سے زَر و اقتدار کے پجاری عوام کو اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہیں ۔ افسوس!ووٹ کی اہمیت کا اندازہ جس قدر ہونا چاہئے تھاوہ نہیں ہو پایا۔مگراب ملکی حالات نے عوام پر اس کی اہمیت کافی حد تک عیاں کردی ہے۔اس بات میں سو فیصد صداقت ہے کہ ووٹ انسان کی زندگی میں تبدیلی لا سکتا ہے اوراس کا معیار زندگی بلند کر سکتا ہے۔جنرل منٹگمری نے کہا تھا ’’اگر کسی قوم کے پاس ایٹم بم نہیں تو کوئی بات نہیں لیکن اگر نظریہ نہیں تو وہ قوم زندہ نہیں رہ سکتی ‘‘۔ہمارے پاس ایٹمی توانائی بھی نہیں اور نظریہ بھی ہے تو ’’نظریۂ ضرورت‘‘۔جس کا ہم اپنی تشنہ خواہشات کی تکمیل کے لیے ووٹ کے ذریعے بخوبی استعمال کرتے ہیں اور حکمران ذاتی خزانے کی آبیاری کے لیے۔

ووٹ بینک سسٹم ایسا مؤ ثر ہتھیار ہے جس کے سبب بڑے سے بڑامطالبہ حکومت ِوقت سے منوایاجاسکتاہے بلکہ مختلف علاقوں میں منوایاجارہاہے۔اقلیتی طبقے کے سامنے ہمیشہ اکثریتی حلقے کے مطالبات تسلیم کئے جاتے ہیں۔مطالبات کا انبار برادران ِ وطن میں بھی ہے اور قوم مسلم میں بھی۔بس فرق اتنا ہے کہ ہم وطنوں کے مطالبات پوری قوم کے لیے مفید ہوتے ہیں اور قوم مسلم کے مطالبات کا دائرہ مخصوص لوگوں کے ارد گرد گھومتاہے۔ہمارے شہر مالیگاؤں کی بات کی جائے تو اب یہ شہر دو حصوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔ایک صاف ستھراعلاقہ اور دوسرے کی شناخت ایسی کہ مسافر بھی پہچان جائے کہ یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہوگا۔افسوس اس بات کا ہے کہ غیروں کے مطالبات شہر کے وکاس،رفاہی وفلاحی کام اور روشن مستقبل کے لیے ہوتے ہیں جبکہ مسلم علاقوں میں ووٹ بینک سسٹم اس قدر بگاڑ کا شکار ہوچکا ہے کہ اﷲ کی پناہ۔مسلم علاقوں میں اتی کرمن اپنے شباب پر ہے۔عام سڑک سے لے کر بڑی شاہرائیں بھی اتی کرمن سے محفوظ نہیں ۔برسراقتدار سیاست داں اتی کرمن ہٹانے میں اس لیے پش وپیش کرتے ہے کہ ان کی ووٹ کم نہ ہوجائے۔دوسری حقیقت یہ ہے کہ عوام خوداپنا بھلا نہیں چاہتی ہے ۔غیر مسلم علاقوں میں جب غیر قانونی قبضہ جات کو ہٹانے کی مہم شروع ہوئی تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ برادرانِ وطن اپنے ہاتھوں سے اتی کرمن ہٹا رہے تھے ۔( یہاں مشہور فلسفی خلیل جبران کا قول معزز قارئین کی نذر کرتا ہوں ’’کہ یہ مت پوچھو کہ تمہارا ملک تمہارے لیے کیا کر سکتا ہے بلکہ یہ بتاؤ کہ تم اپنے ملک کیلئے کیا کر سکتے ہو ‘‘۔)اس کے بر عکس مسلم علاقوں میں اتی کرمن آیاتو یہ جملے سنائی دیئے’’کس کے باپ میں دم ہے جو ہمارا چبوتراتوڑدے‘‘،’’دیکھتا ہوں کون تیس مار خان آتا ہے‘‘ ،کوئی میری دکان ومکان کو ہاتھ لگاکر تودیکھ لے ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔اس المیے کوکارپوریٹرس کی مجبوری کہہ لیجئے یا عوام کی غفلت۔اتی کرمن کے سبب شہر میں ٹریفک دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔صرف بڑی سڑکیں ہی نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی گلیوں میں بھی آناجانا دشوار ہوتا ہے۔بعض لوگ اپنی ٹو وہیلر اور فور وہیلر گاڑیوں کو اپنے مکان کے سامنے کھڑی کرنے میں شان محسوس کرتے ہیں جبکہ انہیں سوچنا چاہئے کہ اس جھوٹی شان کی خاطر آمدورفت کا نظام کس قدر متاثر ہوتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جب کسی نئے محلے کانقشہ تیار ہوتا ہے اور اس میں سڑکیں صرف دس فٹ کی ہوتی ہے تو ٹاؤن پلانر سے ایسے نقشے کو منظوری کیسے مل جاتی ہے؟کیا یہ قانونی اعتبار سے درست ہے یا ووٹ بینک سسٹم کی کارستانی؟

دوسری بات کا یہ مشاہدہ ہواکہ اگر کسی ایسے گھر میں کوئی حادثہ ہوجائے جس میں ووٹوں کی تعداد کم ہوتو کارپوریٹرس کو اتنی فرصت نہیں ملتی کہ وہ بوڑھے والدین کو دوحوصلہ افزا جملے بول دے جبکہ کسی ایسی فیمیلی جس میں ووٹوں کی تعداد زیادہ ہووہاں چھوٹے سے چھوٹے پروگرام میں چہرہ دکھانا اہل سیاست ضروری خیال کرتے ہیں۔کیا ایسے دوغلے کارپوریٹرس کو ان کے گھر تک پہنچانا عوام وخواص کی ذمہ داری نہیں ہے ؟مگر کیاایک لمحے کے لیے بھی ہم نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی کہ یہ قصور کس کا ہے؟حکمرانوں کا یا ہماری چشمِ انتخاب کا ؟کیایہ عین حقیقت نہیں کہ ہماری نظروں میں ہمیشہ وہی جچتا رہا جو ہماری ہر ناجائز خواہش کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ؟کیا ہم شرفا ء کی ضمانتیں تک ضبط نہیں کروا دیتے ؟

تیسری بات یہ ہے کہ شادیوں کے موسم میں جس کا دل جدھر چاہتا ہے منڈپ باندھ دیتا ہے۔نہ راہگیروں کا خیال اور نہ ہی مسافروں کی پرواہ۔جب کہ اس کے لیے قانون موجود ہے کہ کارپوریشن سے اجازت ملنے پر پولس جگہ کا معائنہ کرے گی پھر کسی جگہ منڈپ لگانے کی اجازت ہوگی۔مگر افسوس!جس مذہب میں راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا اجروثواب ہے اسی مذہب کے ماننے والے بڑے بڑے منڈپ سڑکوں پر لگادیتے ہے۔اگر آپ کے یہاں شادی ہال کا انتظام نہیں ہے تو آپ نے جس ممبرکا انتخاب کرکے کارپوریشن اور اسمبلی تک پہنچایا ہے ،وہ کس دن کام آئے گا۔ووٹ بینک سسٹم کا استعمال یہاں کیوں نہیں کیاجاتا؟کیوں نہیں شادی ہال کی تعمیر،بچوں کے لیے کھیل کود کے میدان اور سڑکوں پر دکانیں لگانے والوں کے لیے شاپنگ مال کے انتظام کی بات نہیں کی جاتی؟آخر کب تک سیاستداں روڈ اور گٹر کے نام پر عوام کواُلو بناتے رہینگے؟اور عوام کب تک جائز مطالبات کی بجائے حقیقی ضرورتوں کی طرف متوجہ ہوگی؟
 
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 680427 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More