دبئی ائر پورٹ روشن و حسین ۔کچھ دیر قیام
(Dr. Rais Samdani, Karaachi/Jeddah)
اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہوں اور
فخر محسوس کرتا ہوںکے اﷲ تعالیٰ کی جانب سے بار بار بلاوا آرہا ہے اور میں
اپنے مالک کے حکم پر لَبَّیکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیکَ لَبَّیکَ لاَ شَریکَ
لَکَ لَبَّیکَ اِنَّ الحمَدَ والنّعمَة لَکَ وَالمُلکَ لاَ شَریکَ لَکَ”میں
حاضر ہوں ، یا اﷲ میں حاضر ہو‘ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ‘ میں
حاضر ہوں۔ بیشک تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں اور ملک بھی تیرا کوئی شریک نہیں“۔
کہتا ہوا اﷲ کے گھر خانہ کعبہ میں حاضر ہوجاتا ہوں، عمرہ اد ا کرتا ہوں اور
پھر اپنے پیارے نبی ﷺ کے شہر مدینہ اور روضہ مبارک پر سلام عرض کرنے کی
سعادت حاصل ہورہی ہے۔ مئی 2011 کے بعد اب 2015 میں پانچویں بارمیں جدہ آیا
ہوں ۔اب تک میں اپنے مرکز کراچی سے سیدھا جدہ اور وہاں سے سیدھا واپس کراچی
آتا رہا ہوں۔ اس بار میرا جدہ کاسفر کراچی بہ راستہ دبئی تھا، بھلا ہو ائر
لوئنوں کا۔ سیٹ نہ ہونے کے باعث مجھے دبئی ائر پورٹ کی چکا چوند روشن
بہاروں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ 10اپریل 2015 کی شب دبئی ائر پورٹ
پر میرا قیام سات گھنٹے کا تھا۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں دبئی ائر پورٹ ایسا
ائر پورٹ ہے کہ جہاں پر لوگ دو دو تین تین دن بھی گزار دیتے ہیں۔ ویسے تو
اگر ائر لائن کی وجہ سے آپ کا قیام آٹھ گھنٹے کا ہو تو ائر لائن پابند ہوتی
ہے کہ آپ کو ہوٹل کی سہولت فراہم کرے ۔اگر کسی اور وجہ سے مسافر کو کئی دن
اس ائر پورٹ پر گزارنا پڑجائیں تو وہ بہ آسانی گزار سکتا ہے ۔ نہ اس کو
کمرے کی ضرورت ہوگی نہ کسی اور چیز کی،یہاں ہر سہولت دستیاب ہے۔ سونے کے
لیے آرام دے کرسیاں ہیں، صاف ستھرے باتھ روم، کشادہ غسل خانے، کھانے کے لیے
ریسٹورانٹ، وسیع و عریض شاپنگ سینٹرجہاں پر ہر چیز دستیاب، دبئی کی ثقافت
کا منہ بولتا یہ ائر پورٹ ہر اعتبار سے جدید ہونے کے ساتھ ساتھ کشادہ، وسیع
و عریض جس میں ایک ٹرمینل سے دوسرے ٹرمینل تک جانے کے لیے خوبصورت ٹرین کا
سفر بھی کیا جا سکتا ہے۔ خود کار ذینے اور خود کار لفٹ میں تو ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ ہم ایک وقت میں چمک دھمک کے دوکمروں میں کھڑے ہیں ، لفٹ کے
پیچھے کی جانب اوپر سے نیچے کی جانب گرتی ہوئی آبشار اور نیچے حسن و جمال
بکھیرتے ہوئے فوارے حسین منظر پیش کررہے ہوتے ہیں۔اسی شاپنگ سینٹر میں دبئی
کے مردوں کے لباس کی آرائش،خواتین کے لباس و انداز کا منفرد نمونہ،دبئی کے
لوگوں کی مہمان نوازی کا انداز، فرشی نشست کا دیدہ ذیب منظر اور ان کی نشست
و برخاست کا منظر بھی دکھا یا گیاہے ۔گویا دبئی کے عرب کیسا پہنتے ہیں،
کیسے رہتے ہیں، ان کے گھر کیسے ہوتے ہیں، تہذیب و ثقافت کے اس منظر کو دیکھ
کر لطف انداز ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔
یہاں ہر قوم،ہر نسل،ہر زبان،ہر علاقے اور ملک کے لوگ ادھر سے ادھر دنیا و
عافیت سے بے پروا ، اپنی اپنی سوچوں میں گم پھرتے نظر آتے ہیں، سعودی لباس
میں مرد اپنی خواتین کے ساتھ جو عبایہ پہنے یہا ں تک کہ اپنے منہ پر بھی
پردہ ڈلا ہوا لیکن ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھومتے نظر آتے ہیں، عام پاکستانی و
ہندوستانی بھی ، گورے انگریز بھی کالے انگریز بھی، ایسے جوڑے بھی کہ جن کے
مرد سوٹ میں ملبوس اور عورتوں کے جسم پر لباس کی کمیابی لیکن اپنے کام سے
کام کوئی کسی کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا، ہم جیسے لکھاریوں کی یہ
مجبوری ہوتی ہے کہ اگر دیکھیں گے نہیں تو لکھیں گے کیسے، اس مجبوری کے سبب
ہم لکھاری ہر ایک چیز کو تجسس کے ساتھ، شوق کے ساتھ، غور کے ساتھ دیکھتے،
محسوس کرتے ہیں، اس لیے بھی کہ شاید کچھ لکھنے کو نکل آئے، کہنے کو مل
جائے۔ہم لکھاری خاص طور پر کالم نگار وں کی کیفیت کھوجیوں کی سی ہوتی ہے۔
ان کی طبیعت میں کھوجیوں والی حس پیدا ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ انہیں ہر روز
لکھنا ہے، روز نہیں تو دوسرے دن ورنہ ہر ہفتہ تو کالم لکھنا ہی ہے۔ اسے
مجبوری کہیں،ضروت کانام دیں یا شوق ۔ لکھنا لکھاری کی مجبوری بن جاتا ہے۔
میں بھی اپنی اسی مجبوری کے ہاتھوں دبئی ائر پورٹ کو تجسس کے ساتھ، کھوجی
کیفیت میں اور شوق کے ساتھ دیکھتا رہا اور اس ماحول کو، اس منظر کو اپنے
اندر محفوظ کرتا رہاکہ وقت آنے پر اسے قلم و قرطاس پر منتقل کرسکوں۔ دبئی
ائر پورٹ پر میرے پاس وقت بھی تھا، لیب ٹاپ بھی لیکن ایک مجبوری تھی کہ
دبئی ائر پورٹ پر بجلی کے جو پوائنٹس لگائے گئے ہیں وہ کرسیوں کے پاس نہیں
ہیں بلکہ اُس سپاٹ دیوار کے نیچے کی جانب لگے ہوئے ہیں کہ آپ زمین پر بیٹھ
سکتے ہوں تو بیٹھ جائیں ، اپنے لیب ٹاپ لگا لیں، موبائل چارج کرلیں اور بعض
لوگ سوٹ میں ملبوس اپنے لیب ٹاپ کھولے زمین پر بیٹھے تھے ، کچھ اپنے موبائل
چارج کررہے تھے لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ میں زمین پر بیٹھ نہیںسکتا، میں
تو عرصہ دراز سے نماز بھی کرسی پر بیٹھ کر پڑھتا ہوں۔ کھبی کبھی سوچتا ہوں
کہ منکرنکیروں نے اگر حکم دے دیا کہ چلواُٹھ کر بیٹھو اور پھر ہمارے سوالوں
کے جواب دو، تو پھر کیا ہوگا۔ یقینا ان سے معزرت کرنی ہوگی، معافی مانگنا
ہوگی کہ حضور میں اٹھ کر زمین پر بیٹھ نہیں سکتا، کرسی کا وہاں سوال ہی
پیدا نہیں ہوتا، کھڑا ہونا بھی ممکن نہیں ہوگا، شاید انہیں میری اس کیفیت
پر ترس آجائے اور ذیادہ نہ سہی پاسنگ مارکس ہی دے ڈالیں تو بیڑاپار ہوجائے
گا۔ یہ تو صرف مزاق ہی ہے، اﷲ رحم کرنے والا بڑا مہر بان اور بخشش کرنے
والا ہے ۔
پنجاب کی کہاوت ہے کہ جس نے ’لاہور نہیں ویکھا اُو جمیاہی نہیں‘ یعنی جس نے
لاہور نہیں دیکھا وہ گویا پیدا ہی نہیں ہوا۔ اب دبئی ائر پورٹ دیکھ کر یہ
کہنا پڑتا ہے کہ جس نے دبئی نہیںدیکھا گویا اس نے دنیا میں کچھ بھی نہیں
دیکھا۔دبئی کو حسین و جمیل ، چمکتی دمکی اور اونچی اونچی عمارتوں کا شہر
بھی کہا جاتا ہے۔ برج خلیفہ جو برج دبئی کے نام سے بھی معروف ہے ابھی تک
انسانی تخلیق کی سب سے اونچی عمارت ہے اس کی لمبائی 829.8میٹر یا2722 فٹ ہے
، اس کی تعمیر 6جنوری 2004میں شروع ہوئی تھی یکم اکتوبر2009کو مکمل ہوا
4جنوری 2010کواسے عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا۔ خلیفہ برج سر دست دبئی کا
مخصوص نشان بن چکا ہے ۔ اس برج کی تصویریں اور اس کی شیلڈ ہر چھوٹے بڑے
سائز میں بڑی تعداد میںدستیاب ہیں۔دنیا میں اور بھی اونچی عمارات موجود ہیں
ان میں ایفل ٹاور کی لمبائی 301میٹر ہے، امپائر اسٹیٹ بلڈنگ 381میٹر ہے ۔ورلڈ
ٹریڈ سینٹر کی اونچائی541میٹر تھی۔ دنیا کے امیر ممالک کے درمیان اونچی
اونچی بلڈنگ بنانے کا ایک مقابلہ جاری ہے۔سعودی عرب کے شہر مکہ المکرمہ میں
قائم ’مکہ کلاک رائل ٹاور ‘ کی اونچائی 60 میٹر یا 1972فٹ ہے اس میں
120فلور ہیں، کل ہی یعنی 29 اپریل کو ہم طواف کرنے گئے تھے۔ وہاں موجود
اپنے سالار اعظم ارشد قریشی سے مختصر ملاقات بھی کی ۔ موصوف نے حسب سابق اس
ہوٹل کی مہنگی چائے اسی مکہ ہوٹل کے چوتھے فلار پر ریسٹورانٹ کی جگہ چائے
پلائی۔ کچھ دیر وہاں بیٹھ کر اس کا نظارہ بھی کرتے رہے۔ ظفر قریشی بھی اسی
جگہ ہیں۔ چند روز قبل ان کے والد علیم الدین قریشی کا کراچی میں انتقال ہو
گیا، وہ کافی عرصہ سے بیمار چلے آرہے تھے، کراچی سے چلنے سے قبل ہم انہیں
اسپتال دیکھنے بھی گئے تھے۔ عزیزم ظفرسے ان کے والد کا پرسہ بھی کرنا تھا۔
سو وہ بھی کیا۔یہ مکہ کے چند مہنگے ہوٹلوں میں سے ہے۔ نظر آرہا ہوتا ہے کہ
پیسہ پانی کی مانند بہا یاگیا ہے۔اﷲ عربوں پر شروع ہی سے مہربان ہے۔ خوب
عطا کررہا ہے وہ اسی فراغ دلی سے خوب خرچ کررہے ہیں۔ یہ ہوٹل حرم کے اتنے
قریب ہے کے اس کے اندر نماز کی ادائیگی گویا حرم میں ادائیگی ہوتی ہے۔ ہم
نے بھی اس ہوٹل کے نچلے کوریڈور میں کئی بار نماز ادا کی۔دبئی کے شیخوں نے
برج خلیفہ بنایا تو سعودی شیخ کب پیچھے رہنے والے تھے ۔ انہوں نے سعودی عرب
کے شہر جدہ میں دنیا کی سب سے اونچی عمارت ’کنگ ڈم ٹاور(Kingdom Tower)‘
برج الا مملکہ (Burj Al-Mumlakah) کی بنیاد رکھ دی۔یہ عمارت بحر احمر کے
کنارے زیر تعمیر ہے ۔ یہ اونچائی میں دنیا کی سب اونچی بلڈنگ ہوگی اس کی
اونچائی 1007میٹر یا 3304فٹ ہوگی اور اس کے 186 فلور ہوں گے۔اب دیکھنا یہ
ہوگا کہ کنگ ڈم ٹاور کے تیار ہوجانے کے بعد دبئی کے حکمران کیا کارنامہ
انجام دیتے ہیں۔ خاموش ہو رہے ہوتے ہیں یا پھر کوئی اور منصوبہ تیار کرتے
ہیں ابھی تک اس سلسلے میں کوئی سنوائی نہیں آئی، لگتا ہے کہ انہوں نے برج
خلیفہ پر بات ختم کردی ہے۔
ہوائی جہازوں کے پروگرام بورڈ پر ہماری فلائٹ کا ابھی نام و نشان نہیںتھا
اس کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ اسے جانے میں ابھی بہت دیر ہے میں تو کچھ
پریشان ہورہاتھا لیکن میری بہو مہوش اور پوتا صائم عدیل اس سے قبل بھی دبئی
آچکے تھے اور ائر پورٹ پر بھی کئی گھنٹے اگلی فلائٹ کا انتطار کرچکے تھے
انہوں نے ہمارا حوصلہ بڑھائے رکھا۔اب ہمیں صبح ۷ بجے تک انتظار کرنا تھا۔
کچھ وقت ائر پو رٹ کا نظارہ کیا ایک گھنٹے بعد ہماری فلائٹ کا وقت بھی
فلائٹ شیڈول بورڈ پر آگیا۔ اب ہمیں اطمینان ہوا کہ چلو دیر سہی یہ تو معلوم
ہوا کہ فلائٹ کب اور کس گیٹ سے ہمیں جانا ہوگا۔
ہم ایمریٹس ائر لائن کی پرواز سے 10 اپریل کی شب ہم کراچی سے دبئی کے لیے
روانہ ہوئے تھے۔ میرے ہمراہ میری شریک حیات شہناز، میری بڑی بہو مہوش عدیل،
پوتا محمد صائم ، پوتی حبیبہ بھی تھی۔ ایمریٹس ائر لائن کی جو فلائٹ دبئی
سے جدہ جاتی ہے اس میں کوئی آٹھ سے ہزار افراد کی گنجائش ہوتی ہے۔ اس لیے
کہ جب فلائٹ کا اعلان ہوا تو جوجمِ خفیر موجود تھا اس سے طبیعت پریشان تھی۔
ہم بخیر و عافیت جدہ اپنے گھر پہنچ گئے۔(یکم مئی 2015جدہ، سعودی عرب) |
|