ہم زلف نبی ؐ ،امام تدبروسیاست،امیرالمومنین حضرت سیدنامعاویہ رضی اﷲ عنہ
(Muhammad Jehan Yaqoob, Karachi)
تمام انسانوں میں ابنیائے کرام
علیہم الصلو والسلام کے بعد فضیلت میں حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم ہی کا
درجہ ہے ۔ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اگر چہ معصوم نہیں ہیں ، مگر ان سے
جو بھی گناہ ( اﷲ تعالی نے کسی حکمت کے تحت صادر کرائے اور )ہوئے تھے ، اﷲ
تعالی نے انہیں معاف فرما کر تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو بلا تفریق
اپنی رضا کا پروانہ عطا فرما یا ہے ،لہذا حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا
ذکر ہمیشہ اچھے لفظوں میں کرنا چاہیے۔اسلام دشمنوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی
کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی حیثیت کو کم کیا جائے تاکہ ان کے ذریعے سے ہم
تک پہنچنے والے دین میں نقب زنی آسان ہوجائے ۔
فاتح عرب و عجم، کاتب وحی، برادر نسبتی پیغمبر، ہم زلف نبی، راز دار نبوت،
امام تدبر و سیاست، خال المومنین، امیر المومنین،سیدالرسل امام الانبیاخاتم
المعصومین حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک نہایت ممتاز و جلیل القدر
صحابی سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ آسمان نبوت کے وہ ستارے اور چمنستان
محمدی ﷺ کے وہ پھول ہیں کہ جن پر سب سے زیادہ اعتراضات کیے اور کئی الزامات
عائد کیے گئے ہیں۔بغض اعداکایہ عالم ہے کہ اس عظیم ہستی کے یوم وفات
پرباقاعدہ دعوتوں کااہتمام کیاجاتاہے۔ تمام اعتراضات و الزامات کی وجہ قرآن
و سنت کے مقابلہ میں تاریخی روایات کو اہمیت دینا ہے۔ جبکہ قرآن و سنت کی
تعلیمات کے خلاف ہر روایت قابل تردید ہے۔ چہ جائے کہ اس پر تکیہ کرتے ہوئے
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ کرام پر براہ راست اور بالواسطہ رسول
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پر انگلی اٹھائی جائے، حالانکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت
ہے کہ صحابہ کرام کا مقام تاریخ کی کتابوں سے متعین نہیں کیا جاسکتا ،
کیونکہ تاریخیں کئی صدی بعد لکھی گئی ہیں ۔
حضرت معاویہ ؓ۔ ابتدائی تعارف:
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ رضی اﷲ تعالی عنہ بعثت نبوی ﷺ کے
تقریباپانچ برس قبل پیداہوئے۔آپ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضورصلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم سے ملتا ہے۔حضر ت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ رضی اﷲ
تعالی عنہ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل القدر صحابی ہونے کے ساتھ کاتب
وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے امیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور آپ
رضی اﷲ تعالی عنہ کے لیے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے کئی دفعہ
دعائیں اور بشارتیں نکلیں ، آپ رضی تعالی عنہ کی بہن حضرت سیدہ ام حبیبہ
رضی اﷲ تعالی عنہا کو حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ اور ام
المومنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔آپ کے والدحضرت سیدناابوسفیان رضی اﷲ عنہ
اوروالدہ حضرت سیدہ ہندہ رضی اﷲ عنہابھی شرف صحابیت سے مشرف تھے۔ حضرت
امیرمعاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ کے آئینہ اخلا ق میں اخلاص ، علم وفضل، فقہ
واجتہاد، تقریر وخطابت، غریب پروری، خدمت خلق، مہمان نوازی، مخالفین کے
ساتھ حسن سلوک، فیاضی وسخاوت، اور خوف الہی کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔
حضور ﷺ کی نوازشات:
آپ صلح حدیبیہ کے بعدہی اسلام قبول کرچکے تھے،تاہم اس کاباقاعدہ اعلان فتح
مکہ کے موقع پرکیا۔حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم چونکہ حضرت معاویہ رضی اﷲ
تعالی عنہ کے سابقہ حالات زندگی اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے آگاہ تھے اس
لئے انہیں خا ص قرب سے نوازا ۔ فتح مکہ کے بعد آپ رضی اﷲ تعالی عنہ حضور
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی رہے اور تمام غزوات میں حضورصلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کی قیادت و معیت میں بھرپور حصہ لیا۔
قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب ''کتابت وحی'' ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے جلیل القدر صحابہ رضوان اﷲ تعالی علیہم اجمعین پر مشتمل ایک
جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ '' کاتب وحی '' تھے ان میں حضرت معاویہ رضی
اﷲ تعالی عنہ کا چھٹا نمبر تھا۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی لکھتے ہیں :
حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ کو کا تب وحی
بنایا تھا اورآپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اسی کو کاتب وحی بناتے تھے جو ذی
عدالت اور امانت دار ہوتا تھا (ازالتہ الخفا ازشاہ ولی اﷲ دہلوی ؒ)
حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت وحی
کے ساتھ ساتھ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے خطوط تحر یر کرنے کی سعادت
حاصل ہوئی۔
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں
حاضر رہتے یہاں تک کہ سفرو خضر میں بھی خدمت کا موقع تلاش کرتے۔چنانچہ ایک
بار حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کہیں تشریف لے گئے تو سیدنا حضرت امیر
معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ پیچھے پیچھے گئے۔ راستہ میں حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کو وضو کی حاجت ہوئی پیچھے مڑ ے تو دیکھا، معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ
پانی لیے کھڑے ہیں ، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بڑے متاثر ہوئے ،چنانچہ وضو
کے لیے بیٹھے تو فرمانے لگے: معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ تم حکمران بنو تو نیک
لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اور برے لوگوں کے ساتھ درگزر کرنا ۔حضورصلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم آپ کی خدمت اور بے لوث محبت سے اتنا خوش تھے کہ بعض اہم
خدمات آپ کے سپرد فرمادی تھیں ۔ علامہ اکبر نجیب آبادی'' تاریخ اسلام'' میں
رقمطراز ہیں کہ حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے باہر سے آئے ہوئے
مہمانوں کی خاطر مدرات اور ان کے قیام وطعام کا انتظام واہتمام بھی حضرت
معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ کے سپرد کر دیا تھا۔
خلفائے راشدین ؓ کے دورمیں جہادی کارنامے:
حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر
صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کے دور میں آپ نے مانعین زکو، منکرین ختم نبوت ،
جھوٹے مدعیان نبوت اور مرتدین کے فتنوں کے خلاف بھرپور حصہ لیا اور کئی
کارنامے سر انجام دیئے ۔ایک روایت کے مطابق مسلیمہ کذاب حضرت معاویہ ؓ رضی
اﷲ تعالی عنہ کے وار سے جہنم رسید ہوا۔ خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی
اﷲ تعالی عنہ کے دور خلافت میں جو فتوحات ہوئیں، ان میں حضرت امیر معاویہ ؓ
رضی اﷲ تعالی عنہ کا نمایاں حصہ اور کردار ہے ،جنگ یرموک میں آپ بڑی بہادری
اور دلیری کے ساتھ لڑے، اس جنگ میں آپ کا پورا خاندان جنگ میں حصہ لے رہا
تھا۔
خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالی عنہ کے دور خلافت میں سیدنا
حضرت امیر معاویہ ؓ رضی اﷲ تعالی عنہ جہاد وفتوحات میں مصروف رہے اور آپ نے
رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس ،شام،عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطاکیہ،
طرطوس، ارواڑ ، روڑس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت
میں داخل کردئیے۔ حضرت امیر معاویہ ؓ رضی اﷲ تعالی عنہ ان علاقوں کی فتوحات
کے بعد اب یہ چاہتے تھے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے اس کو اب
سمندر پار یورپ میں داخل ہونا چاہیے، اسی بناپرفتح قبرص کی خواہش آپ کے دل
میں مچل رہی تھی، جس کے لیے بحری بیڑے کی اشد ضرورت تھی۔ بحرروم میں رومی
حکومت کا ایک بہت بڑا بحری مرکز تھا جو کہ شام کے ساحل کے قریب ہونے کے
باعث شام کے مسلمانوں کیلئے بہت بڑا خطرہ تھا اسے فتح کیے بغیر شام ومصر کی
حفاظت ممکن نہ تھی اس کے علاوہ سرحدی رومی اکثر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے
ہوئے مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے۔حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالی عنہ کی
طرف سے بحری بیڑے کو تیار کرنے کی اجازت ملنے کے بعد حضرت امیر معاویہ ؓ
رضی اﷲ تعالی عنہ نے بڑے جوش خروش کے ساتھ بحری بیڑے کی تیاری شروع کردی
اور اپنی اس بحری مہم کا اعلان کردیا جس کے نتیجے میں جذبہ جہاد سے سرشار
مجاہدین اسلام شام کا رخ کرنے لگے۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعدمحض چھے ماہ خلافت کے منصب پرفائزرہنے
کے بعد41ھ میں حضرت سیدناحسن رضی اﷲ عنہ نے برضاورغبت خلافت آپ کوسونپ دی
اورحضرات حسنین کریمین رضی اﷲ عنہمانے آپ کوخلیفہ برحق مانتے ہوئے بیعت
کرکے منافقین کے تمام عزائم کویک سرناکام بنادیا۔ خلیفہ بنتے ہی آپ نے
عارضی طورپراسلامی فتوحات میں آنے والے تعطل کاخاتمہ کردیا اوراسلامی
لشکرکی باگ دورسنبھال لی، چنانچہ 42ھ میں غزوہ سجستان پیش آیا اور آپ رضی
اﷲ عنہ ہی کی قیادت میں سندھ کا کچھ حصہ بھی مسلمانوں کے زیرنگیں آیا۔ 42ھ
میں کابل فتح ہوا اور مسلمان ہندوستان میں قدابیل کے مقام تک پہنچ گئے۔ 43ھ
میں ملک سوڈان فتح ہوا ۔ 45ھ میں افریقہ پر لشکر کشی کی گئی اور ایک بڑا
حصہ مسلمانوں کے زیرنگیں آیا۔ 46ھ میں صقلیہ(سسلی)پر پہلی بار حملہ کیا گیا
اور کثیر تعداد میں مال غنیمت مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔ 47ھ میں افریقہ کے
مزید علاقوں میں جہادجاری رکھا۔ 49ھ میں آپ رضی اﷲ عنہ نے قسطنطنیہ کی طرف
زبردست اسلامی لشکر روانہ فرمایا، جو مسلمانوں کا قسطنطنیہ پر پہلا حملہ
تھا۔ 50ھ میں قبستان جنگ کے بعد قبضہ میں آیا۔ 54ھ میں آپ رضی اﷲ عنہ کے
دور خلافت میں مسلمان دریائے جیجون کو عبور کرتے ہوئے بخارا تک جا پہنچے۔
56ھ میں غزوہ سمر قند پیش آیا۔سیدنا معاویہ ؓ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہ نے
رومیوں کے خلاف سولہ جنگیں لڑی حتی کہ آخری وصیت بھی یہی تھی کہ روم کا گلا
گھونٹ دو۔خلاصہ یہ کہ حضرت سیدناامیرمعاویہ ؓ رضی اﷲ تعالی عنہ ایک عظیم
جرنیل،سپہ سالاراورمیدان حرب کے نڈرشہسوارتھے،یہی وجہ ہے کہ سیدنا حضرت
امیر معاویہ ؓ رضی اﷲ تعالی عنہ کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے
حوالہ سے شاندار دور حکومت ہے ایک طرف بحر اوقیانوس اور اور دوسری طرف سندھ
اور افغانستان تک میں اسلام کی فتح کے جھنڈے گاڑ دیئے۔
دورخلافت اوراصلاحات:
اس کے ساتھ ساتھ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ نے خلفائے راشد
ین کے تر قیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل نئے امور واصلاحات کی
داغ بیل ڈال کر اس کو فروغ دیا:
1 ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ رضی اﷲ تعالی عنہ نے سب سے پہلاا
قامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔
2 ۔سب سے پہلے اسلامی بحریہ قائم کیا، جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور دنیا
کی زبردست رومن بحریہ کو شکست دی۔
3 ۔آبپاشی اور آبنوشی کیلئے پہلی نہر کھدوائی۔
4 ۔ ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔
5۔ احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد
کیا۔
6۔ آپ سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے، آپ نے
پرانے غلافوں کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔
7 ۔پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آیا اور انتظامیہ کو بلند تر بنایا اور
انتظامیہ کو عدلیہ میں مداخلت سے روک دیا۔
8۔ بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت
وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے فرمائے۔
9 ۔ سرحدوں کی حفاظت کیلئے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے
تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔
10۔بڑے بڑے اخلاقی مجرموں کے لئے خصوصی پولیس(سی ۔آئی۔ اے سٹاف)کی
بنیادڈالی۔
روایات:
حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ سے حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
163احادیث مروی ہیں۔جن میں سے کئی حدیثیں بخاری ومسلم میں بھی
موجودہیں۔آنحضرت ﷺ کی اس قدرقربت کے باوجودآپ کی روایات کم اس لیے ہیں کہ
آپ حدیث نقل کرنے میں حددرجہ محتاط تھے۔
وفات حسرت آیات:
22رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم ، فاتح شام و قبرص اور 19سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے
والے حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ حضرت
ضحاک بن قیس رضی اﷲ تعالی عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب
الصغیر میں مدفون ہوئے۔اﷲ کی ان پربے شماررحمتیں نازل ہوں(آمین)
کونڈے۔ایک نفرت انگیزبدعت
رجب کے مہینے میں جہاں کئی اور بدعتیں ثواب سمجھ کرکی جاتی ہیں مثلا ہزار ی
اور لکھی روزے،صلوۃ الرغائب،27 رجب کی شب بسلسلہ معراج النبی ﷺ چراغاں کرنا
وغیرہ ,ان میں ایک مشہور بدعت22 رجب کو امام جعفر صادق رحمہ اﷲ کے کونڈے
بھی ہے۔ کہتے ہیں اس تاریخ کو امام جعفرؒ کا انتقال ہوا تھا ۔ حالانکہ22
رجب امام جعفرؒ کا نہ یوم وفات ہے اور نہ ہی یوم ولادت،بلکہ ان کی ولادت 8
رمضان 80ھ ہے اور وفات15 شوال 148 ھ ہے ۔
دراصل دشمنان صحابہ ؓ 22 رجب کو کاتب وحی حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی
وفات کی خوشی میں یہ رسم ادا کرتے ہیں کیونکہ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ سے ان
کی عداوت اور دشمنی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ چونکہ تقیہ کرنا ان کے ایمان
کا ایک جز واعظم ہے اور ان کا مشہورقول ہے:
’’ لا ایمان لمن لا تقیہ لہ‘‘ ( جس شخص نے تقیہ نہیں کیا اس کا کوئی ایمان
نہیں)س لئے یہ لوگ دوسروں کو سیدھی بات نہیں بتاتے کہ ہم وفات معاویہ رضی
اﷲ عنہ کا جشن منا رہے ہیں بلکہ تقیہ کرکے اور فرضی کہانیاں سناکر لوگوں کو
گمراہ کرتے ہیں ۔ رہا اس بات کا ثبوت کہ22رجب حضرت امیر معاویہؓ کا یوم
وفات ہے اور شیعہ قوم کے نزدیک یہ دن بہت بابرکت ہے, یہ بات شیعہ مذہب کی
مشہور کتاب تحفۃ العلوم طبع لکھنو باب چودہ صفحہ62 پربھی موجودہے،جس کے
ٹائٹل پر لکھا ہوا ہے:
:’’ یہ کتاب فیض انتساب مذہب اثنا ء عشری یعنی مذہب شیعہ کے احکام ومسائل
دین وغیرہ کی ہے‘‘
اہل سنت میں بھی بعض نادان اور ناواقف لوگ کونڈے کرتے ہیں، چونکہ یہ لوگ
بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں ا س مناسبت سے ان کے اپنے اعلیٰ حضرت کا
بھی ایک فتویٰ درج کیا جاتا ہے چنانچہ وہ اپنے ایک فتویٰ کے آخر میں فرماتے
ہیں: ومن یکن یطعن فی معاویہؓ فذالک کلب من کلاب الھاویہ ( احکام شریعت حصہ
اول صفحہ103)
ترجمہ: ’’جو شخص حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتوں سے ایک
کتاہے ‘‘اس بات کافیصلہ ہم اپنے بریلوی مکتب فکرسے تعلق رکھنے والے بھائیوں
پرچھوڑتے ہیں کہ حضرت سیدنامعاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے یوم وفات کی خوشی
مناناان پرطعن کرنے کے مترادف یااس سے بڑاجرم ہے یانہیں۔ |
|