میت کا بیان
(پیرآف اوگالی شریف, Khushab)
جان کنی کی علامت
پاؤں کاسست ہو جانا کہ کھڑے نہ ہو سکیں، ناک کا ٹیڑھا ہو جانا، دونوں
کنپٹیوں کا بیٹھ جانا، منہ کی کھال کا سخت ہو جانا وغیرہ۔
جان کنی کے وقت
جب موت کا وقت قریب آئے اور علامتیں پائی جائیں تو سنت یہ ہے کہ میت کا منہ
قبلہ کی طرف کر دیں اور قبلہ کی طرف کرنا دشوار ہو کہ اس کو تکلیف ہوتی ہو
تو جس حالت پرہے چھوڑ دیں اور جب تک روح گلے نہ آئی اسے تلقین کریں یعنی اس
کے پاس بلند آواز سے کلمہ طیبہ یا کلمہ ہ شہادت پڑھیں ، مگر اسے اِس کہنے
کا حکم نہ کریں۔ جب اس نے کلمہ پڑھ لیا تو اب تلقین موقوف کردیں ہاں اگر
کلمہ پڑھنے کے بعد اس نے کوئی بات کی تو پھر تلقین کریں تاکہ اس کا اخیر
کلام لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ o ہو ۔ خوشبو اس کے پاس
رکھیںمثلالوبان یا اگر بتیاں سلگادیں، مکان میں کوئی تصویر یا کتا وغیرہ ہو
تو اس کو فورا نکال دیں کہ جہاں یہ ہوتی ہیں وہاں ملائکہ رحمت نہیں آتے، اس
وقت اس کے پاس نیک اور پرہیز گار لوگ رہیں تو بہت بہتر ہے کہ نزع کے وقت
اپنے اور اس کے لیے دعائے خیر کرتے رہیں۔ کوئی برا کلمہ منہ سے نہ نکالیں ،
نزع میں سختی دیکھیں تو سورئہ یسین اور سورئہ رعد پڑھیں۔
جب میت کا دم نکل جائے۔
جب روح نکل جائے تو ایک چوڑی پٹی جبڑے کے نیچے سے سر پر لے جاکر گرہ دے دیں
کہ منہ کھلا نہ رہے۔ نہایت نرمی اور شفقت سے آنکھیں بند اور انگلیاں اور
ہاتھ پاں سیدھے کر دیں۔ آنکھیں بند کرتے وقت
یہ دعا پڑھیں:
بسم اللہ وعلی مل رسول اللہ اللھم یسر علیہ امرہ وسھل علیہ ما بعدہ و اسعدہ
بلقآ ئک واجعل ماخرج الیہ خیرا مما خرج عنہo
ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ اور رسول اللہ کی ملت پر، اے اللہ ! تو اس کے
کام کو اس پر آسان کر اور اس کے مابعدکو اس پر سہل کر اور اپنی ملاقات سے
تو اسے نیک بخت کر اور اس کی آخرت اس کے لیے دنیا سے بہتر کر۔
پھر جن کپڑوں میں وہ مرا ہے وہ اتارلیں اس کے سارے بدن کو کسی کپڑے سے
چھپادیں اس کے پیٹ پر لوہا یا گیلی مٹی یا کوئی اور بھاری چیز رکھ دیں کہ
پیٹ پھول نہ جائے مگر زیادہ وزنی نہ ہو کہ باعثِ تکلیف ہے۔ میت کو چارپائی
وغیرہ کسی اونچی چیز پر رکھیں کہ زمین کی سیل نہ پہنچے۔ اس کے ذمہ قرض
وغیرہ ہو تو جلد از جلد ادا کر دیں۔ پڑوسیوں اور اس کے دوست واحباب کو
اطلاع دیں کہ نمازیوں کی کثرت ہوگی اور غسل و کفن دفن میں جلدی کریں کہ
حدیث میں اس کی بہت تاکید آئی ہے۔
میت کے پاس تلاوتِ قرآن مجید وغیرہ
میت کے پاس تلاوتِ قرآن مجید جائز ہے جب کہ اس کا تمام بدن کپڑے چھپا ہو
ااور تسبیح اور دوسرے اذکار میں تو کوئی حرج نہیں۔
میت کو غسل دینا
میت کو غسل دینا یعنی نہلانا فرض کفایہ ہے کہ بعض لوگوں نے غسل دے دیا تو
سب سے ساقطِ ہوگیا اور باوجود علم کسی نے غسل نہ دیا تو سب پر گناہ ہوا۔
میت کو نہلا نا
میت کو نہلانے کا طریقہ یہ ہے کہ جس تختے پر نہلانے کا ارادہ ہو اس کا تین
یا پانچ یا سات باردھونی دیں یعنی جس چیز میں وہ خوشبو سلگتی ہے اسے اتنی
بار اس کے گرد پھرائیں اور اس پر میت کولٹا کر ناف سے گھٹنوں تک کسی کپڑے
سے چھپادیں اور مستحب یہ ہے کہ جس جگہ غسل دیں ، وہاں پردہ کر لیں کہ
نہلانے والے اور اس کے مددگار کے سِوا دوسرا نہ دیکھے۔ اب نہلانے والا جو
باطہارت ہو اپنے ہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر پہلے استنجا کرائے پھر نماز کا سا
وضو کرائے۔ مگر میت کے وضو میں گٹوں تک پہلے ہاتھ دھونا اور کلی کرنا اور
ناک میں پانی ڈالنا نہیں ہے لہذا پہلے میت کا منہ اور پھر کہنیوں سمیت
دونوں ہاتھ دھوئیں، پھر سر کا مسح کریں پھر پاں دھوئیں او ر کوئی کپڑا یا
روئی کی پھریری بھگو کر دانتوں اور مسوڑھوں اور ہونٹوں اور نتھنوں پر پھیر
دیں، اس کے بعد سر اور داڑھی کے بال گل خیرویا بیسن یا کسی اور پاک چیز
مثلا اسلامی کارخانے کے بنے ہوئے صابن سے دھوئیں ورنہ خالی پانی بھی کافی
ہے۔ پھر بائیں کروٹ پر لٹا کر سر سے پاں تک بیری کے پتے جوش دیا ہوا پانی
بہائیں کہ تختہ تک پہنچ جائے پھر دا ہنی کروٹ پر لٹا کر اسی طرح کریں، خاص
نیم گرم پانی بھی کافی ہے۔ پھرٹیک لگا کر بٹھائیں اور نرمی کے ساتھ نیچے کو
پیٹ پر ہاتھ پھیریں اگر کچھ نکلے دھو ڈالیں، وضو و غسل کا اعادہ نہ کریں،
پھر آخر میں سر سے پاں تک کافور کا پانی بہائیں اور اس کے بدن کو کسی پاک
کپڑے سے آہستہ پونچھ لیں، ایک مرتبہ سارے بدن پر پانی بہانا فرض ہے اور تین
بار سنت۔
میت کوکون نہلائے
بہتر یہ ہے کہ نہلانے والا میت کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہو، وہ نہ ہو
یا نہلانا نہ جانتا ہو تو کوئی اور شخص جو متقی او ر امانت دار ہو کہ پوری
طرح غسل دے اور جو اچھی بات دیکھے اسے لوگوں کے سامنے بیان کر ے اور بری
بات دیکھے تو اسے کسی سے نہ کہے، ہاں اگر کوئی بد مذہب بدعقیدہ مرا اور اس
کی کوئی بری بات ظاہر ہوئی تو اس کا بیان کر دینا چاہیے تاکہ لوگوں کو عبرت
ہوا اور مرد کو مرد نہلائے عورت کو عورت ۔ میت چھوٹا لڑکا ہے تو اسے عورت
بھی نہلا سکتی ہے اور چھوٹی لڑکی کو مرد بھی غسل دے سکتا ہے۔
میت کے غسل کے لیے نئے گھڑے بدہنے ضروری نہیں، گھر کے استعمالی گھڑے لوٹے
سے بھی غسل دے سکتے ہیں اور غسل کے بعد انھیں تو ڑ ڈالنا ناجائز و حرام ہے،
زیادہ سے زیادہ یہ کہ انھیں دھو ڈالیں اور اپنے استعمال میں لائیں یا مسجد
میں رکھ دیں ، لیکن اس خیال سے نہیں کہ ان کا گھر میں رکھنا نحوست ہے کہ یہ
تو نری حماقت ہے بلکہ نیت یہ ہو کہ نمازیوں کو آرام پہنچے گا اور مردے کو
اس کا ثواب۔
میت کو کفن دینا
میت کو کفن دینا فرض کفایہ ہے کہ ایک کے دینے سے سب پر سے گناہ اٹھ جائے گا
ورنہ سب گنہگار ہوں گے۔
مرد کے لیے کفن
مر د کے لیے سنت تین کپڑے ہیں، لفافہ یعنی چاردر جو میت کے قد سے اس قدر
زیادہ ہو کہ دونوں طرف باندھ سکیں ازار یعنی تہ بند چوٹی سے قدم تک یعنی
لفافہ سے اتنا چھوٹا جو بندش کے لیے زیادہ تھا اور قمیص جسے کفنی کہتے ہیں،
گردن سے گھٹنوں کے نیچے تک اور یہ آگے اور پیچھے دونوں طرف برابر ہو، چاک
اور آستین اس میں نہ ہوں۔
عورت کے لئے کفن
عورت کے لیے کفن میں پانچ کپڑے سنت ہیں، تین تو یہی اور اوڑھنی، اس کی
مقدار تین ہاتھ یعنی ڈیڑھ گز ہے، سینہ بند، سینہ سے ناف تک اور بہتر یہ ہے
کہ ران تک ہو ہاں مرد اور عورت کی کفنی میں فرق ہے۔ مرد کی کفنی مونڈھے پر
چیریں اور عورت کے لیے سینہ کی طرف یعنی مرد کی کفنی کا گر بیان مونڈھے کی
طرف ہوگا اور عورت کی کفنی کا سینہ کی طرف ہے۔
اگر کسی کو کفنِ سنت میسر نہ ہو
کفنِ کفایت مرد کے لیے دو کپڑے ہیں لفافہ اور ازار ، اور عورت کے لیے تین،
لفافہ ، ازار، اوڑھنی یا لفافہ ، قمیص، اوڑھنی اور یہ بھی نہ ہو سکے تو
کفنِ ضرورت دونوں کے لیے یہ کہ جو میسر آئے اور کم از کم اتنا تو ہو کہ
سارا بدن ڈھک جائے۔
کفن کیسا ہو
کفن اچھا ہونا چاہیے یعنی مرد عیدین اور جمعہ کے لیے جیسے کپڑے پہنتا تھا
اور عورت جیسے کپڑے پہن کر میکے جاتی تھی اس قیمت کا ہونا چاہیے۔ حدیث میں
ہے کہ مردوں کو اچھا کفن دو کہ وہ باہم ملاقات کرتے اور اچھے کفن سے تفاخر
کرتے یعنی خوش ہوتے ہیں اور بہتر سفید کفن ہے اور کسم یا زعفران کا رنگا ہو
ا یا ریشم کا کفن مرد کو ممنوع ہے اور عورت کے لیے جائز ، یعنی جو کپڑا
زندگی میں پہن سکتا ہے اس کا کفن بھی دیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں۔
کفن پہنانے کا طریقہ یہ ہے کہ میت کو غسل دینے کے بعد بدن کسی پاک کپڑے سے
آہستہ پونچھ لیں کہ کفن تر نہ ہو اور کفن کو دھونی دے کر یوں بچھائیں کہ
بڑی چادر، پھر تہ بند، پھر کفنی، پھر میت کو اس پر لٹائیں، اور کفنی
پہنائیں اور داڑھی اور تمام بدن پر خوشبو ملیں اور مواضع سجود یعنی ماتھے ،
ناک ، ہاتھ گھٹنے قدم پر کافور لگائیں ، پھر ازار یعنی تہ بند لپیٹیں ،
پہلے بائیں جانب سے پھر دا ہنی جانب سے ، پھر لفافہ لپیٹیں ، پہلے بائیں
پھر دائیں طر ف سے تاکہ دائیں طر ف سے تاکہ داہنا اوپر رہے اور سر اور پاں
کی طرف باندھ دیں کہ اڑنے کا اندیشہ نہ رہے اور عورت کو کفنی پہنا کراس کے
بال کے دو حصے کرکے کفنی کے اوپر سینہ پر ڈال دیں اور اوڑھنی نصف پشت کے
نیچے سے بچھا کر سر پر لا کر منہ پر مثل نقاب ڈال دیں کہ سینے پر رہے پھر
بدستور ازار اور لفافہ لپیٹیں پھر سب کے اوپر سینہ بند، سینہ سے ران تک
لاکر باندھ دیں۔
سنت یہ ہے کہ چار شخص جنازہ اٹھائیں اور ہر ایک یکے بعد دیگرے چاروں پایوں
کو کندھا دے اور ہر بار دس دس قدم چلے اور پوری سنت یہ ہے کہ پہلے داہنے سر
ہانے کندھا دے پھر دا ہنی پائنتی، پھر بائیں سرہانے پھر بائیں پائنتی اور
دس دس قدم چلے تو کل چالیس قدم ہوئے۔ حدیث میں ہے کہ جو چالیس قدم جنازہ لے
چلے اس کے چالیس کبیرہ گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔ چلنے میں چار پائی کا
سرہانہ آگے رکھیں اور جنازہ معتدل تیزی سے لے جائیں مگر نہ اس طرح کہ میت
کو جھٹکا لگے اور چھوٹا بچہ شیر خوا ر یا اس سے بڑا اس کو اگر ایک شخص ہاتھ
پر اٹھا کر چلے تو حر ج نہیںاور یکے بعد دیگرے لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے رہیں
ورنہ چھوٹے کھٹولے یا چار پائی پر لے جائیں۔
جنازہ کے ساتھ جانے والوں کے لیے افضل یہ ہے کہ جنازہ سے پیچھے چلیں، دائیں
بائیں نہ چلیں اور اگر کوئی آگے چلے تو اتنی دور رہے کہ ساتھیوں میں شمار
نہ ہو، نیز ساتھ چلنے والوں کو سکوت کی حالت میں ہونا چاہیے ، موت اور قبر
کو پیش نظر رکھیں ، دنیا کی باتیں نہ کریں، نہ ہنسیں اور ذکر کرنا چاہیں تو
دل میں کریں او بلحاظِ زمان حال اب علما نے زکرِ جہر کی بھی اجازت دے دی
ہے۔
جوشخص جنازہ کے ساتھ ہو اسے بغیر نماز پڑھے واپس نہ ہونا چاہیے اور نماز کے
بعد اولیائے میت سے اجازت لے کر واپس ہو سکتا ہے۔ اور میت دفن کر دی جائے
تو اولیائے میت سے اجازت کی ضرورت نہیں
|
|