میت کا بیان حصہ دوئم
(پیرآف اوگالی شریف, Khushab)
نماز جنازہ میں دو رکن ہیں چار
بار اللہ اکبر ، قیام کرنا اور تین چیزیں سنت موکدہ ہیں اللہ عزوجل کی حمد
و ثنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف اور میت کے لیے دعا، اور بعض
علما اسے واجب کہتے ہیں اور جن چیزوں سے تمام نمازیں فاسد ہو تی ہیں نماز
جنازہ بھی ان سے فاسد ہو جاتی ہے۔
نمازِ جنازہ میں دو طرح کی شرطیں ہیں، ایک مصلیِ سے متعلق ، دوسری میت سے
متعلق، مصلی کے لحاظ سے تو وہی شرطیں ہیں جو مطلق نماز کی ہیں اور میت سے
تعلق رکھنے والی چند شرطیں ہیں جو یہ ہیں: ()میت کا مسلمان ہونا ()میت کے
بدن و کفن کا پاک ہونا()جنازہ کا وہاں موجود ہونا ، لہذا غائب کی نمازِ
جنازہ نہیں ہو سکتی اور نجاشی کی نماز جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
پڑھائی وہ حضور کے خواص میں شامل کی گئی ہے، دوسروں کو ناجائز ہے ()جنازہ
کا زمین پرہونا یا ہاتھ پر ہو تو قریب ہو ()جنازہ مصلیِ کے آگے قبلہ کو
ہونا ()میت کا وہ حصہ بدن جس کا چھپانا فرض ہے چھپا ہونا ()میت کا امام کے
محاذی ہونا۔
جن کی نمازِ جنازہ نہیں
باغی جو بغاوت میں مارا جائے، ڈاکو کہ ڈاکہ میں مارا گیا، وہ لوگ جو ناحق
پاسدار سے لڑیں او ر وہیں مر جائیں ، جس نے کئی شخص گلا گھونٹ کر مارڈالے،
شہر میں رات کو ہتھیار لے کر لوٹ مار کریں اور اسی حالت میں مارے جائیں ،
جس نے اپنی ماں یا باپ کو مار ڈالا، جو کسی کا مال چھین رہا تھا اور اسی
حالت میں مارا گیا، ان کے علاوہ ہر مسلمان کی نماز پڑھی جائے اگرچہ وہ کیسا
ہی گنہگار اور مرتکب کبائر ہو، یہاں تک ہ جس نے خود کشی کی حالانکہ یہ بہت
بڑا گناہ ہے مگر اس کی بھی پڑھی جائے گی، یونہی بے نمازی کی بھی نماز پڑھنا
ہم پر فرض ہے
نمازِ جنازہ پڑھنے کا طریقہ
میت کے سینے کے سامنے میت سے قریب امام کھڑا ہو اور مقتدی تین صفیں کر لیں۔
اب امام اور مقتدی نیت کرکے (کہ نیت کی میں نے نمازِ جنازہ کی مع چار
تکبیروں کے واسطے اللہ تعالی، دعاواسطے اس میت کے، منہ میرا کعبہ شریف کی
طرف۔ امام امامت کی اور مقتدی اقتدا کی نیت کرے، کانوں تک ہاتھ اٹھا کر
تکبیر تحریمہ کہتا ہوا ہاتھ نیچے لائے اور ناف کے نیچے حسبِ دستور باندھ لے
اور ثنا پڑھے پھر اللہ اکبر کہہ کر درود پڑھے اور بہتر وہ درود ہے جو نماز
میں پڑھا جاتا ہے۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر اپنے اور میت اور تمام مسلمان
مردوں کے لیے دعا کرے۔ یہ تین تکبریں ہوئیں، چوتھی تکبیر کے بعد بغیر کوئی
دعا پڑھے ہاتھ کھول کر سلام پھیر دے، تکبیر اور سلام کو امام جہر کے ساتھ
کہے مقتدی آہستہ ، باقی تمام دعائیں آہستہ پڑھی جائیں گی، اور صرف پہلی
مرتبہ تکبیر کہنے کے وقت ہاتھ اٹھائے جائیں پھر ہاتھ اٹھانا نہیں۔
جنازہ میں دعاں کاذکر
میت بالغ ہو تو یہ دعا پڑھیں:
اللھم اغفر لحینا ومیتنا وشاھدنا وغآ ئبنا وصغیرنا وکبیرنا وذکرنا وانثا نا
اللھم من احییتہ منا فاحیہ علی الا سلام ومن توفیتہ منا فتوفہ علی الایمانo
ترجمہ: اے اللہ تو بخش دے ہمارے زندے اور مردے اور ہمارے حاضر و غائب کو
اور ہمارے چھوٹے بڑوں کو اور ہمارے مردوعورت کو ، اے اللہ ہم میں تو جسے
زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جسے وفات دے اسے ایمان پر
وفات دے۔
اگر نابالغ لڑکا ہو تو یہ دعا پڑھیں:
اللھم اجعلہ لنا فرطا واجعلہ لنا اجرا وذخرا واجعلہ لنا شافعا ومشفعاo
ترجمہ: اے اللہ تو اس کو ہمارے لیے پیشرو کردار اس کو ہمارے لیے اجر و
ذخیرہ کر اور اس کی ہماری شفاعت کرنے والا اور مقبول الشفاعت بنا۔
اور لڑکی ہو تو :اجعلہا اورشافع ومشفع کہے
اور جو شخص اچھی طرح یہ دعائیں نہ پڑھ سکے تو جو دعا چاہے پڑھے مگر وہ دعا
ایسی ہو کہ امور آخرت سے متعلق ہو۔
اگر کئی جنازے ہوں
کئی جنازے جمع ہوں تو ایک ساتھ سب کی نماز پڑھ سکتے ہیں یعنی ایک ہی نماز
میں سب کی نیت کر لے اور افضل یہ ہے کہ سب کی علیحدہ علیحدہ پڑھے اور اس
صورت میں پہلے اس کی پڑھے جو ان میں افضل ہے پھر اس کی جو اس کے بعد سب میں
افضل ہے،وعلی ہذالقیاس، اور ایک ساتھ پڑھیں تو اختیار ہے کہ سب کو آگے
پیچھے رکھیں، یعنی سب کا سینہ امام کے مقابل ہو یا برابر برابر رکھیں یعنی
ایک کی پائنتی یا سر ہانے دوسرے کو۔
میت کی قبر پر نماز پڑھنا
میت اگر بغیر نماز پڑھے دفن کر دی گئی اور مٹی بھی دے دی گئی ، تو اب اس کی
قبر پر نماز پڑھی جائے جب تک پھٹنے کا گمان نہ ہو اور اگر مٹی نہ دی گئی ہو
تو میت کو قبر سے نکال لیں اور نماز پڑھ کر دفن کر یں۔ اور قبر پر نماز
پڑھنے میں دنوں کی کوئی تعداد مقر رنہیں بلکہ یہ موسم اور زمین اور میت کے
جسم اور مرض کے اختلاف پر موقوف ہے مثلا گرمی میں جسم جلد پھٹے گا اور
جاڑوں میں دیر سے فربہ جسم جلد لاغر اور لاغر دیر میں تر یا شور زمین میں
جلد ااور خشک وغیرہ شور میں بدیر۔
مسجد میں نماز جنازہ مطلقا مکروئہ تحریمی ہے خواہ میت مسجد کے اندر ہو یا
باہر سب نمازی اندرہوں یا بعض کہ حدیث میں نماز جنازہ پڑھنے کی ممانعت آئی
ہے۔
میت کو قبلہ کی جانب سے قبر میں اتاریں اور دا ہنی طرف کروٹ کو لٹائیں اور
اس کا منہ قبلہ کو کریں ، عورت کا جنازہ اتار نے والے اس کے محرم ہوں، یہ
نہ ہوں تو دوسرے رشتہ والے اور یہ بھی نہ ہوں تو پرہیز گار اجنبی اتاریں
اور عورت کا جنازہ ہ وتو قبر میں اتارنے سے تختہ لگانے تک قبر کو کپڑے
وغیرہ سے چھپائے رکھیں، میت کو قبر میں رکھتے وقت یہ دعا پڑھیں: بسم اللہ
وبا للہ وعلی ملتہ رسول اللہ oاور قبر میں رکھنے کے بعد کفن کی بندش کھول
دیں اور لحد کو کچھی انیٹوں سے بند کر دیں اور زمین نرم ہو تو تختے لگانا
بھی جائز ہے اور تختوں کے درمیان جھری رہ گئی تو اسے ڈھیلے وغیرہ سے بند کر
دیں ، قبر صندوق نما ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔
قبر کو مٹی دینے کا طریقہ۔
مستحب یہ ہے کہ سرہانے کی طرف سے دونوں ہاتھوں سے تین بار مٹی ڈالیں، پہلی
بار کہیں : منھا خلقنکم (اسی سے ہم نے تمھیں پیدا کیا) دوسر ی بار وفیھا
نعیدکم (اور اسی میں تم کو لوٹائیں گے) اور تیسری بار ومنھا نخرجکم تار
اخری o(اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے) باقی مٹی ہاتھ یا پھاوڑے وغیرہ
سے قبر پر ڈالیںاور جتنی مٹی قبر سے نکلی اس سے زیادہ ڈالنا مکروہ ہے اور
ہاتھ میں جومٹی لگی ہے اسے جھاڑ دیں یا دھو ڈالیں اختیار ہے اور قبر چو
کھونٹی نہ بنائیں بلکہ اس میں ڈھال رکھیں جیسے اونٹ کا کوہان اور اونچائی
میں ایک بالشت یا کچھ زیادہ ہو ااس پر پانی چھڑ کنے میں کچھ حرج نہیں بلکہ
بہتر ہے-
دفن کے بعد قبر کے پاس اتنی دیر تک ٹھہرنا مستحب ہے جتنی دیر میں اونٹ ذبح
کرکے گوشت تقسیم کر دیا جائے کہ ان کے رہنے سے میت کو انس ہوگا اور نکیرین
کا جواب دینے میں وحشت نہ ہوگی اور اتنی دیر تک تلاوتِ قرآن مجید اور میت
کے لیے استغفار و دعا کریں کہ سوال نکیرین کے جواب میں ثابت قدم رہے اور
مستحب یہ ہے کہ دفن کے بعد قبر پر سورئہ بقرہ کا اول و آخر پڑھیں، سرہانے
الم سے مفلحون تک او رپائنتی امن الرسول سے آخرتک
قبر پر قرآن پڑھنے اور اس کا ثواب میت کو بخشنے کے لیے حافظ مقرر کرنا جائز
ہے جبکہ پڑھنے والے بلِااجرت پڑھتے ہوں کہ اجرت پر قرآنِ کریم پڑھنا اور
پڑھوانا ناجائز نہیں، اگر بِلا اجرت پڑھنے والا نہ ملے اور اجرت پر پڑھوانا
چاہے تو اپنے اپنے کام کاج کے لیے نوکر رکھے پھر یہ کام لے۔
شجرہ یا عہد نامہ قبر میں رکھنا جائز ہے اور بہتر یہ ہے کہ میت کے منہ کے
سامنے قبلہ کی جانب طاق کھود کر اس میں رکھیں کہ امیدِ مغفرت ہے۔
جنازہ پر پھولوں کی چادر ڈالنے میں حرج نہیں ، یونہی قبر پر پھول ڈالنا
بہتر ہے کہ جب تک تر رہیں گے، تسبیح کریں گے اور میت کا دل بہلے گا، اسی
لیے قبر پر سے ترگھاس نوچنانہ چاہیے کہ اس کی تسبیح سے رحمت اترتی ہے اور
میت کو انس ہوتا ہے اور نوچنے میں میت کا حق ضائع کرنا ہے۔
احادیث کریمہ میں وارد ہے کہ جب بندہ قبر میں رکھا جاتا ہے اور مردے سے
سوال ہوتا ہے کہ تیرا رب کون ہے تو شیطان اس پر ظاہر ہوتا اور اپنی طرف
اشارہ کرتا ہے کہ میں تیرا رب ہوں، اس لیے حکم آیا کہ میت کے لیے جواب میں
ثابت قدم رہنے کے لیے دعا کریں۔ خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میت کو
دفن کرتے وقت دعا فرماتے الہی اسے شیطان سے بچا اور صحیح حدیثوں سے ثابت ہے
کہ جب مذن اذان کہتا ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے۔ تو قبر پر
اذان دینے کا یہ فائدہ تو ظاہر ہے کہ بفضلہ تعالی میت کو شیطانِ رجیم کے شر
سے پناہ مل جاتی ہے اور اسی اذان کی برکت سے میت کو سوالاتِ نکیرین کے
جوابات بھی یاد آ جاتے ہیں، یہ دوسرا فائدہ ہوا، پھر اذان ذکرِ الہی ہے اور
جہاں ذکرِ الہی ہوتا ہے وہاں رحمت نازل ہوتی ہے۔ آسمان کے دروازے کھول دئیے
جاتے ہیں، عذابِ الہی اٹھا لیا جاتا ہے، اور یہ تو ظاہر ہے کہ ذکرِ الہی
وحشت کو دور کرتا ہے اور دل کو اطمینان بخشتا ہے، تو قبر پر اذان سے میت سے
عذاب اٹھ جانے اور اس کی وحشت دور ہوجانے کی قوی امید ہے، اس لیے اذان
زندوں کی طرف سے میت کے لیے ایک عجیب نفع بخش تحفہ ہے۔
کسی قبر پر ، سونا، چلنا، پاخانہ پیشاب کرنا حرام ہے۔ قبرستان میں جو نیا
راستہ نکلا گیا ہے اس سے گزرنا ناجائز ہے اور اپنے کسی رشتہ دار کی قبر تک
جانا چاہتا ہے مگر قبروں پر گزرنا پڑے گا تو وہاں تک جانا منع ہے دور ہی سے
فاتحہ پڑھ لے اور قبرستان میںجوتیاں پہن کر نہ جائے اسی طرح وہ تمام باتیں
ممنوع ہیں جو باعثِ غفلت ہوں جیسے کھناپینا سونا، ہنسنا ، دنیا کا کوئی
کلام کرنا وغیرہ۔
کسی مسلمان کی موت پر اپنے مسلمان بھائی کو جو میت کے اقارب سے ہے، صبر کی
تلقین کرنا تعزیت ہے، تعزیت مسنون اور کارِ ثواب ہے۔ اس کا وقت موت سے تین
دن تک ہے اور کوئی عذر ہو تو بعد میں بھی حرج نہیں، تعزیت میںیہ کہنا چاہیے
کہ اللہ تعالی میت کی مغفرت فرمائے اس کو اپنی رحمت میں ڈھانکے اور تم کو
صبر روزی کرے اور اس مصیبت پر ثواب عطا فرمائے۔ |
|