سیاست کس ہنرمندی سے سچائی چھپاتی ہے
(Tehzeeb Hussain Bercha, )
عظیم لیڈر ولادیمیر لینن نے
کہاتھا
’’ لوگ ہمیشہ سیاست میں دھوکہ دے کر بیوقوف بنائے گئے ہیں اور اپنی غلط
فہمی کے بھی شکار رہے ہیں اوراس وقت تک ہوتے رہیں گے کہ جب تک وہ یہ پتہ
چلانا نہ سیکھ لیں کہ تمام اخلاقی‘مذہبی‘سیاسی اور معاشرتی لفاظیوں‘اعلانوں
اور وعدوں کے پسِ پردہ کس طبقے کے مفاد پوشیدہ ہیں ‘‘
جوں جوں سرزمینِ بے آئین گلگت بلتستان میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے
وہاں انتخابات کی جھُلسا دینے والی لُوبھی اس علاقے کا رخ کر رہی ہے اور
ایک خبر کے مطابق 8جون2015کونام نہاد انتخابات کے ذریعے ایک استحصالی طبقے
کے ہاتھوں دوسرے استحصالی طبقے کے ہاتھ اقتدار کی منتقلی کا عملی مظاہرہ
کیا جائے گا اور سر مایہ دارانہ نظام کی بنیادوں پر قائم ریاست میں ایک اور
سرمایہ دار ٹولے کو اقتدار کی باگ ڈور سونپی جائے گی ۔گلگت بلتستان میں
انتخابات کے موسم کی شروعات کے ساتھ ہی تمام سیاسی‘سماجی‘مذہبی اور معاشرتی
جماعتیں بھرپور تیاریوں کے ساتھ میدان میں آئی ہیں اور عوام کو کھوکھلے
خواب دکھانے میں مصروفِ عمل ہیں جبکہ فکری طورپر مفلوج قوم پھر سے ان
آزمودہ و غیر آزمودہ سیاسی مداریوں کے ہاتھوں آسانی سے بیوقوف بننے کی
تیاری کر رہی ہے۔
ہندوستان کے نامور شاعر منوّر رانا نے کیا خوب کہا ہے،
سیاست کس ہنر مندی سے سچائی چھپاتی ہے
کہ جیسے سسکیوں کا زخم شہنائی چھپاتی ہے
گلگت بلتستان میں آج کل سرکاری دفاتر ہوں یا غیر سرکاری ادارے‘مساجد ہوں یا
عبادت خانے،چائے خانے ہوں یاریسٹورنٹس،سکولزہوں یا یورنیورسٹیاں ہر جگہ
پرائمری پاس تا اعلٰی تعلیم یافتہ شخص تک سیاسی گفتگو میں مصروف ہے۔کسی نے
مذہبی جماعتوں سے اپنی امیدیں وابستہ کی ہیں تو کسی نے سیاسی پارٹیوں
سے،کوئی کسی مخصوص مسلک کا خیر خواہ بننے کی ناکام کوشش کر رہاہے تو کو ئی
کسی خاص ذات کی۔تاحدِ نظر جہاں بھی دیکھیں چارسوُ ہر شخص سیاسی گفتگومیں
مصروف اپنی فکری پستی کو عیاں کرنے کا خوب مظاہرہ کر رہا ہے۔
گلگت بلتستان میں میدانِ سیاست کے تجربہ کار کھلاڑی یعنی پرانے سیاستدان نت
نئے طریقوں سے عوام کو اپنے جال میں پھنسانے کے لئے ہرقسم کے حربے استعمال
کر رہے ہیں۔کوئی اپنے حلقے کے عوام کو اپنے سابقہ احسانات یاد دلا رہا ہے
تو کوئی کسی مذہبی جماعت کانیم ملّا سیاستدان آخرت کی فکر کی تلقین کے ساتھ
ساتھ ریاستِ پاکستان کے عوام کی کمزوری یعنی مذہب کا سہارا لے کرعوام کو
مسلکی بنیاد پر ووٹ دے کر اپنے فرقے کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے مفت
مشورے دے رہا ہے۔جبکہ کچھ سیاسیات کے الف -ب سے ناواقف اور شہرت کے بھوکے
مگر معاشی طور پر مستحکم نومولود سیاستدان بھی میدان میں اترے ہیں اور
اشتہارات اور خبروں کی مد میں اخبارات اور ان کے رپورٹرز کے لیے بھی مالی
معاونت کا ذریعہ بن رہے ہیں اور کچھ سیاسی لوٹے تومستقبل میں اپنے مفادات
کومد نظر رکھتے ہوئے پارٹیوں کی تبدیلی یعنی ضمیر فروشی کا بھی خوب مظاہرہ
کر رہے ہیں۔
پاکستانی سیاست کی تاریخ کے اوراق کو اٹھا کر دیکھا جائے تو 67 سالوں کے
دوران آج تک انتخابات کے ذریعے کوئی مفکّر ،دانشور یا باکردار شخص تو
اقتدار میں نہیں آیا اور اگر غلطی سے آیا تو بھی سرمایہ دارانہ نظام کی بے
رحم موجوں میں بہہ گیا کیونکہ نام نہاد جمہوریت یا روٹی ،کپڑااور مکان کے
نام پر اس ملک کا جو حشر کیا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہے
عوامی شاعر حبیب جالبؔنے کیا خوب کہا تھا
وہی ظالم گھرانے حکمراں ہیں
وہی تاریک صدیوں کے نشاں ہیں
گلگت بلتستان کے عوام کی سیاسی شعور کی پستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا
سکتا ہے کہ وہ پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے جھنڈوں کے سائے تلے اپنے شاندار
مستقبل کے خوب دیکھ رہے ہیں لیکن وہ وقت دور نہیں کہ ان کے سارے خواب کانچ
کی طرح چکنا چور ہو جا ئیں گے کیونکہ پاکستان کی وہ سیاسی پارٹیاں جو تاحال
دیگر صوبوں کے عوام کی معیارِ زندگی میں تبدیلی لانے سے قاصر ہیں وہ گلگت
بلتستان کی تقدیر کیا خاک بدل دینگے؟ یا فرض کریں کہ مستقبل میں حقوق سے
محروم اس خطے میں کوئی کٹھ پتلی حکومت قائم کی جاتی ہے تو یقینا بات ہے کہ
اس کی ڈور بھی وفاق سے ہی ہلائی جائے گی جبکہ یہاں کے ممبرانِ قانون
سازاسمبلی یا حکمراں فقط قراردادیں منظور کرنے اور وفاق کو ارسال کرنے اور
اپنی پیٹ پوجا میں مزید۵ سال ضائع کریں گے جبکہ عوام وفاقی حکومت اور مقامی
حکومت کی پریم کہانی میں محض بے اختیار رقیب کا کردار ادا کرتے رہیں گے
بقول جالبؔ
کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری
کہا ں بدلی ہیں تقدیریں ہماری
گلگت بلتستان میں آزادی سے لے کر آج تک یہ ہماری بد قسمتی رہی ہے کہ مقامی
سطح پر یہاں بہت سی تحریکیں چلیں اور پارٹیاں میں وجود میں آئی اور ختم بھی
ہوئی مگر صد حیف !کہ کسی بھی پارٹی نے صحیح معنوں میں یہاں کے عوام کے حقوق
کے لیے جدوجہد نہیں کی اور فقط چند مراعات اور عہدوں کے لیے ضمیر فروشی کا
خوب مظاہرہ کیا اور یہی سلسلہ تا حال جاری ہے اور 1970ء کی دہائی میں
پاکستانی سیاسی پارٹیوں کی اس خطے میں آمد کے ساتھ ہی یہی فارمولا اپلائی
کیا جاتا رہا ہے کہ چند افراد کو مراعات اورعہدوں سے نواز ا جائے تا کہ
باقی سیاسی طور پر بے شعور قوم خود بہ خود حقوق کی بات کرنے سے باز رہے۔
اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی نے 2009ء میں گلگت بلتستان کے عوام کے نام پر
پارٹی جیالوں کو ایک پیکیج دیا جس سے عام عوام کی معیارِ زندگی میں واضح
کوئی تبدیلی نہیں آئی جبکہ پارٹی جیالوں کی معیارِ زندگی میں واضح تبدیلیاں
دیکھی جا سکتی ہیں اورعوام آج تک اس پیکیج سے مستفید ہونے سے قاصر ہیں۔گلگت
بلتستان میں آنے والے وقتوں میں خواہ وہ ن لیگ کی حکومت آئے یا پاکستان
پیپلز پارٹی کی۔پی ٹی آئی کی ہو یا کسی اور مذہبی جماعت کی ۔لیکن غریبِ شہر
کے دن پھرنے کے امکانات نہایت کم ہیں اور گلگت بلتستان کے عوام کو خوابوں
کی دنیامیں رہنے کے بجائے حقیقت پسندی کو اپنا شعار بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام سب سے پہلے اپنے حقوق کے حصول
کے لیے یکجا ہوجائیں اور غریب عوام کی دشمن سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اٹھ
کھڑے ہوں کیونکہ جب تک اس ریاست میں سرمادارانہ نظام کا وجود قائم ہے تب تک
اسی طرح جمہوریت کے نام پر جمہور کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا رہے گا
۔ہمیں انتخابات کے ذریعے فقط چہروں کے بدلنے کے بجائے اس نظام کو بدلنے کی
ضرورت ہے اور اس کے علاوہ یہاں کے عوام کو مستقبل میں سیاسی طور پربیدار
ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیشہ سے یہ ہماری بد قسمتی رہی ہے کہ ہم ایک متحد
قوم بننے میں ناکا م رہیں ہیں اور مسالک ،ذات اور علاقائی تعصبات کے بھنور
میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن اب ہمیں سیاسی حوالے سے شعورپیدا کرنے کی اشدضرورت
ہے اور ہم تمام مسلکی،ذاتی اور علاقائی تعصبات کو بھلاکر ایک متحد قوم بن
کر اپنے حقوق کے لیے جدو جہد کریں اورجب گلگت بلتستان کے عوام ایک متحد قوم
بن کر اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرینگے تو وہ وقت دورنہیں کی نظامِ
جہل کی یہ زنجیریں ٹوٹ جائیں ۔حبیب جالب کے بقولؔ
بدل جائے گا دیکھتے دیکھتے
یہ عہدِ خرابی، یہ عہدِ ستم |
|