مملکت شام کی ہر شام ، شام
غریباں اور ہر دن کربلا ہے جہاں سوائے مظلوموں و بے گناہوں کے خون سے ہولی
ہی نہیں کھیلی جا رہی بلکہ دین اسلام کو تمام دنیا کے سامنے فرقہ وارنہ
بنیادوں پر تماشہ بنا یا جا رہا ہے۔ شام کی چار سالہ خانہ جنگی میں اب تک
دو لاکھ بیس ہزار سے زائد کی ہلاکتیں اقوام عالم کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے
کہ ایک جابر حکمران کی ضد میں اس کی دہشتگردانہ پالیسیوں کے سبب بے گناہوں
کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ مارچ 2011ء سے شروع ہونے والی خانہ
جنگی میں ہلاکتوں کا ریکارڈ جمع کرنے والی شامی مبصر گروپ برائے انسانی
حقوق کے اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ دو لاکھ بائیس ہزار ہلاکتوں کا
ریکارڈ جمع کیا گیا ۔ ہلاک ہونے والوں میں 67ہزار عام شہری جن میں گیارہ
ہزار بچے بھی ہیں۔ان اعداد و شمار میں بیس ہزار افراد کے نام شامل نہیں ہیں
جنہیں لاپتہ افراد کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔
شام کے مسئلے پر جس طرح بین الاقوامی طاقتیں خاموش ہیں اور شام کی روز بہ
روز بگڑتی صورتحال پر قابو نہیں پایا جارہا تو اس ضمن میں مسلم عرب ممالک
کے نو رکنی اتحاد پر یہ لازم بھی ہوجاتا ہے کہ یمن کی بغاوت کو کچلنے کیلئے
جس طاقت و اتحاد کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ، شام میں بھی جابر و ظالم حکومت
کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرے اور شام کی عوام کو جابر و ظالم حکمران
سے نجات دلائے۔ بد قسمتی سے امت واحدہ کے تصور کو جب بھی فرقہ واریت نے
پامال کیا ، شام و عراق کی طرح سانحات رونما ہوتے رہے ہیں ، اسلام کو سب سے
زیادہ فرقہ واریت نقصان پہنچا رہی ہے ، فرقہ وارنہ مسالک کی وجہ سے دین
واحد کا تصور مقفود ہوتا جا رہا ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے دنیا جہاں صلیبی
اور غیر صلیبی ممالک میں تقسیم ہو رہی ہے تو دوسری جانب مسلم ممالک کو فرقہ
واریتکے نام پر ٹکڑے ٹکڑے کیا جارہا ہو ۔ کسی غیر مسلم ملک کو کسی مسلم کے
داخلی مسائل میں صرف اسی صورت دلچسپی ہوسکتی ہے جب وہ دنیا میں اپنا من
پسند نظام لا کر دیگر اقوام کو محکوم بنانا چاہتا ہو۔اگر ہم دنیاوی سیاست
کا اجمالی جائزہ لیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ استعماری قوتیں دنیا میں اپنا
نظام لانے کیلئے اپنے طے شدہ منصوبوں پر باقاعدگی سے عمل پیرا ہیں۔ عیسائی
چاہتے ہیں کہ ان کا نظام ساری دنیا پر رائج ہوجائے ، اس کیلئے انھوں نے
اپنے عقیدے کو سامنے لاتے ہوئے کہ یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کا قتل
کیا تھا اور انھیں ( نعوذباﷲ) مصلوب کیا تھا اس لئے انھیں ان ناپاکوں کو اس
دنیا سے پاک کردینا چاہیے ، لہذا یہودیوں کو جہاں پاؤ ، قتل کردو پر عمل
کرتے ہوئے جہاں ہٹلر نے ڈھیر کے ڈھیر لگا دیئے کہ آج دنیا اس معاملے کو
ہولو کاسٹ کہتی ہے اور اس پر مغرب میں بحث بھی ممنوع کردی گئی ہے ، لیکن
پاپائیت کا یہ ایجنڈا اس سے قبل مسلمانوں پر آزمایا گیا اور صلیبی جنگوں کا
آغاز کیا گیا لیکن انھیں پے در پے شکستوں کی وجہ سے مسلمانوں نے پسپا کرنے
پر مجبور کردیا ۔پاپائیت حضرت عیسی کی آمد سے قبل دنیا میں اس عقیدے کو
فروغ دینا چاہتے ہیں کہ دنیا میں صرف عیسائیت باقی رہے ، اس لئے جب نائن
الیون کا واقعہ رونما کرایا گیا تو امریکہ نے ایسے صلیبی جنگوں کا آغاز
قرار دیا۔مسلم ممالک پر مغرب کی جارحیت بھر پور طاقت کے ساتھ کی گئی اور
مسلم ممالک پر اقوام متحدہ کی آڑ لیکر بے گناہ شہریوں کے خون سے ہولی کھیلی
گئی ۔ چونکہ مغرب میں یہودیوں نے خود کو مضبوط کرلیا تھا اس لئے انھوں نے
جمہوریت کی افسوں گری کا سہارا لیکر پاپائیت کے پیروکاروں کو اپنا غلام
بنانا شروع کردیا ۔ جمہوریت کے نام پر ریاست کی طاقت کو کمزور کردیا اور
انسانی مالی و معاشی وسائل پر بتدریج قبضہ کرتے ہوئے خود کو خدا کیچہیتی
اولا اور دنیا پر غلبے حاصل کرنے کے وعدے کے خود ساختہ مفروضے کے تحت مسلم
ممالک کو ہی مشق ستم بنانا شروع کردیا۔یہاں انھوں نے بھی اسی مفروضے اور
اپنے عقائد کی بنا پر دنیا پر صہیونی حکمرانی کے لئے سازشوں کا جال بنا اور
عیسائیت کے مقابلے میں انھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے قتل و غارت گری کا
انتقام مسلمانوں سے لینا شروع کردیا۔ عرب ممالک کو شکست دیکر عربوں کی زمین
پر قبضہ کرکے یہودی عالمی حکومت کا ہیڈ کواٹر اسرائیل کی صورت میں بنا لیا
، عیسائی ممالک پر جمہوریت اور معاشی پالسییوں کے نام پر وہ پہلے ہی قبضہ
کرچکے تھے ان کے سامنے حائل ہونے والے صرف مسلم امہ تھی اس لئے انھوں نے
مسلم امہ کی کمزوریوں کو نشانہ بنانا شروع کیا اور جہاں جہاں تفرقہ شدت کے
ساتھ متشدد نظر آیا اپنے ایجنٹوں کو استعمال کرکے مسلم امہ میں تفرقے کی
دراڑیں ڈال دیں۔
جس طرح عیسائیت میں حضرت عیسی علیہ السلام کی واپسی اور یہودیوں میں حضرت
عزیز علیہ السلام کی واپسی اور عالمی حکومت قائم کرنے عقیدہ موجود ہے تو
اسی طرح مسلمانوں میں بھی دجال اور حضرت عیسی علیہ السلام کی واپسی کے بعد
اسلام کے غلبے اور غیر مسلموں کے خاتمے کے بعد عالمی مسلم حکومت کا عقیدہ
پایا جاتا ہے لیکن یہاں فرق صرف اتنا ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں نے
باقاعدہ اپنے عقیدے کی جانب منصوبہ بندی سے رخ کیا ہوا ہے لیکن ابھی تک
مسلم امہ کی جانب سے اس قسم کی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی تھی لیکن
موجودہ صورتحال میں مسلم امہ دو بڑے مسالک میں کچھ اس طرح تقسیم ہوئی ہے کہ
ایسا لگتا ہے کہ دونوں بڑے مسالک سب سے پہلے اپنے مسالک کے نام پر مسلم
ممالک میں اپنے نظریئے کی بنیاد پر مملکتیں قائم کرنے کے خواہاں ہوں۔عراق ،
شام ، یمن، مصر، لیبا ،افغانستان اور پاکستان کی صورتحال دیکھ لیں تو دوسری
جانب، عرب ممالک کی جانب سے عرب ممالک میں ہونے والی بغاوتوں پر مسالک کے
نام امداد و کاروائیوں کی صورتحال دیکھ لیں توواضح طور پر نظر آتا ہے کہ
مسلم امہ دو بڑے واضح گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ایک
عام مسلمان اسصورتحال سے متاثر ہوئیبغیر نہیں رہ سکا ہے۔
مورخہ چھ فروری 2015ء کو یمن میں باغیوں نے ملک میں دو سال کیلئے صدارتی
کونسل اور عبوری پارلیمنٹ کے قیام کا اعلان کیا ، پانچنچسو اکیاون اراکین
پر مشتمل ایک عبوری پارلیمنٹ کی تشکیل کا اعلان بھی کیا گیا۔تہران کے رکن
اسمبلی علی رضا زاکانی نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انھوں نے کہا کہ کہ
"ایران اب چار عرب دارالحکومتوں پر اختیار رکھتا ہے، بغداد ، دمشق ، بیروت
اور اب صنعا ۔"یہاں مسلم ممالک آپس میں مسالک کے نام پر دست و گریبان ہیں
اور مسلم ممالک پر اپنے نظریئے کے مطابق اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں تو
دوسری جانب مسلمانوں کے ساتھ دیگر ممالک میں ہونے والے امتیازی سلوک پر
موثر آواز اٹھانے والا کوئی نظر نہیں آتا ۔ مثال کے طور پر مرکزی افریقہ کے
دورے کے دوران اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر سمانتھا پاور نے بتایا کہ
مرکزی افریقہ میں تشدد کے بعد تقریباََ تمام417 مساجد کو مسمار (شہید)
کرددیا گیا۔اقوام متحدہ کے عہدے داروں نے مرکزی افریقہ میں ہونے والی تباہی
کو ہولناک قرار دیا اور کہا کہ مسلمان محلوں میں رہنے والے شدید وحشت کا
شکار ہیں۔برسلز کے انٹرنیشنل کرائسس سینٹر نے بھی مرکزی افریقہ کی صورتحال
کو انتہائی تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کی فورسز نے بھی
امن قائم کرنے میں کوئی مثبت کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ افریقی یونین ،
فرانسیسی افواج اور مرکزی افریقہ کی افواج نے بھی پائیدار امن اور شہریوں
کے تحفظ کیلئے ناتوانی کا مظاہرہ کیا"۔دوسری جانب فرانس اور مغربی ممالک
میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے تو جب سے بھارت میں انتہا پسند
ہندو حکومت آئی ہے ، بھارتی مسلمانوں کو چین سے سانس لینا نصیب نہیں ہو رہا
اور آئے دن بھارتی مسلمانوں کو تنگ کرنے کیلئے نت نئے قوانین بنائے جا رہے
ہیں اور مسلمانوں کو تیسرے درجے سے بھی نیچے کے شہری کے طور پر بھی جینے کا
حق نہیں دیا جارہا۔دنیا کے نئے نقشے میں کس کی عالمی حکومت قائم ہوگی کچھ
کہا نہیں جا سکتا کہ لیکن ایک بات بہت وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مسلم امہ
کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہے ، مسالک اور فرقہ واریت کے نام پر شام اور
عراق میں جس طرح کے ظلم ڈھائے جا رہے ہیں ایسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اسرائیل
اور امریکہ کا ظلم کچھ بھی نہیں ہے۔اب یمن میں فرقہ وارنہ باغیوں کی جانب
سے ان کے مسالک کے برخلاف کیا نتائج سامنے آتے ہیں اس پر تھوڑا اطمینان اس
لئے ہے کہ نو رکنی عرب اتحاد کی جانب سے باغیوں کی بیخ کنی شروع کردی گئی
ہے اور ان کی کمر توڑ دی گئی کہ ان کا سر پرست سابق صدر عبداﷲ صالح خلیجی
ممالک میں اپنے اور اپنے خاندان کیلئے پناہ کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوگیا
ہے۔خلیجی ممالک نے علی عبداﷲ صالح کی ایلچی ابوبکر القربی کے مشن کو رد
کرتے ہوئے سابق صدر کا حوثی باغیوں سے اتحاد اور پھر ان سے علیحدگی کے
اعلان کو ان کے سیاسی اور اخلاقی افلاس کا ثبوت قرار دیتے ہوئے درخواست کو
رد کردیا۔اگر ہم مسلم ممالک اپنے فرقہ وارنہ اور مسالک کی جنگ میں اپنا
قبلہ درست نہیں کریں گے تو ایسی ذلت کا سامنا دور نہیں ہے جب عالمی حکمرانی
کے دو بڑے فریقین کی ریشہ دیوانیوں ے سبب ہمارے پاس کچھ بھی باقی نہ
رہے۔ہمیں غیر جانبدار ہوکر یہ سوچنا ہوگا اور ارباب اختیار کو فیصلہ کرنا
ہوگا کہ کیا ذلت ہم سے دورہے ؟ |