ملا برادر کی گرفتاری، امریکی کامیابی یا انکل سام کی چالاکی

کراچی سے تحریک طالبان افغانستان کے نائب امیر ملا محمد اخوند پوپلزئی عرف ملا عبدالغنی برادر کی گرفتاری کے فوراً بعد جمعرات 18 فروری کو بغلان میں طالبان کے گورنر ملا عبدالسلام اور قندوز کے گورنر ملا میر محمد کو بھی بالترتیب فیصل آباد(پنجاب اور چمن(بلوچستان)سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ملا محمد اخوند پوپلزئی عرف ملا عبدالغنی برادر تحریک طالبان افغانستان کے سربراہ ملا عمر کے دو نائبین میں سے ایک تھے۔ 1994ء میں تحریک کے قیام سے قبل یہ دونوں ایک ہی مدرسے میں پڑھاتے تھے۔ تحریک طالبان کے بانیوں میں سے ایک ملا برادر کو گزشتہ دسمبر میں امریکہ کے ساتھ مذاکراتی عمل میں شمولیت کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد ملا عمر کی جانب سے تحریک سے الگ کرنے کے بعد ان کی ذمہ داریاں ملا حسن رحمانی کو دے دی تھیں۔

ان گرفتاریوں کے متعلق سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے سامنے آنے والی متضاد اطلاعات نے معاملے کو خاصا پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ابتداء میں دونوں سابقہ گورنرز کی گرفتاری کی اطلاع قندوز صوبے کے موجودہ گورنر محمد عمر نے دی۔ غیر ملکی نیوز ایجنسی کے مطابق محمد عمر نے اپنی انکشاف انگیز گفتگو میں بتایا تھا کہ پاکستانی فورسز کی جانب سے دس تا بارہ روز قبل دونوں رہنماﺅں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ طالبان شوریٰ کے مبینہ رکن اور افغانستان کے 34میں سے33صوبوں میں قائم مجاہدین کی شیڈو حکومت کے دو گورنرز کی گرفتاری کو بڑی پیش رفت کہنے والے قندوز کے گورنر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملا عبدالسلام کو طالبان کے نائب امیر ملا برادر کی پندرہ روز قبل گرفتاری کے بعد ان سے ملنے والی اطلاعات کے نتیجے میں فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ ملا برادر کی گرفتاری دو روز قبل کراچی سے ظاہر کی گئی تھی۔

ابتداء میں اگرچہ اس کاروائی کو پوشیدہ رکھا گیا لیکن اب اس کی باقاعدہ تصدیق کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ تاخیر سے کئے جانے والے اعلان کا سبب گرفتار شدہ کی ملا برادر کے طور پر شناخت کرنا تھا۔ محکمہ تعلقات عامہ کی جانب سے جمعرات کو جاری کئے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ گرفتاری کی جگہ اور دیگر کاروائی کے متعلق مزید تفصیلات خفاظتی اقدام کے پیش نظر ظاہر نہیں کی جا رہیں۔ امریکی و برطانوی اخبارات، سی این این اور بی بی سی جیسے بڑے نشریاتی ادارے سولہ فروری سے مسلسل اس خبر کو ایک بہت بڑی “کامیابی” کے طور پر نشر کر رہے ہیں۔ اس خبر کے ساتھ ان نشریاتی اداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستانی میڈیا نے اسے زیادہ توجہ نہیں دی ہے۔ گویا قومی میڈیا کسی سنگین غلطی کا مرتکب ہوا ہے۔ اس الزام یا مغربی میڈیا کے طعنے پر آگے چل کر بات کرنے کی کوشش کریں گے۔
افغان مسئلہ پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملا برادر کی گرفتاری حقیقتاً اتنی بڑی نہیں تو اس سے کچھ کم درجے کی کامیابی ضرور ہوتی، اگر یہ اب سے چار یا پانچ مہینے پہلے ہوتی مگر اب نہیں ہے۔ شاید اسی لئے ان پاکستانی ذرائع ابلاغ نے اس خبر کو اتنی لفٹ نہیں کرائی جتنا کہ وہ بالعموم نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کی خبروں کو اہمیت دیا کرتے ہیں۔

دوسری جانب گزشتہ چند دنوں میں اتحادی افواج اور نیٹو کی سپلائی لائن کے خطرہ سمجھے جانے والے طالبان کمانڈروں کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ کراچی سے ہی اسامہ بن لادن کے انتہائی قریبی ساتھی قرار دئے جانے والے ابو موسیٰ کی مزید دو افراد سمیت گرفتاری اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر عبداللہ عرف ابو وقاص، مفتی کفایت اللہ اور ابو موسیٰ کو کراچی کے علاقے گلشن اقبال بلاک سترہ اور صفورہ گوٹھ سے حراست میں لیا جانا اس بات کی نشاندہی قرار دیا جا رہا ہے کہ ملا بردار کے بعد ایک پوری لائن کو منظر سے ہٹانا طے کیا جا چکا ہے۔ گرفتار شدگان نے پاکستان میں سینکڑوں خودکش بمباروں کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے دو سو اڑسٹھ خواتین کے بھی ان صفوں میں شامل ہونے کی اطلاعات دی ہیں۔ مؤخر الذکر گرفتاریوں کے متعلق یہ معلوم ہوا ہے کہ ان میں سی آئی ڈی کے خصوصی دستوں نے حصہ لیا ہے جب کہ ملا برادر کی گرفتاری اسلام آباد سے خصوصی ہیلی کاپٹر کے ذریعے کراچی آنے والی اعلیٰ سطحی ٹیم نے کی تھی۔

افغان جنگ پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کے بقول ملا برادر سمیت دیگر دو گورنرز اور القاعدہ سے تعلق کے الزام میں گرفتار کئے جانے والے افراد کی گرفتاریوں کے متعلق اطلاعات ہلمند میں شروع کئے جانے والے بڑے فوجی آپریشن کے موقع پر سامنے لانے کا مقصد وہاں برسرپیکار فوج کا مورال بلند کرنا اور عالمی برادری کے سامنے امریکہ کے ناقابل شکست ہونے کے تاثر کو ختم ہونے سے بچانے کی کوشش ہے۔

واضح رہے کہ ہلمند میں جاری آپریشن میں اب تک افغان ذرائع کے مطابق40سے زائد طالبان کو شہید جب کہ متعدد کو زخمی کر دیا گیا ہے۔ امریکی قصر سفید کے ترجمان رابرٹ گبز نے اس تعداد کی تصدیق کرتے ہوئے وہاں سے طالبان کے فرار کی اطلاع بھی مہیا کی ہے۔

امریکہ کی اس پروپیگنڈہ مہم کو قوت بخشنے کے لئے حسب سابق مغربی میڈیا بھی میدان میں آچکا ہے جس سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ ملا برادر کی گرفتاری یہ بات ظاہر کر رہی ہے کہ عوام کے قتل اور خوفناک بم دھماکوں نے پاکستان کی سوچ تبدیل کر دی ہے۔ پاکستان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ کئے جانے والے تعاون کو سراہتے ہوئے سابق خاتون اول کا کہنا تھا ”پاکستان نے سمجھ لیا ہے کہ انتہا پسند براہ راست ملک کے لئے خطرہ بن چکے ہیں، طالبان دونوں ملکوں کے مشترکہ دشمن ہیں جن سے بچنے کے لئے ملا برادر کی گرفتاری جیسا تعاون آئندہ بھی جاری رہنا چاہئے“۔

امریکی وزیر خارجہ کا بیان ماہرین کی جانب سے ان گرفتاریوں کے ظاہر کئے جانے کو ہلمند آپریشن کی کامیابی سمیت امریکہ کا مخالفین کے خلاف اور اتحادی افواج کے مورال کی بلندی کے لئے روا رکھنے جانے والا اعصابی حربہ قرار دینے کی قولی تصدیق کررہا ہے۔ بلکہ وہ ایک قدم اور آگے بڑھ کر پاکستان میں ہونے والے بم دھماکوں اور عوام کے قتل کو ان گرفتاریوں کے نتیجے تک پہنچنے کا سبب قرار دے رہی ہیں۔ جب کہ دفاعی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پاکستان میں کی جانے والی تمام کاروائیوں میں نہیں تو اکثر میں ضرور غیر ملکی عناصر ملوث ہیں۔ جن کا مقصد ملک میں امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے اور اس کی ذمہ داری طالبان یا دیگر گروپوں پر ڈال کر پاکستانی فوج کو مغربی سرحدوں پر مصروف رکھنے کے ساتھ ساتھ اسلام مخالف پروپیگنڈے کو بنیاد مہیا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں کیا جنابہ وزیر خارجہ یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ اب تک کی تمام کاروائیاں ان عناصر نے کی ہیں جو پاکستان کو امریکی جنگ میں ملوث رکھنا چاہ رہے ہیں۔

جنابہ ہیلری کی جانب سے پڑھے جانے والے مصرعہ طرح کے بعد جواب آں غزل کے طور پر پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ملا برادر کے بعد سابق گورنرز عبدالسلام اور ملا میر محمد کی گرفتاری اس بات کی نشاندہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سنجیدہ ہے۔ یہ آپریشن کسی کے دباﺅ پر نہیں کیا گیا بلکہ مکمل نیک نیتی سے کام کر رہے ہیں۔

لیکن معاملہ ایسا ہے نہیں جو بتایا جا رہا ہے، بلکہ اس کاروائی کے بعد پیدا ہونے والے سوالوں کی سنگینی مستقبل میں خاصا سنگین منظر نامہ بننے کی اطلاعات مہیا کر رہی ہیں۔ ایک ہی وقت میں اتنی”بڑی“گرفتاریں کیسے ہو گئیں؟ کس کے مفادات کہاں متاثر ہوئے ہیں؟ یا کسے تحفظ دینے کی کوشش دی گئی ہے؟ ان کی وضاحت اب زیادہ دنوں کی بات نہیں لگتی۔

ان تمام تر سوالوں کو تقویت فراہم کرنے والی بات گزشتہ روز اس وقت سامنے آئی جب افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک نے کابل میں میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان سے بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں لیکن جب تک وہ القاعدہ سے لاتعلقی اختیار نہیں کر لیتے اس وقت تک براہ راست بات نہیں کی جا سکتی۔ کرزئی حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ جاری مذاکراتی عمل کے متعلق مالدیپ کے صدارتی ترجمان محمد زہیر نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مالدیپ ہی کے ایک جزیرے پر تین دن تک جاری رہنے والے مذاکراتی عمل میں طالبان اور کرزئی حکومت کے نمائندے شامل تھے۔ ان مذاکرات کا ایجنڈا افغانستان میں آٹھ سال سے جاری مزاحمت کا خاتمہ اور امن کی بحالی تھا۔ صدارتی ترجمان کے مطابق ان مذاکرات میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے سفیر بھی موجود تھے۔ دونوں جانب سے کے وفود گیارہ گیارہ ارکان پر مشتمل تھے۔ افغان مزاحمت کاروں کا گیارہ رکنی وفد تین حصوں کی نمائندگی کر رہا تھا۔

حزب اسلامی کا وفد جس میں مالدیپ کے صدارتی ترجمان کے مطابق انجینئر گلبدین حکمت یار کا بیٹا بھی شامل تھا۔ حقانی نیٹ ورک کا وفد، جنوبی مشرقی افغانستان میں مولانا جلال الدین حقانی کی قیادت میں قابض افواج کے خلاف برسر پیکار گروہ ملا برادر کی سربراہی میں طالبان کا وفد جس کے بارے میں غالب امکان یہی ہے کہ اسے ملا عمر کی تائید حاصل نہیں تھی، اس امکان کو ماضی میں سامنے آنے والی اطلاعات سے بھی تقویت ملتی ہے جن کے مطابق قیادت کی حکم عدولی پر ملا عمر نے انہیں الگ کر دیا تھا۔

اس سے پہلے افغانستان میں اقوام متحدہ کے سفیر نے تیس جنوری کو انکشاف کیا تھا کہ ان کے حال ہی میں طالبان کی ” کوئٹہ شوریٰ” کے اہم رکن سے مذاکرات ہوئے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ یہ رابطے کہاں اور کس رکن سے ہوئے ہیں۔ مگر سترہ فروری کو مالدیپ کے صدارتی ترجمان کی جانب سے مذاکرات کی میزبانی کی تصدیق کے بعد یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ یہ مذاکرات کہاں اور کوئٹہ شوریٰ کے کس رکن سے ہوئے تھے۔

گزشتہ ایک ہفتے میں القاعدہ اور طالبان کی مرکزی قیادت میں شامل افراد کی یکے بعد دیگرے ہونے والی گرفتاریاں پاکستان کے لئے امریکی امداد کی بندش کی بحالی کی کوشش ہے یا رچرڈ باﺅچر کے دورہ کے موقع پر انہیں دیا جانے والا گارڈ آف آنر، سیاسی و سماجی حلقے دونوں ہی سوالوں کا جواب اثبات میں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملک کے موجودہ منظر نامے میں تیزی سے تنہا ہوتے ایوان صدر کے مکین کو اپنے حمایتیوں میں فوری طور پر مقتدر قوتوں کی شمولیت درکار تھی جس کے نتیجے میں یہ گرفتاریاں رونما ہوئی ہیں۔ تاہم مؤخر الذکر بات اس لئے زیادہ ذومعنی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت دیگر حساس ادارے گزشتہ ایک ماہ کے عرصے میں کی گئی گرفتاریوں کو ایک ہی وقت میں سامنے کیوں لائے ہیں؟ کیا امیر العساکر کی گزشتہ دنوں امریکہ کے متعلق کی جانے والی گفتگو اس کا سبب بنی ہے جس میں انہوں نے پاکستانی فوج کی قربانیوں کے باوجود امریکی شکوک و شبہات پرغم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان کا نقصان امریکہ سے کہیں زیادہ ہے۔

بلاگز پر لکھنے والے متعدد رائٹرز نے اس معاملے پر خامہ فرسائی کی ہے ایسے ہی ایک لکھاری کا کہنا ہے کہ ملا عبد الغنی کی گرفتاری طالبان کے سابق آپریشنل کمانڈر ملا داد اللہ کی ڈرون حملے میں ہلاکت سے کافی مماثلت رکھتی ہے۔ ملا داد اللہ کو دو ہزار سات میں قندھار میں امریکی ڈرون حملے میں اس وقت ہلاک ہوئے تھے جب انہیں امیر المومنین ملا محمد عمر کی حکم عدولی کرنے پر ان کے منصب سے معزول کر کے عسکری کاروائیوں سے علیحدہ کر دیا گیا تھا۔ اس بارے میں ایک خیال یہ ہے کہ ملا عمر کی تائید سے محروم ہونے کے بعد ملا داد اللہ کی قندھار کے قریب موجودگی کی اطلاع آئی ایس آئی نے سی آئی اے کو فراہم کی تھیں جس پر کاروائی کرتے ہوئے انہیں ڈرون حملے میں ہلاک کیا گیا۔

یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہےکہ طالبان کے امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد نے اجازت کے بغیر افغان حکومت سے مذاکرات کرنے پر ملا عبد الغنی برادر کو دسمبر میں ان کے منصب سے علیحدہ کر دیا تھا۔ جس پر وہ ملا عمرسے ناراض ہو کر دسمبر میں ہی پاکستان آ گئے تھے۔ اور اس کے بعد سے ملا عمر نے تمام ذمہ داریاں طالبان دور حکومت میں قندھار کے گورنر ملا حسن رحمانی کو دے دی تھیں۔ اور ان دنوں ملا عمر کے بعد طالبان کے سے بڑے رہنماء وہی ہیں نہ کہ ملا برادر۔ اس لئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ملا برادر کی گرفتاری ہوئی نہیں بلکہ کروائی گئی ہے اور اس کروانے کا سبب اب ان کا چلا ہوا کارتوس بن جانا ہے۔ تاہم اس تاویل پر بھی بحث کی جا سکتی ہے کہ کوئی خفیہ ایجنسی کسی بھی دور میں اپنے ایجنٹ کی حیثیت رکھنے والے فرد کو کیوں اپنی مخالف ایجنسی کے ہاتھ میں دے گی۔ دنیائے جاسوسی میں اس سے قبل ایسی کوئی ٹھوس مثال نہیں ملتی جس کی بنیاد پر اس رائے کو حتمی مانا جا سکے۔

گرفتاریوں کے اس غیر متوقع سلسلے کی ایک توجیح دو نومبر دو ہزار دس کو امریکہ کے مڈ ٹرم الیکشن بھی ہو سکتے ہیں جن میں کامیابی کے لئے ڈیموکریٹس کو بہت ساری”بڑی کامیابیوں” کی ضرورت ہے۔ جن میں اوباما انتظامیہ کی نئی افغان پالیسی کی کامیابی بھی شامل ہے۔ اسی لئے تیرہ فروری کو افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند کے ضلع مرجاہ میں شروع ہونے والے آپریشن مشترک کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ جسے گیارہ ستمبر کے بعد امریکی فوج کا سب بڑا آپریشن، طالبان کے زیر انتظام سب سے بڑی آبادی پر قابو پانے کی جنگ اور کبھی اوباما کی نئی” سرچ پالیسی” کا ٹیسٹ قرار دیا جارہا ہے۔ حالانکہ جس قسم کی مہم پر پندرہ ہزار امریکی، برطانوی اور افغان فوجی مرجاہ کی جانب روانہ ہوئے ہیں، طالبان اس قسم کی جنگ لڑ ہی نہیں رہے ہیں۔ وہ تو پورے افغانستان میں گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں، وہ حملہ کرتے ہیں بھاگتے ہیں، نشانہ بناتے ہیں غائب ہو جاتے ہیں، ان سے یہ توقع رکھنا ہی فضول ہے کہ وہ مرجاہ پر کنٹرول قائم رکھنے کے لئے اتحادی فوج کے خلاف صف بستہ ہو کر لڑیں گے۔ اور”شدید مزاحمت” ہوگی۔ طالبان آپریشن سے کئی دن پہلے ہی مرجاہ سے نکل گئے تھے۔ اس لئے خیال یہی ہے کہ چند دن کے بعد اتحادی فوج”شدید مزاحمت” کو”کچلتے”ہوئے۔ پچاسی ہزار کی آبادی پر کنٹرول قائم کر لے گی۔ جسے اوباما کی سرچ پالیسی کی پہلی آزمائش کی “بڑی کامیابی” قرار دے دیا جائے گا۔

افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل نے گزشتہ روز امریکی صدر کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے دی جانے والی بریفنگ میں بھی یہی بتایا تھا کہ ہلمند آپریشن میں مقامی انتطامیہ کی بھرپور معاونت کی وجہ سے کاروائی عمدہ طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے جس نے طالبان کو بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ امریکی اور اتحادی آپریشن عام افراد کو خوفزدہ کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اگرچہ گورنر ہلمند گلاب منگل نے اس تاثر کی نفی کی ہے لیکن چھ اتحادیوں کی ہلاکت کے مقابلے میں چالیس افغانوں کے لاشے کوئی اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔ اگرچہ انہیں عسکریت پسند قرار دیا گیا ہے لیکن آزاد زرائع نے ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے نہ ہی طالبان یا حزب اسلامی نے اسے اپنا نقصان قرار دیا ہے۔ اس تناظر میں آخری دلیل مزید وزنی لگتی ہے۔ اصل کیا ہے، ہم بھی دیکھتے ہیں، آپ بھی دیکھیں، مگر جاننے کی کوشش شرط ہے۔
Shahid Abbasi
About the Author: Shahid Abbasi Read More Articles by Shahid Abbasi: 31 Articles with 30751 views I am a journalist , working in urdu news paper as a Health, cuurent affair, political and other related isssues' reporter. I have my own blog on wordp.. View More