جنگ یمن کے حوالے سے یہ بات بھی
شدت سے دوہرائی جاتی ہے کہ یمن میں حوثی قبائل کی پیش رفت سعودی عرب کی
جانب نہیں ہوگی لہذا سعودی حکومت سمیت کسی بھی مسلم ملک یا مغربی ملک کو اس
بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ماضی میں یمن کی جانب سے مکہ کی
حرمت کی پامالی کوئی نئی بات نہیں رہی ہے۔یہ تلخ تاریخی حقیقت ہے کہ ماضی
میں یمن سے تعلق رکھنے والے ابرہہ ، قرامطہ اور امام مہدی کے دعویداروں نے
مکہ کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی تھی۔ابرہہ نے تمام معاشی و اقتصادی
فوائد کے حصول کیلئے " القلیس"نامی ایک کلیسا تعمیر کیاتھا اور شاہ حبش کو
خط لکھا کہ "عربوں کا رخ حج کعبہ سے اس کلیسا کی طرف موڑے بغیر نہیں رہوں
گا۔"ابرہہ کی اس جسارت سے قبل بھی حسان بن عبدکلال نے خانہ کعبہ جو کہ دنیا
بھر کا معاشی تجارت کا ایک اہم استعارہ تھا اس کے فوائد حاصل کرنے کیلئے
سازشیں کیں تھی اور مکہ آنے والے قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے ، حضور نبی
اکرم ﷺ کے جد امجد نفر بن مالک نے مکہ کے قبائل کے اسد ، کنانہ ، جذام ،
ضزیمہ اور مضر کے ساتھ ملکرحسان بن عبدالکلال حمیری کے لشکر پر حملہ کرکے
شکست دی اور انھیں گرفتار کیا تین سال بعد فدیہ دیکر رہا ہوا اور یمن واپس
جاتے ہوئے راستے میں مر گیا۔قرامطہ کا ذکر کیا جا چکا ہے کہ ان کا تعلق بھی
یمن سے تھا اور حجر اسود کو بیس سال تک یمن میں رکھا ۔اگر کسی کی یادداشت
متاثر ہوئی ہے تو ان کے لئے عرض ہے کہ حال 1979ہی میں یمن سے تعلق رکھنے
والے مسلح افراد نے نجد کے بعض لوگوں سے ملکر خانہ کعبہ پر قبضہ کیا ۔ ان
کے سربراہ بیمان بن محمد بن سیف بن سیف العتوبی کا مطالبہ تھا کہ مسلمان ان
کے لیڈر محمد بن عبداﷲ القہتائی کی پیروی کریں جو مہدی ہے(نعوذ باﷲ) ،.اس
فتنے کو ختم کیا گیا تو1987ء میں خانہ کعبہ پر باقاعدہ قبضہ کرلیا گیا ۔ اس
فتنے کو بھی فرد کیا گیا گرفتار ہونے والے مسلح افراد کے سربراہ محمد حسن
علی محمدی نے اعتراف کیا کہ اسے خانہ کعبہ پر قبضہ کرنے اور دہماکہ خیز آتش
گیر مادہ سے تباہی کا مشن سونپا گیا تھا۔ یمنیوں کی جانب سے حرص و ہوس کی
بنیادپر خانہ کعبہ پر قبضوں کا سلسلہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ۔ہم اگر تھوڑا
اور پیچھے جائیں تو 575ء میں کسریٰ نوشروان نے سنگین جرائم میں قید
800افراد کو وہرز کی سربراہی میں یمن پر قبضے کیلئے بھیجا اور اس وقت ابرہہ
کا بیٹا مسروق ان کے مقابلے میں شکست کھا گیاتو نوشروان نے یمن کو فارس کا
صوبہ بنا دیا۔تب سے یمن کے کچھ قبائل ایران کے زیر اثر ہیں اور حوثی قبائل
کی پشت پناہی کے ٹھوس الزامات کے سبب ایران حوثی اور زیدی قبائل کی مدد سے
یمن میں اپنا اثر رسوخ پختہ کرنا چاہتا ہے کیونکہ یمن کی بندرگاہ عدن اور
ایران کی بندرگاہ چاہ بہار مشترکہ تجارتی راہدری بن کر مشرق و مغرب میں
تجارتی اجارہ داری قائم کرسکتے ہیں۔حوثیوں کی جانب سے یمن میں پہلی بار
بغاوت نہیں کی جا رہی بلکہ ان کی تاریخ بغاوتوں سے بھری پڑی ہے۔یمن میں
باغیوں کے قبضے کے بعد کچھ طاقتوں کا اثر رسوخ خطے میں طاقت کو توازن بگاڑ
سکتا ہے اورخاص کر پاکستانی بندرگاہ گوادر کے پوری طرح فنکشنل ہونے کی بنا
پر بندرگاہ’ چار بہار‘ نامی بارگاہ پر پر گہرا اثر پڑنے کا احتمال ہے۔بعض
حلقے اس بات پر بضد ہیں کہ حوثی قبائل اور یمن حکومت کی درمیان خانہ جنگی
کا رخ مکہ کی جانب نہیں موڑسکتا ، لیکن تاریخ کے تلخ صفحات سچائی کا کھرا
رخ دکھاتے ہیں کہ یہ محدود جنگ نہیں ہوگی ۔ خاص طور پر جب عسکریت تنظیم حزب
اﷲ نے میڈیا میں انٹرویو دیتے ہوئے کھلے عام یہ دہمکی دی ہو کہ "ہم نے ایک
لشکر تیار کرلیا ہے ہم عنقریب حرم شریف میں نماز ادا کریں گے۔جب حزب اﷲ کے
رہنما سے پوچھا گیا کہ کیا اس سے مراد یہ ہے کہ آپ لوگ حرمین شریفین پر
حملہ کریں گے ؟ تو جواب دیا گیا کہ "ہم سعودیہ کے ملحد و بے دین اور
کافرانہ نظام کو تہس نہس کریں گے اوران کو بھی ختم کریں گے جو فوجی طاقت
پیدا کر رہے ہیں۔حزب اﷲ کا کہنا تھا کہ" امام مہدی قریب الظہور ہیں اور
عنقریب آئیں گے ہم ان کی معیت میں سعودیہ کا رخ کریں گے اور سعودیہ کو آزاد
کرائیں گے"۔لبنان میں 1980ء میں بنائی جانے والی اس تنظیم کا مقصد اسرائیلی
فوجی دستوں کا انخلا تھا ، شروع میں ان کے مقاصد میں خاص مسلک کی طرز کی
اسلامی ریاست بنائے جانا بھی شامل تھا لیکن ایسے کچھ وقت کیلئے موخر کردیا
گیا ۔ ایران مکمل طور پر اسرائیل کے خلاف طویل عرصے سے مالی اور عسکری مدد
فراہم کرتا رہا ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسرائیل کے خلاف اس تنظیم نے
عوام کے دلوں میں جگہ بنائی اور مقبولیت حاصل کی لیکن یمن کے معاملے پر
لبنانی حکومت کی موقف کے برخلاف حزب اﷲ کا جارحانہ انداز دوسرے مسالک کیلئے
پریشان کن ثابت ہو رہا ہے۔یہاں حرمین شریفین کے خلاف دیگر سازشوں کا ذکر
بھی کرتا چلوں کہ یہودی لابی نے حرمین شریفین کے گرد اپنے 31اڈے قائم کرلئے
ہیں۔اسرائیلی بحریہ کے سربراہ نے کہا تھا کہ" ہم ایسے منصوبے پر کام کر رہے
ہیں جس کے نتیجہ میں بحر احمر ہمارے ہاتھوں میں ہوگا ،پھر یہ بحر یہودی یا
بحر اسرائیل کہلائے گا۔"ایک یہودی سازش منظر عام پر آچکی ہے کہ سعودی عرب
کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ، ایک حصہ منطقہ شرقیہ جس میں دمام ،حفوف
اور خیب کے اہم شہر شامل ہیں ، دوسرا حصہ ریاض اور جدہ سمیت حجاز کے دیگر
علاقوں پر مشتمل ہو ،مکہ اور مدینہ کو ملا کر ایک خود مختاری’ ہولی سٹیٹ‘
بنائی جائے جس کا کل رقبہ 500 کلو میٹر تجویز کیا گیا باقی جو علاقے بچے اس
پر الگ ریاست قائم کی جائے بظاہر ایسا ہی نظر آتا ہے کہ یمنی جنگ کی پشت پر
یہی سازش کارفرما ہے اور مسلمانوں کے فرقوں کے اختلاف کا فائدہ اٹھا کر
اسرائیل اپنے مذموم ارادوں کو کامیاب بنانے کی سعی مسلسل کر رہا ہے۔یہ ساز
ش 30فروری 2002کوسنڈے ٹائمز اسلام آباد آشکارہ کرچکا ہے اور اپنی خبر کے
ساتھ بیت اﷲ کے 6فوٹو بھی شائع کئے ، یہ سب کچھ یہودیوں کی ایک ویب سائٹ سے
حاصل کیا گیا ، جن میں تصاویر کے ذریعے دکھایا گیا کہ بیت اﷲ اور مکہ مکرمہ
حاجیوں سمیت جل رہا ہے ، سازش کا انکشاف ہوتے ہی ویب سائٹ www.inin.net/
fromthejews.jpg کو بند کردیا گیا۔اس ویب سائٹ کو امریکن یہودی صحافی رچ
لوری نے بنایا تھا۔امریکی صدارتی امیدوارٹام ٹینکریڈو بھی دہمکی دے چکا تھا
کہ "امریکہ کی حفاظت مکہ و مدینہ پر حملہ سے ہے"۔
ہمارے کچھ احباب یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی غیر جانب داری ہی اس مسئلے کا
حل ہے اور اس جنگ کو یمن کی جنگ نہیں بلکہ ان کا داخلی معاملہ سمجھتے
ہیں۔کچھ ایسے امریکہ کی جانب سے اسلحہ کی فروخت کا ایجنڈا قرار دیتا ہے تو
کوئی پڑوسی ملک کی جانب سے ایک اور محاذ پر مسلکی جنگ شروع کرنے کی دہمکی
کا اثر قرار دیتا ہے ، کوئی تقاضا کرتا ہے کہ کیا کشمیر کی آزادی کیلئے
سعودی فوج آئے گی ؟ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ہیں۔پاکستان ایک عالمی عسکری
قوت ہے اور مسلم ممالک میں ایسے ایک قائدانہ حیثیت حاصل ہے ، دنیا کی
بہترین عسکری فوج کی صلاحیتوں سے کسی کو انکار نہیں ہے ، پاکستان کے قیام
مقصد کسی لسانی اکائیوں کو بڑی لسانی اکائی بنانا نہیں تھا بلکہ دو قومی
نظریئے کے تحت دنیا کی پہلی ریاست وجود میں لائی گئی تھی ۔ سازش کے تحت
پاکستان کے دو قومی نظریئے کو وطینت ، پھر لسانیت اب گروہی اور مسلک کی
جانب موڑا جا رہا ہے۔ پاکستان کے پاس بھارت کے مقابلے میں ایٹمی طاقت کا
ذخیرہ زیادہ ہے ، اگر پاکستان کی عسکری طاقت کا مطلب صرف بھارت سے دفاع ہے
تو ان کے لئے تو ایک ایٹم بم ہی کافی ہے 113ایٹم بموں کی کیا عوامی نمائش
لگانا مقصود ہے۔بھارت تو ایک ہی جھٹکے میں اپنی نانی کو یاد کرسکتا ہے تو
یقینی امر ہے کہ کھربوں ڈالرز کی دنیا کی بہترین عسکری قوت صرف چار لسانی
اکائیوں کیلئے نہیں بنی ہے بلکہ پاکستان کو مسلم امہ کی قیادت کرنا ہوگی
اور آگے بڑھ کر مسلم امہ کا خود کو لیڈر اور نجات دہندہ ثابت کرنا
ہوگا۔پاکستان کو اندرونی خلفشار میں مبتلا کرنے کی عالمی مغربی سازش بھی
یہی ہے کہ پاکستان اپنے داخلی معاملات میں اس قدر الجھ جائے کہ پاکستان
مسلم دنیا کی سربراہی کے قابل نہ رہے۔ حضرت محمد ﷺ کے دادا عبدالمطلب کے
تاریخی الفاظ یاد کرانا مقصود ہے کہ "بیت اﷲ خدا کا ہے"۔ یعنی یہ سعودیہ یا
پاکستان کی ہی ذمے داری نہیں بلکہ اﷲ کے گھر کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں
کو ناکام بنانا ہم سب کا فرض ہے۔یمن کے حالات کو افغانستان سے جوڑنا غیر
منطقی اور زمینی حقایق سے برخلاف ہے۔"بیت اﷲ خدا کا ہے" اور اﷲ کے گھروں کے
حفاظت ہر مسلم مومن مرد و عورت پر فرض ہے۔ |