حضر ت مولانا محمد یوسف
کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابو
الدرداء فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اﷲ تعالی بعض قوموں کا
حشر اس طرح فرمائیں گے کہ ان کے چہروں پر نور چمکتا ہو گا، وہ موتیوں کے
منبروں پر ہوں گے، لوگ ان پر رشک کرتے ہوں گے وہ انبیاء اور شہداء نہیں ہوں
گے۔ ایک دیہاتی نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض کیا یا رسول اﷲؐ! ان کا حال
بیان کر دیجئے تاکہ ہم انہیں پہچان لیں۔ حضورﷺ نے فرمایا یہ مختلف جگہوں کے
اور مختلف خاندانوں کے وہ لوگ ہوں گے جو اﷲ کی وجہ سے آپس میں محبت کریں
اور ایک جگہ جمع ہو کر اﷲ کے ذکر میں مشغول ہوں۔
قارئین! آج کا کالم مختلف موضوعات کا ایک ’’ٹرائفل‘‘ کہہ لیجیے یا اسے ایک
کھچڑی کا نام دے لیجئے ۔ جو بھی ہے جیسا بھی ہے پیش خدمت ہے۔ آرمی پبلک
سکول پشاور کے سانحے کے بعد ہم نے دیکھا کہ ملک کی داخلہ پالیسی میں یوٹرن
نوعیت کی تبدیلیاں شروع ہو گئیں۔ سونامی والی سرکار نے ’’میں نہ مانوں‘‘
والی پالیسی چھوڑ کر 24گھنٹوں کے اندر اپنا 126دن سے جاری ’’ ڈی جے بٹ‘‘
سٹائل کا دھرنا ختم کرد یا، دائیں اور بائیں بازو والی تمام جماعتیں ایک
پلیٹ فارم پر اکھٹی ہو گئیں اور ’’شیر اور بکری‘‘ ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے
ہوئے دکھائی دئیے ۔جنرل ضیاء الحق مرحوم جنھیں ان کے سیاسی مخالفین طنزیہ
طور پر ’’امیر المومنین‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں ان کے دور حکومت میں سعودی
دولت ، امریکی ہتھیاروں اور دنیا بھر کے ــ’’ مجاہدین‘‘ کی مدد سے پاکستان
نے روس جیسی بڑی سپر پاور کو شکست سے دوچار کیا تھا اور اسی دور میں
’’سڑیٹیجک ڈپتھ‘‘(Strategic Depth) نامی ایک عجیب وغریب قسم کی اصطلاح
متعارف کروائی گئی تھی جس کا بظاہر مطمع نظر یہ تھا کہ پاکستان جیسی عظیم
اسلامی مملکت کا مفاد اس بات میں ہے کہ پاکستان کے چاروں طرف موجود مختلف
ہمسایوں کے مثبت اور منفی پوائنٹ اکھٹے کرتے ہوئے پاکستان کے مفاد کے مطابق
ایک جارحانہ پالیسی تشکیل دی جائے اور پاکستان کے مفاد کو حاصل کرنے کے لیے
کوئی بھی قربانی دینے سے دریغ نہ کیا جائے۔ ہم نے اسی دور حکومت میں یہ بھی
دیکھا کہ کابل میں حکومت بننے کے فیصلے اسلام آباد میں تیار کیے جاتے کس
گروپ کو کتنی سپورٹ دینی ہے کس گروپ کو کتنا اسلحہ فراہم کرنا ہے اور کس
گروپ کو انکل سام اور سعودی عرب کی ’’برکتوں‘‘ سے کتنا فیض یاب کرنا ہے اور
کتنا محروم رکھنا ہے یہ تمام فیصلے اسلام آباد میں کیے جاتے تھے۔ روس کے
افغانستان سے چلے جانے کے بعد امریکہ نے میدان کو صاف کرنے کی بجائے اسی
طرح چھوڑ دیا اور پاکستان کو ایک دلدل میں دھکیل دیا پاکستانی قومی سلامتی
کے اداروں نے اس انتہائی مشکل وقت میں بہت محنت کی جس کے نتیجے میں متحارب
گروپوں سے تنگ آئے ہوئے افغانستان کے بطن سے ایک نئی طاقت نے جنم لیا جسے
ـ’’طالبان‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس گروپ نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے افغانستان
پر کنٹرول حاصل کرلیا اور ’’امیرالمومنین ملا محمد عمر‘‘ کی سربراہی میں
ایک نیا اسلامی افغانستان دنیا کے نقشے پر ابھر آیا جسے پاکستان کے اداروں
نے تخلیق کیا تھا اور سب سے پہلے تسلیم کرنے والا ملک بھی پاکستان ہی تھا۔
یہاں ہم اپنے پڑھنے والوں کی توجہ تھوڑا سا ماضی کی طرف لیے چلتے ہیں ۔پیپلز
پارٹی کے بانی سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے ’’اسلامی بلاک‘‘ بنانے کا جو
جرم کیا تھا اس کی سزا اس بلاک کے تمام ارکان نے بھگتی ہے اور ذوالفقار علی
بھٹو نے بھی بین الاقوامی اور نیشنل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک موقع پر
یہ کھلا انکشاف کیا تھا کہ ’’سفید ہاتھی میرے پیچھے ہے‘‘ اور وہی ہوا سفید
ہاتھی نے پاکستان کے سب سے بڑے سٹیٹس مین ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر
پہنچا دیا۔ افغان وار کے بعد جب جنرل ضیاء الحق نے پاکستانی مفاد ات کے
حوالے سے انکل سام کی ڈکٹیشن ماننے سے انکار کیا تو 17اگست 1988کو سانحہ
بہاولپور کے نتیجے میں پاکستان کی عسکری تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ پیش آگیا
اور جنرل ضیاء الحق سمیت درجنوں مخلص پاکستانی اعلی دماغ شہید ہو گئے۔اس کے
بعد جمہوریت کے نام پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے چار
’’ناتمام ادوار حکومت‘‘ انتہائی معنی خیز ہیں ۔قریب سے مطالعہ کریں تو
امریکہ بہادر کی حد سے بڑھی ہوئی مداخلت ان تمام ادوار حکومت میں دکھائی
دیتی ہے ۔ جنرل مشرف جنھیں یار لوگ ’’ طبلے والی سرکار‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں
انھوں نے 12اکتوبر1999کو ’’قوم کے وسیع تر مفاد میں‘‘ جب میاں محمد نواز
شریف کو جیل میں ڈالنے کے بعد جب ملک کا اقتدار سنبھالا تو امریکہ بہادر نے
بھی ’’دنیا کے امن کے وسیع تر مفاد میں‘‘ اس حکومت کو نا صرف قبول کیا بلکہ
ہر طرح کی سپورٹ بھی کی ۔ نائن الیون کے بعد اچانک امریکی ترجیحات تبدیل
ہوئیں اور پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں بھی تبدیل ہو گئیں اور
دیکھنے میں آیا کہ وہی طالبان جو پاکستان کی ’’سڑیٹیجک ڈپتھ ‘‘ کی سب سے
بڑی فصل تھیں اس کی کٹائی شروع کر دی گئی ۔یہ علیحدہ بات کہ امریکی فورسز
باوجود کوششوں کے آج تک اس فصل کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ امریکی
تھنک ٹینک نے 2014میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلا کا روڈ
میپ تیار کیا اور اس کے بعد جو کچھ پاکستان میں ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
پاکستانی افواج کو امریکی دباؤ کے تحت قبائلی علاقوں میں ایک جنگ میں اتارا
گیا جس کا نتیجہ آرمی پبلک سکول پشاور کی صورت میں سامنے آیا اوراس کے بعد
افواج پاکستان کے بہادر سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے دہشت گردوں کے تمام
ٹھکانوں اور سپورٹرز کو بھی ختم کرنے کا الٹی میٹم دے دیا آپریشن ضرب عضب
جاری ہے اور ہمارے بہادر جوان مختلف دشمن ممالک کے ایجنٹس کا خاتمہ کر رہے
ہیں اسی حوالے سے ایک نیشنل ایکشن پلان بھی مرتب کیا گیا جس کے مطابق پورے
پاکستان میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر بھی سکروٹنی کا عمل شروع ہوا کہ
پاکستان اور آزادکشمیر بھر میں افغان باشندے کتنی تعداد میں آباد
ہیں۔آزادکشمیر کے تینوں ڈویژنز راولاکوٹ، مظفرآباد اور میرپور میں بھی
آپریشن شروع ہو چکا ہے اور نیشنل ایکشن پلان اپنے منطقی نتائج کی جانب بڑھ
رہا ہے۔
قارئین ہم نے اسی حوالے سے میرپور ڈویژن کے کمشنر راجہ امجد پرویز علی خان
سے مختلف معاملات اور مسائل پر گفتگو کی۔ راقم سے گفتگو کرتے ہوئے کمشنر
میرپور ڈویژن راجہ امجد پرویز علی خان نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کی روشنی
میں میرپور ڈویژن اور آزادکشمیر بھر میں انتظامیہ اور سیکیورٹی کے اداروں
کی بھرپور مشاورت کے بعد کوڈآف کنڈکٹ مرتب کیا گیا ہے۔ شہریوں کو چاہیے کہ
وہ انتظامیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کریں تاکہ امن وامان کی صورتحال بہتر
بنانے میں مدد مل سکے۔ چیئرمین واپڈا نے میرپور کے تناظر میں منگلا ڈیم میں
باقی رہ جانے والے نقائص دور کروانے کی یقین دہانی کروا دی ہے اور تسلیم
کیا ہے کہ منگلا ڈیم میں خالق آباد کے مقام پر سڑک کے ٹوٹنے کی وجہ ڈیزائن
انجینئرز کی غلطی ہے شروع شروع میں واپڈا نے ہماری رپورٹ تسلیم کرنے کی
بجائے الزامات در الزامات عائد کرنا شروع کر دیے تھے۔ بدقسمتی سے ہمیں بھی
یہ حکم جاری کرنا پڑا کہ منگلا ڈیم میں پانی کی سطح 1202سے زائد کرنے پر
دفعہ 144کے تحت پابندی عائد کی جاتی ہے کیوں کہ اگر خالق آباد کے مقام سے
کمزور ہونے والے ڈیم کے حصے کو مزید کوئی نقصان پہنچتا تو پورا پاکستان بہت
بڑے نقصان سے دوچار ہو سکتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ چیئرمین واپڈا نے ہنگامی
بنیادوں پر خالق آباد کے مقام پر ڈائیک کی تعمیر کی منظوری دیتے ہوئے فوراً
کام شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ہم نے چیئرمین واپڈا کی خصوصی درخواست پر
سیکیورٹی مہیا کرنے کے بھی تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔ ان خیالات کا
اظہار انھوں نے آزادکشمیر کے پہلے ٹی وی چینل جے کے نیوز میں سینئر صحافی
جنید انصاری کو براہ راست انٹرویو دیتے ہوئے کیا ۔ کمشنر راجہ امجد پرویز
علی خان نے کہا کہ واپڈا نے ریزنگ کے بعد ڈیم کے مختلف حصوں میں جو زمین
باقی رہ گئی تھی وہ آزادکشمیر حکومت اور میرپور ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے اتفاق
رائے ہونے کے بعد واپس کر دی تھی یہی وجہ ہے کہ خالق آباد کے مقام پر ایم
ڈی اے نے 280کے قریب پلاٹ باقاعدہ منصوبہ بندی کے بعد الاٹ کیے اب اگر ان
پلاٹوں کی وجہ سے ڈیم کو کوئی خطر ہ ہے تو واپڈا اور ایم ڈی اے ذمہ دار ہیں
کہ شہریوں کے لیے گئے پیسے واپس کریں۔ ہم عوام کے حقوق کے کسٹوڈین ہیں اور
ہر صورت میں شہریوں کے مفاد کا خیال رکھا جائے گا۔ راجہ امجد پرویز علی خان
نے کہا کہ میرپور میں بوجوہ امیگریشن اور کنسلٹنسی کا کام عروج پر ہے اور
مجھ سمیت تمام انتظامی افسروں کا فرض بنتا ہے کہ شہریوں کے مفادات کا خیال
رکھتے ہوئے ہر طرح کے دو نمبر دھندے پر نظر رکھی جائے۔ امیگریشن کے کام میں
کسی قسم کے فراڈ کو برداشت نہیں کریں گے۔ کیوں کہ اس سے پاکستانی پاسپورٹ
اور پاکستانی قوم کی توہین ہوتی ہے۔
قارئین کمشنر میرپور ڈویژن راجہ امجد پرویز علی خان کی گفتگو ہم نے آپ کے
سامنے رکھی ہے۔ اس سے نتائج آپ خود اخذ کر لیجئے کہ ریاست کیا چاہتی ہے،
شہریوں کے حقوق کیا ہیں، اُن کے فرائض میں کیا کیا آتا ہے اور کس طریقے سے
ہم قیام امن میں اپنا اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
قارئین آخری بات ہم وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والی دو
روزہ’’برانڈ پاکستان کانفرنس‘‘ کے حوالے سے کرتے چلیں۔ EOSکنسلٹنٹس اور
چینل 7میڈیا گروپ کے اشتراک سے جناح کنونشن سنٹر اسلام آباد میں ہونے والی
اس دو روزہ ہائی پروفائل کانفرنس میں ہم نے ریڈیو آزادکشمیر کے سربراہ
سٹیشن ڈائریکٹر ایف ایم 93میرپور چوہدری محمد شکیل کے ہمراہ شرکت کی۔ خرم
ادریس اور سلمان شہزاد کی ٹیم نے اس کانفرنس میں بڑی بڑی شخصیات کو اکٹھا
کیا جن میں وفاقی وزیر احسن اقبال، پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد
عمر، وزیر حکومت آزادکشمیر محترمہ فرزانہ یعقوب، سابق چیئرمین ایف بی آر
عبداﷲ یوسف، رستگار گروپ آف انڈسٹریز کے مالک امتیاز رستگار، جنگ جیو میڈیا
گروپ کے مینیجنگ ڈائریکٹر سرمد علی سمیت سینکڑوں بڑے نام شامل تھے۔ اس تمام
کانفرنس میں یہ غور وخوض ہوتا رہا کہ کس طریقے سے پاکستانی پاسپورٹ اور میڈ
ان پاکستان کو پوری دنیا میں عزت دلوائی جا سکتی ہے اس کا تفصیلی احوال ہم
اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں اگلے کالم میں پیش کریں گے اور یہ بھی بتائیں
گے کہ برانڈ پاکستان کانفرنس میں شریک ہونے والے بڑے بڑے لوگوں کے کشمیر کے
متعلق کیا خیالات تھے۔ آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے۔
ایک خاتون نے اپنی پڑوسن سے پڑھنے کیلئے کتاب مانگی تو ہمسائی نے جواب دیا
’’میں اپنی کتاب کسی کو نہیں دیتی جس کو پڑھنا ہے وہ یہیں آ کے پڑھ لے‘‘
کچھ دنوں بعد اس ہمسائی نے پہلی ہمسائی سے جھاڑو مانگا تو خاتون نے سنجیدگی
سے جواب دیا
’’میں اپنی جھاڑو کسی کو نہیں دیتی جس کو دینی ہو یہیں آ کر دے جائے‘‘
قارئین امریکہ بہادر کی بھی یہی پالیسی ہے کہ وہ گندگی تو اپنی مرضی سے
دوسروں کی سرزمین پر جا کر پھیلاتے ہیں لیکن جھاڑو دینے کے وقت جھاڑو دینے
سے انکار کر دیتے ہیں۔ اﷲ ہمیں عقل سلیم سے نوازے ۔ آمین۔ |