پاکستان کی 67سالہ تاریخ اس بات
کی گواہ ہے کہ پاکستان کے دنیا میں اگر کوئی قابل اعتماد ترین دوست رہے ہیں
جو ہر مشکل اور آزمائش میں اس کے کام آئے تووہ سعودی عرب اور چین تھے
اورہیں۔کسی بھی دوستی کوپرکھنے کے لیے اس کے ساتھ ماضی کاگزراہوا وقت
اورباہمی معاملات کاتجربہ ہی سب سے بڑی کسوٹی ہوتی ہے۔ حضرت عمرtکے پاس آکر
کسی نے ایک شخص کی بابت کوئی شہادت دینے کی کوشش کی توآپtنے اس سے پوچھا کہ
کیاوہ تمہارا ہمسایہ رہاہے‘اس کے ساتھ کوئی سفرکیاہے یا اس کے ساتھ کوئی
کاروباری لین دین وغیرہ کیاہے؟اس نے سب کاجواب نفی میں دیاتوآپt نے کہاکہ
پھر تم اس کے بارے کیسے شہادت دے سکتے ہو۔
یعنی حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ معیارقائم کردیاکہ کسی کو
پرکھناہوتوان حوالوں سے پرکھو۔یہ اﷲ کاشکرہے کہ ہمارے یہ دوعظیم دوست
پاکستان کے ساتھ ہر حوالے سے صاف وشفاف کردار کے حامل ہیں۔ چین اگرچہ ایک
غیرمسلم ملک ہے،اس کانظام حکومت بھی ہم سے مختلف ہے لیکن دوملکوں کے تعلقات
میں ایک دوسرے کے نظام انتخاب یاایک دوسرے کے ملکی دستور وآئین کو کم ہی
دیکھا جاتاہے۔ دونوں کااصل تعلق ایک دوسرے کے باہمی دوستانہ وتجارتی تعلقات
اورمفادات کو دیکھاجاتاہے۔
چین سے اگرچہ نظریاتی طورپر ہمارے اختلافات ہیں لیکن ملکی مفادات کے لحاظ
سے پاکستان اورچین کی دوستی ہمیشہ دوملکوں کی دوستی کے تمام تقاضوں پر پوری
اتری ہے۔ ملکی مفادات کے حوالے سے دیکھاجائے تو چین کئی معاملات میں ہمارے
مفاد کاہم سے بھی زیادہ داعی اور محافظ ہے۔ صرف مسئلہ کشمیر کی ہی مثال لے
لیں۔ چین نے بھارت کے ساتھ 1962ء کی جنگ میں پاکستان کومقبوضہ کشمیر میں
فوجیں اتارنے کاکھلااشارہ کیا۔یہ بھارت جیسے ضدی اور ہٹ دھرم ملک کو گھیرنے
اوراس طرح مسئلہ کشمیر حل کرنے کاسنہری موقعہ تھا لیکن افسوس کہ یہ سنہری
موقعہ ہماری اس وقت کی حکمران قیادت نے ضائع کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ
پاکستان مسئلہ کشمیر توآج تک حل نہ کرسکا‘الٹایہ ملک بالآخر ہماری نااہلیوں
کے سبب دولخت ہوگیا۔ اسی طرح چین نے آج سے چند سال پہلے کشمیریوں کے لیے
بھارتی ویزاماننے سے انکارکردیااوراس کی بجائے وہ خو د انہیں سادہ کاغذ
پرویزا جاری کرنے لگا۔ یہ دلیرانہ اقدام آج تک پاکستان بھی نہیں کرسکا۔
چینی صدر نے پاکستان تشریف لاکر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے خطیرمنصوبوں
کے معاہدے کیے ہیں جو یقینا پاک چائنہ تعلقات میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔46ارب
ڈالر کی سرمایہ کاری تاریخ کی ایک سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے جس پر پاکستان
کی ترقی کے حاسدممالک بری طرح تڑپ اٹھے ہیں۔دوسری طرف دیکھاجائے تو چین نے
اپنی دوستی کی بال مکمل طورپر ہماری کورٹ میں پھینک دی ہے۔اب دیکھنا صرف یہ
ہے کہ ہم اس سرمایہ کادیانت داری اورپوری شفافیت سے استعمال کرتے ہیں اور
جن مقاصدکے لیے یہ سرمایہ دیاجارہا ہے‘ ان مقاصد اور منصوبوں کو پوری
ایمانداری سے مکمل کرتے ہیں یانہیں۔ اگرہم نے صرف سیاسی گیم نمبرنگ کی‘
بجلی‘توانائی اور نقل وحمل کے ان عظیم منصوبوں میں سیاستدانوں اور
بیوروکریسی نے شفافیت کامکمل مظاہرہ نہ کیا تو یقینا اس سے دو دوستوں کی
دوستی اوران کے باہمی اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی اور بسااوقات یہ بداعتمادی
بدترنتائج بھی پیدا کرسکتی ہے جس سے بچنے کی دعاہی کرنی چاہیے ۔ اگرچہ چین
بھی ہمارے کرپٹ عناصر سے واقف ہے‘اس لیے وہ ساری رقم یکمشت نہیں بلکہ قسطوں
میں دے گااور وہ خود ضرورت کے مطابق سرمایہ لگاتا رہے گا۔تاہم ان منصوبوں
کے لیے ملنے والی رقم کو شفاف طریقے سے استعمال کرنے کامیکانزم ہمیں بھی
ضرور وضع کرنا چاہیے تاکہ ان میں ہماری روایتی کرپشن کاعنصراس باہمی اعتماد
کو کم سے کم آلودہ کرسکے۔
چین کے ساتھ ہمارادوسرابڑا مخلص ترین اورقابل اعتماد دوست سعودی عرب ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ ہمارا دوستوں سے بھی بڑھ کر سگے بھائیوں جیساتعلق ہے
کیونکہ سعودی عرب کے ساتھ باہمی ملکی مفادات سے بھی کہیں بڑھ کے عقیدہ
وایمان کے مشترکہ نظریاتی رشتے بھی ہیں جوکہ اٹوٹ رشتے ہیں۔
حرمین شریفین کے حوالے سے ہمارا اس سرزمین کے ساتھ قلبی تعلق ہے اوریہ کسی
صورت تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اگرنظریاتی وابستگی کونظراندازبھی کردیاجائے جو
اگرچہ کسی طورپرممکن نہیں اور صرف دوملکوں کے باہمی مفادات اوردوستی کے
عالمی معیار اور تقاضوں کوہی دیکھاجائے تو تب بھی یہ دوستی اس معیار پر
سوفیصد سے بھی زائد پوری اترتی ہے۔ پاکستان کے قیام کی ابتداء سے اب تک
کوئی موڑایسانہیں جب سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ حق دوستی ادانہ کیاہو۔
جب پاکستان کو اقوام متحدہ کی رکنیت مطلوب تھی اورکہیں سے پاکستانی وفد کی
شنوائی نہ ہورہی تھی توتب شاہ عبدالعزیز نے امریکہ میں پاکستانی وفد کے
اعزازمیں خصوصی طورپر تقریب منعقد کی۔دوسرے ممالک کے نمائندوں کو بھی
پاکستان کی رکنیت کے حق میں قائل کیااور یوں پاکستان کو اقوام متحدہ کی
رکنیت ملنا ممکن ہوئی۔
1965ء کی جنگ میں بھی سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔1971ء
کی جنگ میں جب ایران ترکی جیسے ممالک بھی پاکستان کی مدد کے لیے آگے نہ آئے
لیکن پاکستانی وفد جب سعودیہ پہنچا تو محسن پاکستان شاہ فیصل شہید نے اسلحہ
کے لیے پاکستانی مطالبات کی فہرست ایک طرف رکھ دی اور کہا‘ ہماری ضرورت سے
زائد جتنابھی اسلحہ چاہیے‘ سارا مفت لے جائیں۔ایسی دوستی اورایسے بھائی
چارے کی مثال دنیا کا کوئی بھی ملک پیش نہیں کرسکتا۔ اس طرح ایٹمی پروگرام
کے سارے مصارف ہوں یاایٹمی دھماکوں کے بعد دنیابھر کی اقتصادی پابندیوں کی
مشکلات ‘یہ صرف سعودی عرب ہی تھاجس نے امریکہ سمیت کسی عالمی طاقت کی پروا
نہ کی اورکسی مشکل میں ہمیں کبھی تنہانہ چھوڑا۔دس سال تک پاکستان کو3ارب
ڈالر کاتیل مفت دیاجاتارہا۔ مسلم حکمرانوں کو اقتدار سے علیحدگی کے بعد جب
بھی مشکل حالات کا سامناکرناپڑا توتب بھی سعودیہ کے پروں کے نیچے ہی جاکر
وہ خود کو محفوظ کرتے۔ یوگنڈا کے صدر عدی امین سے لے کر نوازشریف اورپھر
یمن کے علی عبداﷲ صالح اور اب صدر منصورہادی تک سب ہی ان سعودی نوازشات سے
فائدہ اٹھاتے رہے۔ نوازشریف کے حالیہ دورِ حکومت میں جب پاکستانی معیشت
دیوالیہ کو پہنچ رہی تھی تو تب بھی سعودی شاہ عبداﷲ ہی آگے آئے اور پاکستان
کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی خطیرامداد کاتحفہ دیالیکن افسوس کہ اس باراس امداد کا
غلط مطلب نکالا گیا۔یہ نہ سوچا گیاکہ سعودیہ تو ہردورمیں ہماری بے لوث
مددکرتااور نوازشات کی بارش کرتارہاہے۔ چنانچہ عجلت میں پارلیمنٹ کے
بزرجمہروں نے بھی ایسی قراردادپیش کی جس نے اپنے محسن عربوں کوناراض کردیا۔
تاہم اﷲ کاشکرہے کہ ہمارے ارباب اقتدارکوجلد اپنی غلطی کااحساس ہوگیا۔اسی
کے ازالے کے لیے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اورپھروزیراعظم میاں
محمدنوازشریف ‘آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ سعودیہ گئے اور تمام غلط
فہمیوں کاازالہ کیا۔ ایساکرناضروری بھی تھا ۔ خاص طورپر ایسے حالات میں جب
چینی صدرکاشغرسے گوادر پورٹ تک اقتصادی راہداری کے لیے پاکستان کے ساتھ
خصوصی معاہدے کررہے ہیں۔یہ راہداری اورگوادر کی بندرگاہ تب ہی کامیاب
ہوسکتی ہے جب یمن کی بندرگاہ عدن تک پاکستان‘ سعودی عرب اور چین کی بلاروک
ٹوک رسائی ہوکیونکہ یہیں سے مشرق وسطیٰ کا تیل ساری دنیاکو سپلائی ہوتا ہے۔
اگریہ بندرگاہ صیہونیوں کے آلۂ کار حوثیوں جیسے باغیوں کے کنٹرول میں ہوگی
توسارے علاقے کاامن تہہ وبالا ہوگا۔اس لیے دیکھاجائے تو آج کے حالات میں
سعودی عرب ‘چین اور پاکستان کے مفادات خطے میں ایک جیسے ہوچکے ہیں۔تینوں ہی
مخلص دوست ہیں۔ اﷲ کرے یہ دوستی پوری دنیاکے لیے امن کاباعث بنے۔بس ضرورت
صرف اس امرکی ہے کہ یہودوہنود ایسے دشمنوں کی سازشوں سے ہوشیاررہاجائے جو
ان تین دوستوں کی دوستی کو قطعاً برداشت کرنے کو تیارنہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب
کو سوچنے سمجھے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
امام کعبہ کے حالیہ دورۂ پاکستان میں جس طرح لاکھوں عوام نے ان کے پیچھے
بڑھ چڑھ کر نمازیں اداکیں،اس سے پاکستانی عوام کی سعودی بھائیوں سے اپنی
حددرجہ قلبی وابستگی پوری طرح آشکار ہوگئی۔اسی بناء پر امام کعبہ کو بھی
بجاطورپر یہ کہناپڑا کہ پاکستانی عوام کی رائے پارلیمنٹ سے مختلف نظر آ رہی
ہے۔کئی سیاستدانوں نے اسے سعودی عرب کے حق میں ایک ریفرنڈم بھی
قراردیا۔امام کعبہ نے اپنے دورے میں اسلامی بھائی چارہ کوفروغ دینے کے لیے
بھی بڑی ایمان افروز باتیں کیں۔مختلف تقریبات اورخطابات میں انہوں نے
پاکستان کے لیے اپنے بڑے والہانہ جذبات کااظہارکیا۔فلیٹیز ہوٹل میں
پروفیسرساجدمیر‘مولاناامیرحمزہ‘ معروف شیعہ عالم حسین اکبر اوربریلوی
ودیوبندی علماء بھی موجودتھے۔اس طرح اتحادبین المسلمین کے یادگارمناظرسامنے
آئے۔امام کعبہ نے کہاکہ ’’ہرسعودی پاکستانی ہے اور ہرپاکستانی سعودی ہے‘‘
انہوں نے کسی قسم کی فرقہ واریت کورد کرتے ہوئے کہاکہ ایرانی بھی ہمارے
بھائی ہیں‘انہوں نے سب کودعوت دی کہ سعودی ہوں یاایرانی ‘ سب قرآن و سنت پر
متحد ہوں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ امام کعبہ کے اس روح پرور دورے سے نہ صرف پاکستان سعودیہ
دوستی مضبوط ہوئی ہے بلکہ پورے عالم اسلام میں اتحاد بین المسلمین کو فروغ
ملاہے۔اﷲ سے دعاہے کہ پاکستان کی اپنے سچے دوستوں سے یہ دوستی اور محبت
ہرآزمائش میں پوری اترے تاکہ کوئی ہمیں یہ نہ کہہ سکے کہ ضرورت پڑنے پر ہم
دوستوں سے آنکھیں پھیرلیتے ہیں۔ |