ساختیات ایک صحت مند فکری رویے،
ہمہ وقت ترقی پذیر سماجی ضرورت اورانتھک تحقیق و دریافت کا نام ہے جو سوچ
کوکسی مخصوص، زمانی ومکانی کرّے تک محدود رہنے نہیں دیتی ۔ یہ نہ صرف معلوم
(ڈسکورڈ)مگر غیرا ستوار کرّوں سے تعلق استوار کرتی ہے بلکہ ان سے رشتے ناتے
دریافت کرتی ہے۔ اس کا دائرہ کا ر یہاں تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ معلوم
مگر غیر دریافت شدہ کرّوں کی طرف پیش قدمی کرکے ان کے حوالوں کو اشیا،
اشخاص اور ان سے متعلقات وغیرہ کی جذب و اخذ کی صلاحیتوں سے پیوست کر دیتی
ہے ۔ یہ پیوستگی مخصوص، محدود اور پابند لمحوں کی دریافت تک محدود نہیں
رہتی اور نہ ہی تغیرات کی صور ت میں جامد وساکت رہتی ہے۔ اس کارد ساخت کا
حلقہ ہمیشہ لامحدود رہتاہے۔
کچھ لوگ ساخت شکنی کو ساخت سے انحراف کانام دیتے ہیں یا سمجھتے ہیں۔ یہ سوچ
ساخت کے ضمن میں درست مناسب اور’’ وارہ کھانے‘‘ والی نہیں ہے۔ ساخت شکنی
درحقیقت موجودہ تشریح کو مستردکرکے آگے بڑھنے کانام ہے۔ شاخت شکنی کے بغیر
کسی نئے کی دریافت کا سوال پیدا ہی نہیں اٹھتا۔ ساخت شکنی کی صورت میں
نامعلوم کائناتیں دریافت ہوکر کسی بھی دال کے ساتھ بہت سارے مدلول وابستہ
ہو جاتے ہیں۔
کوئی دال غیر لچکدار اور قائم بالذات نہیں ہوتا۔ لچک، قطرے کا سمندر کی طرف
مراجعت کا ذریعہ ووسیلہ ہے یااس کے حوالہ سے قطرے کا سمندر بنناہے۔ ساخت
شکنی سے ہی یہ آگہی میسر آتی ہے کہ قطرہ اپنے اندر سمندر بننے کا جوہر
رکھتاہے۔ دال کوغیرلچکدار قرار دینا آگہی کے پہلے زینے پر کھڑے رہناہے۔ ہر
زندہ اور لچکدار سوچ ازخود آگہی کی جانب بڑھتاہے ۔زندہ اورلچکدار سوچ کو
دائرہ کاقیدی ہونا خوش نہیں آتا اور نہ ہی اسے کسی مخصوص دائرے سے منسلک
کیا جاسکتاہے۔ یہ ان گنت سماجی رشتوں سے منسلک ہوتاہے۔ اسی بنیادپر گریماکا
کہنا ہے
ساختیاتی نظام ممکنہ انسانی رشتوں کے گوشواروں پر مبنی ہے
ڈاکٹر وزیر آغا اس ضمن میں کہتے ہیں
ساختیات نے شعریات کو ثقافتی دھاگوں کاجال قرار دیا ہے۔ وہ تصنیف کی لسانی
اکائی یا معنوی اکائی تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے تصنیف کے اندر ثقافتی
تناظرہ کا بھی احاطہ کیا
تشریح وتفہیم کے وقت شارح کا وجود معدوم ہوجاتاہے اور فکر موجودہ تغیرات کے
نتائج سے مدلول اخذ کرتی چلی جاتی ہے جبکہ وقوع میں آنے والے مدلول پھر سے
نئی تشریح وتفہیم کی ضرورت رہتے ہیں۔ اس کے لئے تغیرات کے نتائج اور دریافت
کے عوامل پھر حرکت کی زدمیں رہتے ہیں۔ اس سے ردّ ساخت کے مواقع بڑھ جاتے
ہیں ۔ اگران لمحوں میں شارح جو قاری بھی ہے، کے وجود کو استحقام میسّر رہے
گایا اس کا ہونا اور رہنا قرار واقعی سمجھاجائے گا تودریافت کا عمل رک جائے
گا۔ مصنف کو لکھتے اور شارع کو تشریح کرتے وقت غیر شعوری طور پر معدوم ہونا
پڑے گا۔ شعوری صورت میں ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ شے یا شخص اپنی موجودہ
شناخت سے محروم ہونا کسی قیمت پر پسند نہیں کرتے۔
شعوری عمل میں نئی تشریحات ، نئے مفاہیم اور نئے واسطوں کی دریافت کے دروا
نہیں ہوتے ۔
مصنف، قاری اور شارح نہ صرف دریافت کے آلہ کارہیں بلکہ ہر دال کے ساتھ ان
کے توسط سے نیا مدلول نتھی ہوتا چلا جاتاہے۔ اس ضمن میں اس حقیقت کوکسی
لمحے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جب تک مصنف ،قاری اور شارح دریافت کے
عمل کے درمیان معدوم نہیں ہوں گے ،نیا مدلول ہاتھ نہیں لگے گا ۔ اسی طرح
کسی دال کے پہلے مدلول کی موت سے نیا مدلول سامنے آتاہے۔ پہلے کی حیثیت
کوغیر لچکدار اور اس کے موجودہ وجود کے اعتراف کی صور ت میں نئی تشریح یا
پھر نئے مدلول کی دریافت کا کوئی حوالہ باقی نہیں رہ پاتا۔’’میں ہوں‘‘ کی
ہٹ معاملے کی دیگر روشوں تک رسائی ہونے نہیں دیتی۔
رویے ، اصول ، ضابطے اور تغیرات کے وجوہ و نتائج اورعوامل کی نیچر اس
تھیوری سے مختلف نہیں ہوتی۔ تغیرات ایک سے ہوں، ایک طرح سے ہوں، ایک جگہ
ایک وقت سے مختلف نہ ہوں یا پھر ہو بہو پہلے سے ہوں، سے زیادہ کوئی احمقانہ
بات نہیں۔ اگر تغےرات ایک سے وجوہ اور ایک سے عوامل کے ساتھ جڑے نہیں ہوتے
توان کے نتائج ایک سے اور پہلے سے کیسے ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں نئی تشریح کی
ضرورت کوکیونکر نظرانداز کیا جاسکتاہے۔
موہنجوداڑو کی تہذیب و ثقافت سے متعلق پہلی تشریحات، موجودہ وسائل اور فکر
کی روشنی میں بے معنی ٹھہری ہیں ان کی معدومی پر نئی تشریحات کا تاج محل
کھڑا کیا جا سکتاہے۔ ایسے میں معدوم تشریحات پرا نحصار اور ان سے کمٹ منٹ
نئی تشریحات کی راہ کا بھاری پتھر ہوگی ۔’’ہے‘‘ اور ’’ہوں‘‘کی عدم معدومی
کی صورت میں محدود حوالے ، مخصوص تشریحات یا پہلے سے موجو د مفاہیم کے وجود
کواستحقام میسّر رہے گا۔
دہرانے یا بار بار قرات کا مطلب یہی ہے کہ پہلے سے انحراف کیاجائے تاکہ نئے
حوالے اور نئے مفاہیم دریافت ہوں۔ پہلی یا کچھ بار کی قرات سے بہت سے
مفاہیم کے دروازے نہیں کھلتے ۔ ذراآگے اور آگے ہی مزید کچھ ہاتھ لگ سکتاہے۔
یہ درحقیقت پہلے سے موجود سے انحراف نہیں بلکہ جو اسے سمجھا گیا یا جو کہا
گیا،سے انحراف اور اس کی موت کا اعلان ہے۔ اگر وہ درست ہے اورعین وہی ہے،
جو ہے تونئی تشریحات کا عمل کوئی معنی نہیں رکھتا اور نہ ہی کثیر الامعنی
کی فلاسفی کوئی حیثیت اور وقعت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں :
اگر پہلے سے تحریر (ادب) کا وجود نہ ہو تو کوئی شاعر یا مصنف کچھ نہیں لکھ
سکتا۔ جوکچھ اگلوں نے لکھا ہر فن پارہ اس پرا ضافہ (نئے مفاہیم ، نئی تشریح
کانام بھی دے سکتے ہیں ) ہے
دہرانے کا عمل ’’جو ہے‘‘ تک رسائی کی تگ ودو ہے ۔ یعنی جو اسے سمجھا گیا وہ
، وہ نہیں ہے یاپھر اسے موجودہ، حالات اور ضرورت کے مطابق سمجھنے کی ضرورت
ہے۔ اسے اسی طرح سمجھنے کی تشنگی، جس طرح کی وہ ہے، کے حوالہ سے ساختیات
کبھی کسی تشریح یا تفہیم کو درست اور آخری نہیں مانتی۔وہ موجود کی روشنی
میں آگےنہیں بڑھتی کیونکہ یہ موجود کی تفہیم ہوگی اور اصل پس منظر میں چلا
جائے گا۔ اس سینار یو میں دیکھئے کہ اصل نئے سیٹ اپ کے بھنور میں پھنس گیا
ہوتاہے۔
ساختیات متن اور قرات کو بنیادمیں رکھتی ہے ۔ ان دونوں کے حوالہ سے تشریح
وتفہیم کا کام آگے بڑھتاہے۔ کیایہ تحریر کے وجود کا اقرار نہیں ہے۔ متن
درحقیقت خاموش گفتگو ہے۔’’ خاموشی‘‘ بے پناہ معنویت کی حامل ہوتی ہے۔
متن کا ہر لفظ کسی نہ کسی کلچر سے وابستہ ہوتاہے۔ اس کلچر کے موجود سیٹ اپ
اور لسانی نظام کے مزاج سے شناسائی کے بعد ہی موجودہ (نئی) تشریح کے لئے
تانا بانا بُنا جاسکتا ہے۔ اس تناظر میں متن کی باربار قرات کی ضرورت محسوس
ہوتی رہے گی۔
دورانِ قرات اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا کہ لفظ اس کلچر کے
موجودہ سیٹ اپ کا ہاتھ تھام کراس سیٹ اپ کی اکائیوں سے وحدت کی طرف سفر
کرتاہے اور کبھی وحدت سے اکائیوں کی طرف بھی پھرناپڑتاہے۔ ہر دو نوعیت کے
سفر، نئی آگہی سے نوازتے ہیں ۔’’یہ نئی آگہی‘‘ ہی اس لفظ کی موجودہ تشریح
وتفہیم ہوتی ہے۔ قرات کے لئے سال اور صدیاں درکارہوتی ہیں۔ اسی بنیاد پر
ڈاکٹر سہیل بخاری نے کہاتھا
ہزاروں سال کسی زبان کی عمر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے ساختیات موضوعیت سے
انکار کرتی ہے۔ موضویت چیز،معاملے یاپھر متن کے حلقے محدود کرتی ہے۔ اس سے
صرف متعلقہ حلقے کے عناصر سے تعلق استوار ہو پاتاہے اور ان عناصر کی انگلی
پکڑ کر تشریح وتفہیم کا معاملہ کرنا پڑتاہے۔ کیایہ ضروری ہے کہ لفظ یاکسی
اصطلاح کو کسی مخصوص لسانی اور اصطلاحی نظام ہامیں ملاحظہ کیا جائے۔ اسے
کئی دوسرے لسانی و اصطلاحی سٹمز میں ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔ اس طر ح دیگر
شعبہ ہائے حیات کا میدان بھی کبھی خالی نہیں رہا ۔ ایسا بھی ہوتاہے کہ اسے
ایک مخصوص اصطلاحی سٹم کے مخصوص حلقوں تک محدود رکھاجاتاہے یاپھر مخصوص
حوالوں کی عینک سے ملاحظہ کیا جاتاہے۔ ساختیات اسے گمراہ کن روّیہ قرار
دیتی ہے اور نہ ہی موجود کے درجے پر فائز کرتی ہے۔
شعر کے کسی لفظ یا اصطلاح کو محض رومانی سٹم سے کیونکر جوڑا جاسکتاہے۔ اس
کے علاوہ دیگر کائناتوں، سماجی ، معاشرتی ، معاشی ، سیاسی نفسیاتی ،
بیالوجی، تصوف وغیرہ سے اس کا رشتہ کیوں غلط اور لایعنی سمجھا جائے۔ حقیقی
کے ساتھ مجازی ، علامتی، استعارتی وغیرہ کرّے بھی تو موجود ہیں۔ استعارہ
ایک علامت کیوں نہیں یاکسی استعارے کے لئے، علامتی کرّے کا دروازہ کیوں
بندرکھا جائے ۔ یا یہ دیکھا جائے کہ مصنف نے فلاں حالات ، ضرورتوں اور
تغیرات سے متاثر ہوکرقلم اٹھایا ۔ مصنف لکھتا ہی کب ہے وہ تومحض ایک آلہ
کار ہے۔ تحریر نے خود کولکھا یا تحریر خود کو لکھتی ہے۔ اس ضمن میں چارلیس
چاڈو کا کہنا ہے
لسانی لحاظ سے مصنف صرف لکھنے کاایک ایما ہے۔ جس طرح ’’میں‘‘ کچھ نہیں سوا
ایک ایما ’’میں ‘‘ کے ۔ زبان ایک فاعل کو جانتی ہے(اس کی) شخصیت کو نہیں
قاری جو شارح بھی ہے مصنف کے حالات اور ضرورتوں سے لاتعلق ہوتاہے۔ وہ الگ
سے کرّوں میں زندگی گزار رہاہوتاہے۔ اس کے سوچ کے پنچھی مصنف کے کرّوں سے
باہربھی پرواز کرتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح مصنف اپنے سے باہرکی بات کر
رہا ہوتا ہے۔ قاری اور مصنف جن جن کرّوں میں زندگی کر رہے ہوں ان میں ذہنی
طور پر ایڈجسٹ بھی ہوں، لازمی امر تونہیں۔ ان کی فکری جڑیں کئی اور بہت
کائناتوں میں ہوسکتی ہیں بلکہ ہوتی ہیں۔ سوچ لیونگ کرّے سے باہر متحرک ہوتا
ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ لیونگ کرّے میں اس کے سوچ کا،
لیونگ کرّہ قرار نہیں دیا جاتا۔’’یہاں‘‘ا س کا سوچ ہمیشہ مس فٹ رہتا ہے۔ اس
تناظر میں ’’یہاں‘‘ سے آزادی مل جاتی ہے جب کہ ’’وہاں‘‘ کے مطابق قرات عمل
میں آئے گی اور تشریح کا فریضہ ’’وہاں‘‘ کے مطابق انجام پائے گا۔ اس
(موجود) کرّے میں ان کی موت کا اعلان کرنا پڑے گا۔ قرات اور تشریح کے لئے
’’اس‘‘ تک اپروچ کرنا پڑے گی۔
سوچ کوئی جامد اور ٹھوس شے نہیں۔ اسے سیماب کی طرح قرار میسّر نہیں آتا۔یہ
جانے کن کن کرّوں سے گزرتے ہوئے لاتعداد تبدیلیوں سے ہمکنار ہوکر معلوم سے
نامعلوم کی طرف بڑھ گیا ہو۔ ایسے میں قرات اور تشریح وتفہیم کے لئے اَن سین
اور اَن نون کی دریافت لازم ٹھہرے گی ۔ بصورت دیگر بات یہاں (موجود) سے آگے
نہ بڑھ سکے گی۔ سکوت موت ہے اورموت سے نئی صبح کا اعلان ہوتاہے۔
ساختیات ایک یاایک سے زیادہ مفاہیم کی قائل نہیں۔یہ بہت سے اور مختلف نوعیت
کے مفاہیم کو مانتی ہے۔ پھر سے، اس کا سلیقہ اور چلن ہے۔ کثرت ِمعنی کی
حصولی اس وقت ممکن ہے جب لفظ یاشے کے زیادہ سے زیادہ حوالے رشتے دریافت کئے
جائیں ۔ یہ کہےں باہر کاعمل نہیں بلکہ تخلیق کے اپنے اندرچپ اختیار کئے
ہوتاہے۔ دریافت ، چپ کو زبان دینا ہے۔ اس بنیاد پر لاکاں کہتاہے :
یہ دیکھنا ضروری نہیں کہ کرداروں کی تخلیق کے وقت کون سے نفسیاتی عوامل
محرک گردانے جاتے ہیں بلکہ سگینفائرز یادال کو تلاش کرکے یہ دیکھا جانا
چاہیے کہ ان میں سے کون سے علامتی معنی ملتے ہیں اور لاشعور کے کون سے دبے
ہوئے عوامل ہیں جو تحریر کا جامہ پہن کر ممکنہ مدلول کی نشاندہی کرتے ہیں۔
علامت، جودکھائی پڑرہاہے یا سمجھ میں آرہاہے وہ نہیں ہے، کی نمائندہ ہے۔
دکھائی پڑنے والے کرّے سے اس کا سرے سے کوئی تعلق نہیں۔ تندوے کی طرح اس کی
ٹانگیں ان کرّوں میں بھی پھیلی ہوئی ہوتی ہیں جو اَن سین اور اَن نون ہیں ۔
کیاتندوے کی ٹانگوں اور ان کی پہنچ کو تندوے سے الگ رکھا جاسکتاہے۔ گویا
کوئی متن محدود نہیں ہوتا جتنا کہ عموماً اسے سمجھ لیا جاتاہے۔ کسی کلچر
کرّے کی سروائیول کا انحصار بھی اس بات پر ہے کہ اردگرد سے اسے منسلک رکھا
جائے۔ وہاں درآمد و برآمد کا سلسلہ تعلق اور رشتہ کے حوالہ سے پاؤں پسارتا
ہے ۔ اس حوالہ سے لفظ کے’’ کچھ معنی‘‘ کافی نہےں ہوتے ۔ کثیر معنوں پر لفظ
کی حیثیت اور بقا کا انحصار ہوتاہے۔
بعض حالا ت میں لفظ کا مخصوص اکائیوں سے پیو ست ہونا ضروری ہو جاتاہے۔ تاہم
اکائیوں سے وحدت کی طرف اسے ہجرت کر ناپڑتی ہے۔ لفظ کی ساخت میں لچک تسلیم
کرنے کی صورت میں ہر قسم کاسفر آسان اور ممکن ہوتاہے۔ اس حوالہ سے بڑی وحدت
میں نتھی ہونے کے لئے کثیر معنوں کا فلسفہ لایعنی نہیں ٹھہرتا۔
لفظ تب اصطلاحی روپ اختیار کرتاہے اور انسانی بردار کا ورثہ ٹھہرتاہے جب اس
کے استعمال کرنے والے بخیل نہیں ہوتے ۔ اس لفظ کی اصطلاحی نظام اور انسانی
زبان میں ایڈجسٹمنٹ اس کی لچک پذیری کو واضح کرتی ہے اور یہ بھی کہ وہ سب
کا اور سب کے لئے ہے۔ لفظ نقش کو بطور مثال لے لیں یہ بے شمار کرّوں میں
کسی وقت کے بغیر متحرک ہے اور بے شمار مفاہیم میں بیک وقت مستعمل ہے ۔ مزید
مفاہیم سے پرہیز نہیں رکھتا۔
ہر لفظ کے ساتھ باربار دہرائے جانے کا عمل وابستہ ہے اور یہ عمل کبھی اور
کہیں ٹھہراو کا شکار نہیں ہوتا۔ ہاں بکھراؤ کی ہر لمحہ صورت موجود رہتی ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا کے نزدیک :
شعریات بطور ایک ثقافتی سٹم تخلیق کے تارو پود میں ہی نہیں ہوتی بلکہ اپنی
کارکردگی سے تخلیق کو صورت پذیر بھی کرتی ہے قاری کا کام تخلیق کے پرتوں کو
باری باری اتارنا اور شعریات کی کارکردگی پر نظر ڈالنا ہے
تخلیق کے پرتوں کو باری باری اتارنا ،دہرائے جانے کا عمل ہے جبکہ شعریت کی
کارگزاری پر نظر ڈالنا دریافت کرنے اور نئی تشریح تک رسائی کی برابر اور
متواتر سعی کانام ہے۔ یہ سب تب ممکن ہے جب فکر،عملی اور فکری تغیرات کی زد
میں رہے اور اسی کی آغوش میں پروان چڑھے۔ اس صورتحال کے تناظر میں یہ کہنا
بھی غلط نہیں لگتا کہ لفظ تغیرات کی زد میں خود کو منوانے اور ظاہر کرنے کے
لئے ہاتھ پاؤں مارتارہتاہے۔
ساختیات دراصل اندر کے ثقافتی نظام کی قائل ہے ۔ کروچے کے مطابق داخل ،
خارج میں متشکل ہوتاہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ سب کچھ باطن میں
طے پاتاہے یا جو کچھ داخل میں محسوس کرتا ہے خارج میں بھی ویسا ہی دیکھتا
ہے ۔ گلاب محض ایک شے ہے۔ داخل نے اِسے اِس کے داخلی اور خارجی حوالوں کے
ساتھ محسوس کیا دیکھا اور پرکھا ۔ اسے ان گنت کائناتوں سے منسلک کرکے نام
اور مفاہیم عطا کئے ۔ بےرونی تغیرات کی صورت میں جو ا ور جیسا محسوس کیا،
اسی کے مطابق تشریح و تعبیر کی۔ تاہم بقول ڈاکٹر گوپی چند نارنگ:
قرات (محسوس کرنا ، دیکھنا اور پرکھنا) اور تفاعل تہذیب کے اندر اور تاریخ
کے محور پر ہےیعنی معنی بدلتے رہتے ہیں اور کوئی قرات یا تشریح آخری وقت
آخری نہیں ہے ۔
آخری تشریح اس لئے آخری نہیں کہ مختلف عوامل کے تحت اندر کے موسم بدلتے
رہتے ہیں ۔داخل کسی ثقافتی سٹم کو لایعنی کہہ کر نظر انداز نہیں کرتا۔
لفظ جب ایک جگہ اور ایک وقت کے چنگل سے آزادی حاصل کر تاہے توثقافتی تبدیلی
کے باعث پہلے معنی ردّ ہوجاتے ہیں ۔اگرچہ ان لمحوں تک پہلے معنی پہلے کرّے
میں گردش کر رہے ہوتے ہیں یا پھر تغیرات کے زیر اثر یاکسی نئی تشریح کے
حوالہ سے پہلے مفاہیم کو ردّ کر دیا گیا ہوتاہے۔ نئی اور پرانی کائناتوں
میں ردِّساخت کا عمل ہمیشہ جاری رہتاہے ۔ بات یہاں پر ہی ٹھہر نہیں جاتی ۔
مکتوبی تبدیلیاں بھی وقوع میں آتی رہتی ہیں ۔ تڑپھ سے تڑپ ، دوانہ سے
دیوانہ ، کھسم سے خصم ، بادشاہ سے شاہ اور شاہ سے شہ مکتوبی ساخت کا عمدہ
نمونہ ہیں۔
ً جملہ بولاجاتا ہے۔ ’’وہ توبادشاہ ہے‘‘ لفظ بادشاہ مختلف ثقافتی سسٹمز میں
مختلف مفاہیم رکھتاہے۔ مفہومی اختلاف پہلے مفہوم کو رد کرکے وجود میں آیا
ہے۔ باربار کی قرات پہلے کو یکسر رد کرتی چلی جاتی ہے۔ اس سے نئے مفاہیم
پیدا ہوتے جائیں گے۔ مثلاً بادشاہ :
حکمران، سےاسی نظام میں ایک مطلق العنان قوت ، ڈاکٹیٹر
لاپرواہ
بے نیاز ، لالچ اور طمعہ سے عاری
جس کے فیصلے حق پر مبنی نہ ہوں، جس کے فیصلوں میں توازن نہ ہو، بے انصاف
پتہ نہیں کس وقت مہربان ہوجانے کس وقت غصب ناک
مرضی کا مالک، کسی کا مشہورہ نہ ماننے والا، اپنی کرنے والا
حقدار کو محروم اور غیرحقدار پر نواز شوں کی بارش کرنے والا
نہ جانے کب چھین لے، غضب کرنے والا
کان کا کچا، لائی لگ
بے انتہا اختیارات کا مالک
ولی اللہ ، صوفی ، درویش ، پیر ، فقیر ، گرو، رام
اللہ تعالیٰ
مالک ، آقا
بانٹ کرنے والا، سخی
امیر کبیر، صاحب ثروت
تھانےدار ، چوہدری ، نمبردار ، وڈیرا، کلرک ، سنتری، تیز رفتار ڈرائیور،
پہلوان ،حجام ، فوجی
وقت پر ادائےگی نہ کرنے والا
مکرجانے والا
وعدہ خلاف
بے شرم ، ڈھیٹ ، ضدی
نشئی
بے وقوف ، احمق
غضب کرنے والا
لفظ بادشاہ کی نامکمل تفہیم پیش کی گئی ہے۔ ان مفاہیم کالغت سے کوئی تعلق
نہیں۔ اس
کو دہراتے جائیے ۔ مختلف تہذیبی وفکری کرّوں سے تعلق استوار کرتے جائیے ۔
پہلے مفاہیم رد ہوکر نئے معنی سامنے آتے جائیں گے ۔ ہر کرّے کا اپنا انداز
، اپنی ضرورتیں، اپنے حالات ، اپنا ماحول وغیرہ ہوتاہے اس لئے سیاسی غلامی
کی صور ت میں بھی کسی اور کرّے کا پابند نہیں ہوتا ۔ لہذا کہیں او رکسی
لمحے ساخت شکنی کا عمل جمود کا شکار نہیں ہوتا۔ اس سارے معاملے میں صرف
شعوری قوتیں متحرک نہیں ہوتیں بلکہ لاشعوری قوتیں بھی کام کررہی ہوتی ہیں ۔
تخلیقِ ادب کا معاملہ اس سے بر عکس نہیں ہوتا۔
اس ضمن میں لاکاں کا کہنا ہے:
تخلیق ادب کی آماجگاہ لاشعور ہی کو سمجھا جاتاہے کیونکہ اس میں مقصد، ارادہ
یا ساختیاتی زبان میں تخلیقی تحریریں فعل لازم میں لکھی جاتی ہیں.
ساختیات مرکزیت کی قائل نہیں ۔ مرکزیت کی موجودگی میں رد ساخت کا عمل
لایعنی اور سعی لا حاصل کے سواکچھ نہیں۔ ایسی صورت میں لفظ یا شے کو پرواز
کرنے یامختلف حوالوں کے ذائقے حاصل کرنے کے بعد مرکزے کی طر ف لوٹ کر اس کے
اصولوں کا بندی بننا پڑتاہے۔ لوٹنے کا یہ عمل کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا
۔ ایسی صور ت میں نئی تشریحات اور نئے مفاہیم کی کیونکر توقع کی جاسکتی ہے۔
لفظ آزاد رہ کر پنپتا اور دریافت کے عمل سے گزرتا ہے۔ لفظ ’’بادشاہ‘‘ محض
سےاسی کرّے کا پابند نہےں ۔ ےہاں تک کہ سےاسی کرّے مےں رہ کر بھی کسی مرکزے
کو محور نہےں بناتا۔
بڑی عجیب اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ساختیات مصنف کے وجود کو نہیں مانتی
بلکہ شعریت (Poetic)اور لفظ کے باطن میں چھپی روح کومانتی ہے۔ اس کے نزدیک
تخلیقی عمل کے دروان مصنف معدوم ہوجاتاہے۔ تحریر خو د کولکھ رہی ہوتی ہے نہ
کہ مصنف لکھ رہا ہوتاہے۔ ساختیات کے اس کہے کاثبوت خو دتحریر میں موجود
ہوتاہے۔ شاعر، شاعری میں بادہ وساغر کی کہہ رہا ہوتاہے جبکہ وہ سرے سے
مےخوار ہی نہیں ہوتا۔ ممکن ہے اس نے شراب کوکبھی دیکھا ہی نہ ہو۔ معاملہ
بظاہر مےخانے سے جڑ گیا ہوتاہے لیکن بات کامیخانے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں کہ تحریر کسی بڑے اجتماع میں متحرک ہوتی
ہے یہ سب تحریر کے اندر موجود ہوتاہے ۔
ڈاکٹر وزیر آغا کا کہناہے:
شعریات کوڈز اور کنونشنز پر مشتمل ہونے کے باعث پوری انسانی ثقافت سے جڑی
ہوتی ہے
اس کہے کے تناظر میں تشریح کے لئے مصنف شاعر کے مزاج ،لمحہ موڈ، ماحول ،
حالات وغیرہ کے حوالہ سے تشریح کا کام ہونا ممکن نہیں ۔ تحریر یا کسی نشان
(Sign/Trace) کو کسی مرکزیت سے نتھی کرکے مزید اور نئے نتائج حاصل کرنا
ممکن نہیں اورنہ ہی تشریح و توضیح کا عمل جاری رکھا جاسکتاہے۔
لفظ بظاہر بول رہے ہوتے ہیں ۔ اس بولنے کو ماننا گمراہ کن بات ہے۔ لفظ
بولتے ہیں تو پھر تشریح و توضیع کیسی اور کیوں ؟ لفظ اپنی اصل میں خاموش
ہوتے ہیں ۔ ان کی باربار قرات سے کثرتِ معنی کا جال بنا جاتاہے۔ قرات انہیں
زبان دیتی ہے۔ خاموشی ، فکسڈ مفاہیم سے بالا تر ہوتی ہے۔ اس معاملے پر غور
کرتے وقت اس بات کو مدنظر رکھنا پڑے گا کہ قاری قرات کے وقت معدوم
ہوجاتاہے۔ وہ اجتماعی ثقافت کے روپ میں زندہ ہوتا ہے یایوں کہہ لیں کہ وہ
اجتماعی ثقافت کا بہروپ ( لاشعوری سطح پر)اختیار کر چکاہوتاہے۔
قرات کے دوران جب لفظ بولتا ہے تو اس کے مفاہیم اس کے لیونگ کلچر کے ساتھ
ہی اجتمادعی کلچر کے حوالہ سے دریافت ہورہے ہوتے ہیں۔ مصنف جولکھ رہاہوتا
ہے اس کا اس کی زندگی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ اس طرح قاری جو تفہیم
دریافت کر رہا ہوتاہے اور جن کرّوں سے متعلق دریافت کر رہاہوتا ہے ان سے وہ
کبھی منسلک نہیں رہا ہوتا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عملی زندگی میں وہ ان کا
شدید مخالف رہا ہو ۔یا ان تجربات سے گزرنے کا اسے کبھی موقع ہی نہ ملا ہو۔
شاہد بازی یا شاہد نوازی سے قاری متعلق ہی نہ ہو لیکن اس حوالہ سے مفاہیم
دریافت کر رہا ہو۔ لفظ کی معنوی خاموشی تفہیم کا جوہرنایاب ہے۔ خاموشی ،
قاری کو پابندیوں سے آزادی دلاتی ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ لفظ بولتا ہے
توقاری معدوم نہیں ہوتاتاہم اس کی حیثیت کنویں کے مینڈک سے زیادہ نہیں
ہوتی۔ اس حوالہ سے اجتماعی ثقافت اور اجتماعی شعور کا ہر حوالہ بے معنی
ہوجاتا ہے ۔
ساختیات کے بارے یہ کہنا کہ اس میں ایک ہی کو باربار دہرایا جاتاہے، مبنی
برحق بات نہیں ہے۔ بلاشبہ کسی ایک نشان کی باربار قرات عمل میں آتی ہے لیکن
اس کے موجودہ تشریح کو مستردکرکے کچھ نیا اور کچھ اور دریافت کیا جا رہا
ہوتا ہے ۔ پروفیسر جمیل آزار کا کہنا ہے:
’’ادب اثر کر تاہے بطور سماجی تشکیل کی ایک خود مختار سطح کےادب حقیقت کا
آئینہ یا اصل کی نقل یا حقیقت کا مثنیٰ نہیں بلکہ (الگ سے) ایک سماجی قوت
ہے جواپنے تعینات اور اثرات کے ساتھ اپنی حیثیت رکھتی ہے اور اپنے بل اور
اپنی قوت پر قائم ہے
اس حقیقت کے تناظر میں یہ کہنا کہ دہرانے کا عمل فوٹو کاپی سے مماثل ہے
درست بات نہیں۔ اس میں جو نہیں ہے کا کھوج لگایا جاتا ہے۔ کسی نشان سے جو
مدلول اس سے پہلے وابستہ نہیں ہوتا، جوڑا جاتا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ وہ
مدلول پہلے سے اس دال میں موجود ہوتا ہے لیکن دریافت نہیں کیا گیا ہوتا۔
ساختیات سائنسی عمل سے بھی مماثل ہے۔ یہ کسی قسم کی پراسرایت اور ماوارئیت
کو نہیں مانتی ۔ اس کا رشتہ ہمیشہ حقائق سے جڑ ارہتاہے۔ ردِّساخت کے وقت
امکانات کا ناتا حقائق سے جڑا رہتاہے۔ اس طرح لایعنیت اور بے معنویت اس کے
لغت سے خارج ہو جاتے ہیں ۔ سپنے بننا یا خیالی تصورات پیش کرنا اس کے دائرے
میں نہیں آتا۔ یہ ہے کو جو پہلے نہیں ہے، سے استوار کرتی ہے۔ کسی نشان کا
نیاحوالہ اور نیا مفہوم دریافت کرنا اس کی ذمہ دار ی میں آتا ہے۔
ڈاکٹر دیویندارسر کا کہنا ہے:
ہر متن اپنی مخصوص ساخت اور شکل میں ہی اپنے معنی حاصل کرتاہے۔ یہ ساخت
دوسری ساختوں کے انسلاک اور دریت کے باوجود جب تک اپنی انفرادیت اور خصوصیت
شناخت قائم رکھتی ہے تو اس کا معاملہ اسی ساخت کے تحت کرناہی موزوں
ہوگاکیونکہ ایک ساخت کی تشکیل (اور لاتشکیل) کے لئے جوہنر اور آلات درکار
ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ دوسری ساخت کے لئے بھی کارآمد ہوں
نشان کی جو موجودہ شکل ہے یا رہی ہوگی اس کے اندر کو ٹٹولاجائے گا۔ اسی کے
مطابق مفاہیم (مدلول) دریافت کئے جائیں گے۔ نشان نہیں تومدلول کیسا؟ پہلے
نشان پھر مدلول ۔ سارتر کی وجودیت بھی تو یہی ہے۔ وجود پہلے جوہر اس کے بعد
۔وہ جیسا بنتاہے، ویساہی ہوتاہے۔نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم ۔ وجودسے
وابستہ مفاہیم نظریات مستر دہوسکتے ہیں،وجود نہیں۔ وہ جیسا بنتا جائے
گاویسا ہی ہوگا۔
ایمان کم یا زیادہ ہوتا رہتاہے۔ اسی طرح وجود سے وابستہ مفاہیم اور نظریات
بھی بدلتے رہتے ہیں ۔ گویا وجود ایک خود مختار اکائی ہے اس کے ساتھ منسوب
حرکت اور فعلیت بدلتی رہتی ہے۔ ایک ہی نشان ’’آدمی‘‘ کے ساتھ چوکیدار ،
کلرک ، تحصیلدار ، امیر ،گرےب ، مقامی ، غریب ، فقیر ، بادشاہ ، ولی ، نبی
، دیالو،کنجوس ، رکھوالا ، چور ،قاتل ،جھوٹا ، راست باز، شیطان ، نیک ،
جاہل ،عالم وغیرہ ہزار وں منفی و مثبت مدلول وابستہ ہوتے ہیں ۔نشان نے خود
کو جیسا بنایا ہوتاہے وہ ویسا ہی توہوتا ہے ۔ قرات کے دوران قاری معدوم
ہوکر بطور نشان متحرک ہوتاہے۔ وہ جیسا خود کو بناتاہے ویساہی بنتا چلا
جاتاہے۔
جب حر ف کار نے اڑن کھٹولے کا تصویر پیش کیا تو بظاہر بے معنویت اور
لایعینت سے منسلک تھا لیکن پسِ ساخت نشان ’’اڑان‘‘ موجود تھا۔ نشان اڑان
کبھی بے معنویت اور معدومی سے دوچار نہیں ہوا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ’’اڑن
کھٹولے‘‘کا نظریہ دیتے وقت حرف کار ’’تھا‘‘ یا معدوم ہوچکاتھا۔ پہلی صورت
میں (تھا) اڑن کھٹولے کاتصور وضع نہ ہوتاجو اس کے مشاہدے میں نہیں تھا کیوں
اورکیسے وجود حاصل کرسکتاتھا ۔ وہ (مصنف) نہیں تھا لیکن تصوراڑان تھا ۔
تصور نے وجود میں آنے کے لئے مصنف کو بطور آلہ کار استعمال کیا۔ یہ بھی کہ
سوچ اڑن کھٹولے کے مٹیریل ،خلا اور کئی اس سے متعلقہ حوالوں سے جڑ گیا تھا۔
پسِ شعور اورنگ ِسلیمان موجو د تھا۔ ذرا پیچھے مڑیں' حضور کریم اور براق کے
تصور کو موجود پاتے ہیں۔ معاملہ ذرا آگے بڑھا تو نشان ’’اڑان‘‘ہی کے اندر
سے معنی ’’ہوائی جہاز ‘‘ برآمدہ ہوئے یہ کوئی آخری تشریح نہیں ہے اور نہ ہی
آخری مکتوبی تبدیلی ہے۔ ’’اڑان ‘‘کی اس کے بعد بھی قرات ہوتی رہے گی اور اس
کے مدلول بدلتے رہیں گے کیوں کہ ردِ ساخت کاعمل ہمیشہ جاری رہتاہے۔ تفہیم
وتشریح کا سفر ماورائیت سے بالا تر رہتا ہے۔ اس کا حقیقی اور واقعی سے رشتہ
استوار رہتا ہے۔
ساختیات اگر ماورائیت پر استوار ہوتی تو کب کی معدوم ہوکر نئی معنویت سے
استوار ہوچکی ہے ۔ نشان ’’ساختیات‘‘ بطور وجود موجود ہے لیکن اس سے وابسطہ
مفاہیم بدل رہے ہیں اور بدلتے رہیں گے۔ آنکھیں بندکرنے سے بلی نہیں ہوتی اس
میں غلط کیاہے۔ بند آنکھوں کے حوالہ سے ساختیات کہتی ہے بلی نہیں ہے۔ کھلی
آنکھوں کی صورت میں بلی ہے اور یہی سچائی ہے ۔ یہ مفاہیم دیگر کرّوں (بند،
کھلی) سے رشتہ استوار ہونے کے سبب وضع ہوتے ہیں۔بصورت دیگر آنکھیں محض
بینائی کا آلہ رہے گا۔ ناصرعباس نیر نے بڑی خوبصورت بات کہی ہے:
ساختیات دراصل ساخت کے عقب میں موجود رشتوں کے اس نظام کی بصیرت ہے جسے علم
وفکر کی متنوع جہتوں نے مس کیا (ہوتا) ہے
ناصر عباس نیر نے معلوم مگر عدم وجود کو کسی نشان کے حوالہ سے وجود دینے کو
ساختیات سے پیوست کیاہے۔ انہوں نے وجود (نشان) کی حقیقت کی واضح الفاظ میں
تصدیق کی ہے جوساخت کو اہم قرار دینے کے مترادف ہے۔
سچائی کوئی خودسر، خود کاراورخود کفیل اکائی نہیں ہے جو اس کا زندگی کے
دوسرے حوالوں سے رشتہ ہی نہ ہو۔ آنکھیں بندکرنا زندگی کاایک حوالہ ضرور ہے
۔ اس کا عملی نمونہ 1857 سے پہلے کا لکھنو ہے جو نواب شجاع الدولہ کی شکست
کا نتیجہ تھا
ساختیات آنکھیں بند کرنے کے عمل سے رشتہ کیوں ختم کرے۔ اس نے بلا امتیاز
(منفی اور مثبت) پوری دیانت اور رواداری سے تعلقات کو وسعت دینا ہے۔ یہاں
ہیگل کے ضدین کے فلسفے کو بطور مثال لیا جا سکتا ہے۔ ہے، نہیں ہے اور نہیں
ہے، ہے کی شناخت ہے۔
اس ضمن میں ڈاکٹر فہیم اعظمی کا کہناہے:
کسی چیز کوجاننے کامطلب یہ ہوا کہ ہم اسے لسانی نظام کے تحت ایک نام دیتے
ہیں یا پہلے سے دئیے ہوئے نام سے اسے منسلک کرتے ہیں۔ ایساکرتے وقت ہمارے
تصور میں صرف اس چیز کی شکل نہیں ہوتی بلکہ وہ تمام چیزیں ہوتی ہیں جس سے
یہ چیز مختلف ہوتی ہے
اس نظریے کے تناظر میں ہے، نہیں ہے، دونوں متوازی رواں دواں ہیں۔دونوں کے
جلو میں لاتعداد مفاہیم چل رہے ہیں۔ یہ بھی کہ ان کے اندر ابھی لاتعداد
مفاہیم کاسمندر ٹھاٹھیں ماررہا ہے۔ بند، کھلی اور بلی تو محض ڈسکورڈ کرّے
ہیں۔
مصنف بیک وقت مصنف، قاری، شارح ،ماہر لسانیات اور نہ جانے کیا کچھ ہوتاہے۔
لکھتے وقت وہ فنی تقاضے پورے کر رہاہوتاہے۔ ساتھ میں موجو دکو ردّ کرکے کچھ
نیا دے رہاہوتاہے۔ یہ عمل اگلی اور نئی قرات کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اس
حوالہ سے ہی وہ مختلف شناختی حوالوں کا حامل ہوتاہے۔ وہ لفظ کی معنوی اور
تشریحی تاریخ سے آگہی کے سبب مختلف ناموں سے پکار اجاتاہے ۔تاہم اس ضمن میں
اس حقیقت کو پس پشت نہیں ڈالاجاسکتا کہ اگر وہ مخصوص سے منسلک رہے گا یاپھر
کسی مرکزے کی پابندی کرے گا توپہلے کو رد کرکے کچھ نیا پیش نہیں کرسکے گا۔
لکھتے یا تشریح کرتے وقت اس کا سوچ مختلف لسانی وتہذیبی کرّوں میں متحرک
ہوگا۔ لفظ اِسی تناظر میں تحریر کا روپ اختیار کرتے ہیں ۔کسی نشان کے جنم
میں بھی یہی عمل کارفرما ہوتاہے۔
کسی تشریح ،توضیح ، تفہیم اور موقف کو رد کرنے کے ضمن میں ڈاکٹر فہیم اعظمی
کا یہ بےان خصوصی توجہ چاہتاہے:
جب کوئی شخص کلام کرنے کے بعد اپنے موقف سے مطمن ہوجاتاہے تووہ صرف گمراہ
نہیں بلکہ غلطی پر ہوتاہے ہر وہ بات جوکہنے والے کوغیر مانوس نہیں معلوم
ہوتی یا جس میں تبدیلی لانے کی خواہش پید انہیں ہوتی،غلط ہے‘‘۔ ایسی سچائی
جس میں زبان کے تضادات کے امکانات کو ختم کرنا مقصود ہوتاہے، فوراً جھوٹ بن
جاتی ہے
ویکو نے شعری ذہانت دانشکا تصور پیش کیا تھا ۔ ساختیات کا سارا فلسفہ اسی
اصطلاح پرا نحصار کرتاہے۔ مصنف قاری یا ان سے منسوب رشتوں کے انکار کے بغیر
رد ساخت کا عمل لایعنی اور بے معنی ٹھہرتاہے۔ اس مقام پر لسانی وسماجی، ان
گنت رشتے متحرک ہوتے ہیں۔
شعری ذہانت دانش کو جناب امیر کے کہے سے پیوست کریں، کہے کو دیکھیں کہنے
والے کومت دیکھیں ،یہ مصنف کی مو ت کا کھلا اعلان ہے اور کہے کی تفہیم کے
لئے ’’کہے کے‘‘ اندر کے ثقافتی سسٹم کی طرف توجہ دینے کی ضرورت کو اہم قرار
دیا گیاہے۔ ان کی مدد اور ان کے کسی حوالہ سے فکر مزید آگے بڑھنے کی پوزیشن
میں ہوگی۔ یہ بھی کہ ان کوکسی نئی فکرکے تحت قاری ردّ تو کرسکے گا۔ بہرطور
یہ مفاہیم لفظ کے باطنی ثقافتی نظام کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوسکیں گے۔
ساختیات کے مفکرین
ٹی ٹوڈوروز،دریدہ ، رولاں بارتھ، جولیا کرسنوا، سوسیئر ، شولز، جیکس لاکاں
، جوناتھن ، سٹیلے فش ، فریڈرک چمبرسن ، گولڈ مین وغیرہ، ساختیاتی فکر پر
کام کرنے والوں میں اپنا منفرد نام رکھتے ہیں ۔
ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے ٦٧٩١ میں جبکہ ڈاکٹر سلیم اخترنے میں ساختیات کا
تعارفی مطالعہ پیش کیا ۔ میں ڈاکٹر بارمیٹکاف (امریکن) نے اور لنڈا ونٹنک
(امریکن خاتون) نے انور سجاد کے افسانے ’’خوشیوں کابا غ‘‘ کا ساختیاتی
مطالعہ پیش کیاہے۔میں ڈاکٹر محمد امین نے مقصود حسنی کے مقالہ ’’بلھے شاہ
کی شاعری کا لسانی مطالعہ‘‘( مشمولہ کتاب ’’ اردو شعر ، فکری ولسانی روئیے
‘‘مقالہ نمبر٣) کو اردو میں ساختیات پر پہلی کتاب قرار دیا کہ جس میں کسی
شاعر کا باقاعدہ ساختیاتی مطالعہ کیا گیاہے
ساختیات پر شائع ہونے والی قابلِ ذکر کتابیں۔
تخلیقی عمل ازڈاکٹر وزیر آغا
تنقید اور جدید تنقید از ڈاکٹر وزیر آغا
دستک اس دروازے پراز ڈاکٹر وزیر آغا
ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شاعری از ڈاکٹر گوپی چند نارنگ
ساختیات پر کام کرنے والوں دستیاب مختصر تفصیل
ابن فرید، باقر مہدی ، ابوذر عثمانی ، ابوالکلام قاسمی ، احمد سہیل ،جمیل
آزار ، جمیل علی بدایونی ، ڈاکٹر دیویندراسر، رب نواز مائل، ریاض احمد ،
ڈاکٹر شکیل الرحمن،شمیم حنفی ، قمر جمیل ، ڈاکٹر عامر سجاد، عامر عبداللہ ،
ڈاکٹر فہیم اعظمی ، ڈاکٹر محمدامین ، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، مقصود
حسنی، ناصر عباس نیر، وارث علوی وغیرہ نے اردو میں ساختیات پر مقالات تحریر
کئے۔
رسائل
ماہنامہ ’’سخن ور‘‘کراچی، دریافت، بازیافت (لاہور)، ’’اوراق ‘‘سرگودھا،
ماہنامہ ’’فنون ‘‘لاہور، ماہنامہ ’’علامت ‘‘لاہور ، ماہنامہ ’’صریر ‘‘کراچی
وغیرہ میں ساختیاتی فکر پر مقالات شائع ہوئے ۔
ماہنامہ ’’صریر‘‘ کراچی نے ساختیاتی فکر سے متعلق فکر انگیز مراسلے بھی
شائع کئے۔
جن کتب سے استفادہ کیا گیا
دیوان درد،مرتبہ خلیل الرحمن داؤدی
یاد گار غالب،الطاف حسین حالی
ساختیات پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ
اردو کی زبان، ڈاکٹر سہیل بخاری
مغرب کے تنقیدی اصول، ڈاکٹر سجاد باقر رضوی
ادب اور تہذیب کی شعریات ،ڈاکٹر دیو یندراسر
نوائے سروش از غلام رسول مہر
بیان غالب از آغا باقر
شرح و متن غزلیات غالب از ڈاکٹر فرمان فتح پوری
قاموس مترادقات ، وارث سرہندی
فرہنگ آصفیہ ج ١، احمد دہلوی
فرہنگ عامرہ ، عبداللہ خویشگی
اظہر الغات، الحاج محمد امین بھٹی
فیروز اللغات،مولوی فیروز الدین
آئینہ اردولغت، علی حسن چوہان وغیر ہ خالد بکڈپو ، لاہور
نور اللغات (عربی) مولف ایم ڈی چوہدی
فرہنگ فارسی ،مولف ڈاکٹر محمد عبدالطیف
فیروز اللغات (فارسی) ،مولوی فیروز الدین
ماہنامہ ’’صریر‘‘ کراچی،
1993
فروری' مئی' اگست
1994
ستمبر' اکتوبر' دسمبر
1995
فروری' مئی' جون' جولائی نومبر سالنامہ
1996
فروری اپریل |