اپنی زندگی میں زندگی کودوسروں کی زندگیوں کے نام کرنے والے کتنے عظیم لوگ ہوتے ہیں

آج اِس پُرآشوپ دورمیں بے شک ...!!وہ کتنے عظیم لوگ ہوتے ہیں...؟؟ جو اپنی زندگی میں زندگی کو دوسروں کی زندگیوں کے نام کردیتے ہیں، ویسے تو ایسے لوگ ہرزمانے کی ہر تہذیب کے ہر معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابرہوتے ہیں مگریہ جتنے بھی ہوتے ہیں وہ ہرزمانے کی ہرتہذیب کے ہرمعاشرے میں درخشنداں ستارے ہوتے ہیں اور جب یہ چمکتے ہیں تو تہذیبیں چمکتی ہیں،نسلیں ٹمٹماتی ہیں معاشرے جگمگاتے ہیں،ترقی کی شاہرائیں روشن ہوتی ہیں اور مُلک اور قوموں کی قسمت ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجاتی ہے ۔

میرے مُلک میں بھی ایسے عظیم اور درخشنداں لوگوں کی کمی نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ہوسکتی ہے، خواہ دُشمنانِ قوم وملت اور اِنسانیت کی فلاح کے دُشمن چاہئے جتنے بھی ایسے بے باگ و نڈرلوگوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنالیں مگر میرے دیس میں موجود اچھے اور عظیم لوگ اپنے جذبہ اِنسانیت اور خدمتِ انسانیت کے ساتھ جوق درجوق سامنے آتے رہیں گے اوروہ یوں ہی اپنی زندگی میں زندگی کو دوسروں کی زندگیوں کے نام وقوف کرکے اپنے حصے کاکام کرتے ہوئے گزرجائیں گے اَب اِس پر کوئی یہ ہرگزنہ سمجھے کہ میرے مُلک میری تہذیب اور میرے معاشرے کے اچھے اور اِنسان دوست لوگ کسی کی گولی کا نشانہ بننے سے ڈرجائیں گے اوروہ کہیں جاکر چھپ جائیں گے اور اندھیرے میں اُجالے کے متلاشی اِنسانوں کو دربدربھٹکنے کو چھوڑ دیں گے .... بلکہ ایسانہیں ہے اَب جتنادُشمنانِ قوم و ملت اِن پر گولیاں چلائیں گے میری تہذیب ، میرے مُلک اورمیرے معاشرے کے اچھے اور قابل لوگ اپنے عزم و ہمت سے اُتناہی عوام کی خدمت کی نیت سے فرنٹ پر آتے جائیں گے اور اپنے حصے کا کام کرتے جائیں گے یہ عظیم لوگ کسی ڈرپوک کی گولی کا نشانہ بننے سے نہیں ڈرتے ہیں بلکہ آج ڈرپوک اِنسان اپنے گھناؤنے عزائم کو پروان چڑھانے کے لئے اپنی گولی اور بھالے سے جتنابھی اِنہیں ڈرائیں گے میری تہذیب میرے مُلک اور میرے معاشرے کے یہ عظیم اِنسان اُتناہی سامنے آئیں گے اور اپناسینہ پُھولاپُھولاکر خدمتِ اِنسانیت کرتے رہیں گے اور اپنی نئی نسل کے ہاتھوں علم وفن کے قمقمیں تھماتے رہیں گے۔

آج بے شک...!!میری تہذیب میرے مُلک اور میرے معاشرے میں جامعہ کراچی شعبہ ابلاغِ عامہ کے اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹروحید الرحمان المعروف یاسررضوی ہوں،T2Fکی سربراہ سبین محمودہوں، لانڈھی فائربریگیڈکے فائرآفیسرغلام فریدالدین ہوں یاپروفیسرڈاکٹرجاویدقاضی،پروفیسرتقی ہادی،مفتی مولانامسعود،پروفیسرڈاکٹرشکیل اُوج ، پروفیسرسبطِ جعفراور پرنسپل ڈاکٹرڈیبرالوبواور دیگر (وہ عظیم شخصیات جن کے نام یہ سطورتحریرکرتے ہوئے راقم الحرف کو یاد نہیں ہیں )ہوں یہ میری تہذیب میرے مُلک اور میرے معاشرے کے وہ عظیم لوگ اور ہستیاں تھیں جنہیں میری دُشمنانِ قوم و مِلت نے محض اِس بناپر اپنی ناپاک گولیوں کا نشانہ بنادیاکہ یہ عظیم لوگ اپنے اپنے شعبوں میں رہتے ہوئے اِنسان اور اِنسانیت کی خدمت کے لئے پیش پیش تھے۔

آج خواہ حکومت اِن کے قاتلوں کو اِس بناپر گرفتارنہ کرسکے کہ شائد اِس کے نزدیک اِن لوگوں کا معاشرے میں ہونایانہ ہوناکوئی معنی نہ رکھتاہو....!! مگر آج یہ حقیقت ہے کہ میرے مُلک کے اُن لوگوں کے لئے جو اِن عظیم ہستیوں سے اپنے مستقبل روشن اور تابناک بنارہے تھے اور اِن کے علم و فن سے معاشرے میں علم کے دیئے جلارہے تھے اور اِن کی عوام دوست خصلت اور خدمتِ انسانیت کے جذبوں کو اپنے اندر بھی اسٹورکرنے اور پھیلانے میں متحرک تھے آج میری تہذیب میرے مُلک اور میرے معاشرے کی نئی نسل کے نوجوان اور علم کے طالب بچے اور بچیاں اِن عظیم لوگوں کی غیرموجودگی کی وجہ سے اپنے اردگردپیداہونے والا ایک ایساخلامحسوس کررہے ہیں جِسے یہ سمجھتے ہیں کہ اَب اِس خلاکو کوئی بھی تاقیامت پُرنہیں کرسکے گا اَب کیا علم کے حصول اور خدمتِ انسانیت کے جذبوں سے بیدارمیری نئی نسل کی بیتابی حکمرانِ وقت اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے اور اِنصاف دینے والے اداروں کے سربراہان میری تہذیب میرے مُلک اور میرے معاشرے کی اِن عظیم ہستیوں کو موت کی وادی میں دھکیل کر قبرکی آغوش میں پہنچادینے والے قاتلوں کو گرفتارکرکے عبرتناک سزائیں دلوانے کے لئے اپناکوئی کرداراداکریں گے ....؟؟یا وقت اور حالات گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ بُھلاکر معاشرے کو اُسی لاقانونیت کی ڈگرپر چھوڑدیں گے جس کے بعد دہشت گردپھر کسی صاحبِ علم وفن کو اپنی گولی کا نشانہ بنادیں...اور معاشرے کا ہر فردپھرحکومتی رِٹ نہ ہونے کا روناشروع کردے ۔

یہا ں افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ اگر آج میرے مُلک میں حکومتی رِٹ قائم ہوتی اور قاتلوں، دہشت گردوں اور دُشمنانِ قوم ومِلت کو قانون کے مطابق سخت سزائیں(جیساکہ آج فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد سلسلہ چل نکلاہے ایسی ہی سزائیں پہلے بھی) دینے کا کوئی نظام رائج ہوتاتو یقیناآج میری تہذیب میرے مُلک اور میرے معاشرے میں بھی دنیاکے دوسرے ممالک کی طرح قانون کی بالادستی قائم رہتی اور بلارنگ و نسل ، مذہب و مِلت اور امیر و غریب کی تفریق کے بغیر اِنصاف کا بھی بول بالاہوتااور پھر نہ کوئی وحیدالرحمان جیساپروفیسراور سبین محمودجیسی نڈرسماجی رہنمااور غلام فریدالدین جیساکوئی عوام دوست اور بہادرعوامی خدمت سے سرشارشخص کسی دہشت گردکی گولی کا نشانہ بنتااور نہ ہی دورکسی صحرامیں بنی جھونپڑی میں بیٹھاکوئی غریب کسی جابر فاسق و فاجر زمیندار، وڈیرے، جاگیرداراور سرمایہ دارکے ظلم وستم کانشانہ بن کر قبرکی آغوش میں جاسوتا....آج اگر میری تہذیب میرے مُلک اور میرے معاشرے میں موجود اُن اچھے لوگوں کو جنہوں نے اپنی زندگی میں زندگی کو دوسروں کی زندگیوں کے نام وقوف کردیاہے اِنہیں دُشمنانِ قوم وملت سے بچاناہے تو حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام کو تحفظ اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے سربراہان کو ضروراُن اچھے لوگوں کے قاتلوں کو عبرتناک سزائیں دینی ہوں گیں جنہوں نے قتل کئے ہیں۔(ختم)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 888748 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.