پاکستان میں انتخابات اور اختلافات
(Mir Afsar Aman, Karachi)
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت بہت اچھی ہے
اگر اسے اچھے طریقے سے استعمال کیا جائے۔مغربی ملکوں میں جمہوریت اچھے
طریقے سے استعمال ہوتی ہے اور وقت پر انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے نتائج
بھی اچھے ہوتے ہیں ہارنے والے جیتنے والے کو مبارک باد دیتے ہیں اور جیتے
والے اسے دل سے قبول بھی کرتے ہیں۔ اس طرح ملکوں کے انتظامات اچھے طریقے
اورسے تسلسل کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔جیتے والے عوام کے سامنے جس منشور کو
رکھتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔اور ہارنے والے اپنی کمزوریوں کوکا جائزہ
لیتے ہیں اور آیندہ بہتر کارکردگی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں۔
پاکستان میں اکثر کہا جاتا ہے کہ لنگڑی لولی جمہوریت ڈکٹیٹر شب سے بہتر
ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری جمہوری عمرکافی حصہ تو ڈکٹیٹر شپ کی نذر ہو گیا۔
جو جمہوری دور بچا وہ بھی اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کی چغلی کھاتا ہے۔ ابھی ابھی
کینٹینر اور چٹکلی جد و جہد کاتجزیہ کیا جائے تو کچھ ایسی ہی صورت حال نظر
آتی ہے۔کینٹینر والے عمران خان صاحب نے کہا تبدیلی آنے والی ہے۔۔۔تبدیلی آ
گئی ہے وغیرہ اور اسی جد وجہد میں۱۲۷ دن کینٹینر میں گزارے۔ اور بلا آخر
پشاور کے واقعے پر اپنا احتجاج ختم کر دیا۔ چٹکلی میں انقلاب لانے والے
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کہتے تھے حکمران آج گئے ابھی گئے بس کفن باندھ لو۔۔۔
بس انقلاب آ گیا وغیرہ۔ وہ بھی اندر ہی اندر ہمت ہار چکے تھے اور اپنے خیمے
اُکھاڑ کر بغیر انقلاب کے واپس کینیڈا چلے گئے۔ کیا اس میں اسٹبلشمنٹ نے
ہاتھ کھینچ لیا تھا یا کوئی اور وجہ تھی؟عمران خان صاحب کے حوالے سے جاوید
عاشمی صاحب نے عین وقت پر اس میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کا رونا رو کر عمران
خان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جس سے تحریک انصاف کو کافی نقصان پہنچا۔
ڈاکٹر طاہر قادری صاحب نے جب وہ پاکستان تشریف لائے تھے تو فوج کو حکم دیا
تھا کہ ائر پورٹ کاکنٹرول سنبھال لو ۔کیااس کے پیچھے بھی کسی کا وعدہ شامل
تھا؟ ان دونوں باتوں پر تجزیہ نگار اب تک تجزیے پر تجزیے پیش کر رہے ہیں کہ
اسٹبلشمنٹ کتنی ملوث ہے ۔ کوئی کہتا ہے یہ نیچے درجے کی اسٹبلشمنٹ کی
کاروائی تھی پوری اسٹبلشمنٹ ملوث نہیں تھی۔ کوئی کہتا ہے یہ نواز شریف صاحب
حکومت کو شٹ اپ کال تھی۔ اور اُس رویہ پر تھی جو اس نے حساس ادارے کے
سربراہ کے بارے اختیار کیا تھا۔اور کوئی کہتا ہے کہ اسی رویے کی وجہ سے
اسٹبلشمنٹ نے ملک میں جمہوری طریقے سے مارشل لا لگا دیا ہے۔جمہوری وزیر
اعظم کے بجائے آرمی چیف کے بیرونی دورے اس کے ثبوت ہیں۔جہاں تک جمہوری
مارشل لا کا تعلق ہے یہ تجزیہ صحیح نہیں۔ جو کچھ ہوا وہ قانون کے مطابق ہوا
اور ایسا ہی ہونا چاہییے تھا۔ بقول شخصے دشمنوں نے ہمارے ملک کی اینٹ سے
اینٹ بجا دی تھی اور صرف اور صرف فوج نے اسے کنٹرول کیا۔ تجزیے کچھ بھی ہوں
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ فوج ملک معزز ترین کا ادارہ ہے۔ فوج
دہشت گردی کے خلاف لڑ رہی ہے وہ عوام کی محافظ ہے۔ فوج کااحترا م وقت کی
حکومت اور عوام پر فرض ہے۔ ویسے بھی ملک کے تمام اداروں کی حفاظت اور
احترام اور ان کو باعزت مقام دینا حکومت وقت کا کا م ہوتا ہے جس میں نواز
شریف صاحب کی حکومت بوجہ مکمل طور پر پوری نہیں اُتر سکی۔ جس کا ثبوت
دھاندلی کے خلاف جد وجہد کے دوران نوز شریف صاحب حکومت کا کہنا کہ اس کے
پیچھے اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔صاحبو!پاکستان میں جموریت کیوں صحیح طریقے پر
پنپ نہ سکی اس کی کئی وجوہات ہیں۔پاکستان کی آبادی تقریباً ۷۰ فی صد دہیات
پر مشتمل ہے۔
جاگیرداروں ،وڈیروں اور بااثر لوگوں نے کسانوں اور عام آدمی کو غلام بنا
رکھا ہے جب کہ وہ خود شہروں میں بڑے محلات میں رہتے ہیں۔پولیس اور اپنے
بندوں کی مدد سے عوام کو خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ الیکشن میں وہ ان کے علاقوں
سے سیاست کرتے ہیں۔ ہمیشہ جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔انتظامیہ کے ساتھ مل کر پہلے
ووٹر لسٹوں میں غلط اندارج کراتے ہیں۔ پھر اپنی مرضی سے الیکشن اسٹاف
تعینات کیا جاتا ہے ۔ الیکشن کے دوران دوسرے علاقوں سے بسوں میں بھر بھر کر
لوگوں کو لاتے ہیں اور جعلی ووٹ کاسٹ کرواتے ہیں۔ جو جتنا طاقت ور ہوتا ہے
وہی اتنی سیٹیں حاصل کر لیتا ہے۔ الیکشن طاقت اور پیسے کے زور پر لڑا جاتا
اور جیتا جاتا ہے۔ یہی حالات شہری علاقوں کے بھی ہیں۔ پھر ہارنے والے جیتنے
والوں پر الزام لگاتے ہیں۔الیکشن جیتنے کے بعد واپس اپنے علاقوں میں نہیں
جاتے۔ عوام جیتنے والوں کی رہ تکتے رہتے ہیں۔ یہ تسلسل ہمیشہ سے جاری و
ساری رہتا ہے۔ پاکستان میں الیکشن کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے کیا ہم
اپنے پڑوسی ملک بھارت سے الیکشن کے بارے میں تقلید نہیں کر سکتے۔ ان کی بھی
آبادی کم و بیش ہم جیسی ہے ۔انہوں نے اپنا الیکشن کا نظام درست کر لیا ہے۔
اگرہم اپنے ملک میں بھی ان جیسا نظام رائج کر لیں تو ہم بھی دنیا میں سرخ
رو ہو سکتے ہیں اور آئے دن الیکشن کے جھگڑوں سے جان چھوٹ سکتی ہے۔ جمہوری
دنیا میں جمہوری طریقے سے پارلیمنٹ کے ذریعے سارے کام کیے جاتے ہیں ہماری
پارلیمنٹ میں بھی الیکشن اصلاحات کمیٹی بھی بنی ہوئی ہے۔ اصلاحات کمیٹی کو
بھی اس پر کام کرنا چاہیے۔ الیکشن کے حوالے ایک اور عرض ہے کہ منتخب
حکومتیں پارلیمنٹ میں تو چلی جاتی ہیں مگر وہ اپنے مفادات کے تحت نچلی سطح
پر بدیاتی انتخابات نہیں کرواتیں۔
عدالتیں حکمرانوں کو کئی کئی دفعہ کہہ چکیں کہ ملک کے اندربدلیاتی انتخابات
کروائیں۔ حکمران صوبائی حکومتیں اس میں ٹال مٹول کرتی رہیں۔ بلا آخر
عدالتوں نے ان سے ان انتخابات کی تاریخیں مانگیں اور اب الحمد اﷲ پاکستان
کے کنٹونمنٹ کے انتخابات فوج کی نگرانی میں مکمل ہو گئے۔ اب بلدیاتی
انتخابات بھی ہونے والے ہیں یہ بھی فوج کی نگرانی میں ہوں تو بہتر ہے۔ اگر
الیکشن خوش اسلوبی سے ہوتے رہتے تو ہمارے ملک میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے
پر دھاندلی کے الزامات لگانے کے بجائے ترقیاتی کام کرتے تو عوام کا بھلا
ہوتا۔ ان ہی خرابیوں کی وجہ سے صدارتی آرڈینس کے تحت اعلیٰ عدالت سپریم
کورٹ کے معزز ججوں پر مشتمل الیکشن تین رکنی ٹریبیونل بنا ہے اب ان شاء اﷲ
دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گے۔ اﷲ کرے اس ٹریبیونل کا فیصلہ
پاکستان میں سکون کا بعث بنے اور حکمران آپس میں لڑنے کے بجائے عوام کی
خدمت میں لگیں ۔ہمارے ملک میں سیاست دان جتنا وقت ایک دوسرے سے اختلافات
میں گزارتے وہ عوام کی خدمت میں لگائیں تا کہ پاکستان ترقی کرے عوام کے
مسائل حل ہوں آمین۔ |
|