تبلیغی جماعت سب سے بڑی پرامن عالمی تحریک !
(Shams Tabrez Qasmi, India)
بیسوی صدی میں ہندوستان کا اکثر
حصہ زمانہ جاہلیت کے رنگ میں رنگ چکا تھا ۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے
درمیان کوئی حدا متیاز چیز باقی نہیں رہ گئی تھی ۔ زندگی کے تمام شعبوں میں
ہندوانہ رسم وراج سرایت کرچکی تھی مسلمان صرف اپنے ناموں کی وجہ سے مسلمان
تھے اور بس ۔ ایمان کے بنیادی ارکان نماز ، روزہ ، زکوۃ ا ور حج جیسی باتوں
سے بھی وہ مکمل طور پر ناواقف تھے ۔ انہیں یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ نماز،
زکوۃ ،روزہ اور حج کیا چیز ہے ۔ اس کی ادائیگی کیسے کی جاتی ہے ۔اسلام میں
اس کی کیا حیثیت ہے ۔اکثریت تو ان میں ایسی تھی جنہیں کلمہ شہاد ت تک کا
بھی پتہ نہیں تھا ۔ان کے پاس اپنے مسلمان ہونے کی دلیل صرف یہ تھی کہ ان کی
ولادت ایک مسلم گھرانے میں ہوئی ہے ۔ دوسری طرف عیسائت کی تبلیغ بہت زور
وشور سے چل رہی تھی ۔ انگریز حکومت کے زیر سایہ عیسائی پادری ہندو اور
مسلمان دونوں کے درمیان عیسائت کی تبلیغ کررہے تھے ۔ ہندوستان کی اس نازک
صورت حال میں غیر مسلموں کو مسلمان بنانے سے زیادہ ضرور ی یہ تھاکہ جو
مسلمان ہوچکے ہیں انہیں راہ ارتداد سے بچایا جائے ۔ ان تک دین حنیف کی صحیح
تعلیم پہچائی جائی ۔ انہیں مذہبی احکام کا پابندبنایا جائے ۔ ضلالت وگمراہی
کے اندھیروں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف انہیں گامزن کیا جائے ۔حضرت
مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ کو اﷲ تبارک وتعالی نے
ہندوستان میں اس فریضے کی بنیاد ڈالنے کی توفیق بخشی اور پھر حالات کا
جائزہ لینے کے بعد انہوں نے بے یارو مددگاری کے عالم میں اپنوں کی مخالفت
کے باوجود مسلمانوں کے درمیان تبلیغ کا سلسلہ شروع کردیا ۔اپنوں نے ہی ان
کے طریقہ کا رپر سوال قائم کیا کہ مسلمانوں کے درمیان تبلیغ چہ معنی دارد !لیکن
ان تمام مخالفتوں کے باوجود انہوں نے منشاء خداوندی کو سمجھتے ہوئے میوات
کی سزمین سے یہ کام شروع کیا جہاں کے مسلمان سب سے زیادہ سخت گیر اور مذہب
بیزار مانے جاتھے۔ انہیں اس بات پر اچھی طرح شرح صدر ہوگیا کہ اس وقت سب سے
زیادہ ضرور ت تبلیغ کی خود مسلمانوں کو ہے ۔ غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں
داخل کرنے کے بجائے انہیں اپنے ایمان کی شناخت کرانا زیادہ ضرور ی ہے جو
مذہب میں داخل ہونے کے باوجود بھی مذہب نا آشناہیں ۔ اعمال سے بالکیہ محروم
ہیں ۔ مسلمان ہونے کے باوجود جہنم میں جانے کے اسباب پر عمل پیرا ہیں ۔
رفتہ رفتہ مولانا کے مخالفین بھی ان کے ساتھ ہوگئے ۔ سبھی نے یہ اعتراف کیا
کہ ہاں مولانا الیا س کے ذریعہ اٹھایا گیا قدم صحیح اور بر وقت لیا گیا
فیصلہ تھا ۔ آج اگر مسلمانوں کے عام اور جاہل گھرانوں میں دینی ماحول پایا
جاتا ہے ۔ ان کے اندر نمازہ اور روزہ کی پابندی ہے ۔ انہیں کلمہ اور قرآنی
کریم کچھ آیتیں یاد ہیں۔دیہات اور دور دراز کی مسجدیں آباد ہیں تو یہ یقینی
طور پر اس جماعت کی محنت کا نتیجہ ہے ۔
آج تبلیغی جماعت اپنی نمایاں خصوصیات اور منفرد اوصاف کی وجہ سے پوری دنیا
میں امتیازی حثیت سے جانی اور پہچانی جانے لگی ہے ۔ یہ واحد مذہبی جماعت ہے
جس کا سیاست سے ذرہ برابر بھی کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہاں فنڈنگ ا ور چندہ کا
کوئی نظام نہیں ہے ۔ نشرو اشاعت کا کوئی محکمہ نہیں ہے ۔ اخبارات اور ٹیلی
ویژن کی زینت بننے سے انہیں شدید نفرت ہے ۔ نام و نمائش اور شہرت سے یہ
ہزاروں کوس دور رہتے ہیں۔ ان کے خلاف دنیا بھر کے پولس اسٹیشنوں میں کہیں
بھی کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہے ۔ کسی طرح کے تشدد اور منفی سرگرمیوں میں
یہ جماعت حصہ نہیں لیتی ہے ۔ پوری دنیا کے کسی بھی ملک نے آج تک ان پر تشدد
آمیز سرگرمیوں سے وابستہ ہونے کا شائبہ تک نہیں کیا ہے ۔ملکی قوانین کو سر
آنکھوں سے لگاکریہ جماعت اپنے کاموں کو انجام دیتی ہے ۔ ان کے خلاف جو
بولتے ہیں یہ جماعت انہیں بھی کوئی جواب نہیں دیتی ہے ۔ محبت و الفت کے
ساتھ یہ دعوت وتبلیغ کرتے ہیں ۔سادگی اور انسانیت نوازی اس کی فطرت میں
شامل ہے ۔ 1926 میں تبلیغی جماعت کا قیام عمل میں آیا تھا ۔81 سال کے عرصہ
میں یہ جماعت ایک عالمگیر تحریک بن چکی ہے ۔ دنیا کے 210 سے زائد ممالک میں
یہ کام انجام پارہا ہے ۔30 ملین سے زیادہ افراد دنیا بھر میں اس سے وابستہ
ہیں ۔ اس جماعت پر بارہا پابندی عائد کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن اس خیال
کے حاملین کوایسا کوئی موقع نہیں مل سکا ۔ تبلیغی جماعت کے طریقہ کار اور
ان کے نصاب میں ایسا کوئی پوائنٹ انہیں نظر نہیں آیا جسے بہانہ بناکر ان پر
پابندیاں عائد کرتے ۔
پنڈت نہرو کے زمانے میں ایک مرتبہ پالیمنٹ میں تبلیغی جماعت کے بارے میں
سوال اٹھائے گئے ۔ارکان پارلیمنٹ نے یہ مطالبہ کیا کہ اس جماعت پر پابندی
عائد کردی جائے کیوں کہ یہ لوگ کاندھے پر بستر اٹھائے ہمیشہ ملک میں ادھر
سے ادھر سفر کرتے رہتے ہیں ۔ یہ ذریعہ معاش نہیں اپناتے ہیں ان کی وجہ سے
ہمارے ملک کی معیشت پر بھی اثر پڑتا ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ لوگ ہمارے غریب
ملک پر بوجھ ہیں ۔ وزیر اعظم پنڈٹ نہرو نے اس معاملے میں وزیر تعلیم مولانا
ابو الکلام آزاد سے ان کی رائے جاننی چاہی تو مولانا نے ایک مختصر سے جملہ
میں اپنا جواب دیا کہ’’ اس عالمی تحریک پر پابندی لگانا تمام دنیا کے ملکوں
بالخصوص عرب ملکوں سے دشمنی مول لینا ہے ‘‘ جب اس کی وضاحت طلب کی گئی تو
آپ نے فرمایا کہ اس جماعت کی وجہ سے ہمارا او ر ملک کا کوئی نقصان نہیں ہے
ہم اور ہماری حکومتیں جو عربوں سے مدد لینا چاہتی ہے ان کے سامنے یہ پیغام
جائے گا ہندوستان ایمان، کلمہ اور نماز کی محنت کرنے والی جماعت پر پابندی
لگادی ہے یعنی اسلام پر ۔ اور جب یہ گمان ہوگا تو ہماری مد د کیسے کریں گَے
کیوں کہ اسلام پر پابندی لگانے کا الزام ہمارے سر آئے گا۔اور اس کام کی
پابندی پر نفع کم اور نقصان زیاد ہ ہوگا۔(کیا تبلیغی کام ضروری ہے؟، ص 385)
ابتدا میں ہندو افسروں کو اُن کے گشت کرنے، ملک میں ایک شہر سے دوسرے شہر
جانے اور جگہ جگہ جلسے کرنے سے وحشت ہوتی تھی لھذا انہوں نے اس کی تفتیش
شروع کردی ۔جب باریکی سے جائزہ لیا تو یہ اعتراف کیا کہ یہ کلمہ اور نماز
کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کرتے ہیں ۔ ان پر شک کرنے کوئی بھی گنجائش نہیں
ہے۔1975 ء میں مسز اندرا گاندھی نے جب ایمرجنسی لگائی تو ہر غیرکانگریسی
جماعت کو غیرقانونی قرار دے کر اس پر پابندی لگادی۔ اور اس کے ذمہ داروں کو
جیل میں ڈال دیا لیکن تبلیغی جماعت کو کسی نے نہیں چھیڑا۔2001 میں آئی بی
نے سی این اے کو یہ رپورٹ پیش کی تھی کہ تبلیغی جماعت والوں کا القاعدہ سے
کہیں نہ کہیں کوئی رشتہ ہے لیکن سی این اے یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا ثبوت
کے بغیر یہ کیسے کہاجاسکتا ہے ۔
مودی حکومت کے اس ایک سال میں عام مسلمانوں کے ساتھ تبلیغی جماعت کے خلاف
بھی شکنجہ کسا جانے لگا ہے ۔ اب تک تبلیغی جماعت والوں پر کئی حملے ہوچکے
ہیں ۔ یکم مئی کو شاملی میں ہونے والا حملہ ان دنوں زیر بحث ہے ۔واقعہ یہ
ہے کہ ممبئی کے ایک اجتماع میں جارہے جماعت کے ساتھیوں کی شدت پسندوں نے
جنتا ایکپریس ٹرین میں پٹائی کی اور ان کے ساتھ زدو کوب کیا۔اسی کے ساتھ
مرکزی حکومت براہ راست اس جماعت پر پابندی لگانے کا بہانہ تلاش رہی ہے ۔
حال ہی میں وزارتِ داخلہ نے ایک خط لکھ کر ریاستی سرکاروں کو یہ ہدایت دی
ہے کہ اُن غیرملکی مبلغین پر نظر رکھی جائے جوسیاحتی ویزوں پر ہندوستان آتے
ہیں مگر تبلیغ میں لگ جاتے ہیں اور اس طرح ویزوں سے متعلق اصولوں اورضابطوں
کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کوملک بدر کیاجائے اوران کے ناموں کی
فہرست مرکزکوبھی سونپی جائے تاکہ آئندہ کے لیے ملک میں ان کے داخلے پرروک
لگائی جاسکے۔ مرکزی وزارتِ داخلہ کے مکتوب میں تبلیغی جماعت کا نام شامل
نہیں ہے لیکن چونکہ تبلیغ کے کام میں یہی جماعت سرگرم ہے اس لیے مسلم حلقوں
میں بھی اورغیرمسلم حلقوں میں بھی سمجھا یہی جارہا ہے کہ مرکزی وزارتِ
داخلہ نے تبلیغی جماعت کا نام لیے بغیرغیرملکی مبلغین کا بہانہ بنا کر اسی
کو نشانہ بنایا ہے ۔
تبلیغی جماعت ایک عالمی تحریک بن چکی ہے ۔ یہ بر صغیر سمیت پوری دنیا میں
راہ راست سے بھٹکے مسلمانوں کو دین مستقیم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی
تبلیغ کرتی ہے ۔ کاندھوں پر بستر اٹھائے پوری دنیا میں گاؤں گاؤں بستی بستی
جاکر یہ جماعت صرف اور صرف مسلمانوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ اسلام کے سا تھ
اپنی زندگی میں عمل کو بھی لے آؤ ۔ قرآن وحدیث کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر
سچے مسلمان ہونے کا ثبوت پیش کرو ۔ اس جماعت کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال
نہیں ملتی ہے کہ اس نے حکومت سے ٹکرانے کی کوشش کی ہو۔ کسی بھی طرح کے
قانون کی خلاف وزری کی ہو ۔ کسی کی دل آزاری کی ہو ۔ کسی بھی مذہب یا مسلک
کو اس کے طرز عمل سے کوئی ٹھیس پہچی ہو ۔ اس کا مشن مسلمانوں کو سچا مسلمان
بنانا ہے ۔ اس تحریک کی پوری جد وجہد ان چھ اصولوں کے دائرہ میں محددو ہے
نماز۔علم و ذکر۔اکرام مسلم۔اخلاص نیت۔دعوت و تبلیغ اور لایعنی امور سے
اجتناب۔ تبلیغی جماعت کے یہ چھ آداب ہیں جس پر اس کی بنیاد ہے اور یہی
رہنما اصول دنیا بھر میں اس کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ آج تک دنیا
کے کسی ملک نے اس پر شک نہیں کیا ہے۔ یورپ ، امریکہ اور برطانیہ میں بھی یہ
کام عروج پر ہے ۔ ایک رپوٹ کے مطابق امریکہ میں پچاس ہزار مسلمان تبلیغی
جماعت سے وابستہ ہوکر اس کا م کو انجام دے رہے ہیں ۔ برطانیہ میں کل تیرہ
سو مساجد ہیں جس میں 620 مساجد میں جماعت کا کام بڑے پیمانے پر ہوتا ہے ۔
وہاں جماعتی وفود تشکیل پاتے ہیں۔ ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش تو اس
کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ آج تک دنیا کے کسی ملک نے اس پر شک نہیں کیا ہے۔ ایک
فرانسیسی دانشور کے الفاظ میں یہ مکمل طور پر غیر سیاسی اور قانون کی پابند
جماعت ہے ایک امریکی افسر کے بہ قول یہ غیر سیاسی خاموش تنظیم ہے جو انسان
اور انسانیت کے فلاح کے لئے کام کرتی ہے ۔تبلیغی جماعت پوری دنیا کی سب سے
بڑی پرامن تحریک ہے ۔ |
|