قصبہ کاندھلہ اور ٹرین میں زیادتی کا معاملہ
(Syed Mansoor Agha, India)
گزشتہ جمعہ ، یکم مئی کوایک
اورناخوشگوارواقعہ پیش آیا جس پر ردعمل اور جوابی ردعمل نے اس کو مزید
ناخوشگوار بنادیا ۔ ماحول کو کشیدہ، کبیدہ اور فساد رسیدہ بنادیا۔ہوا یہ کہ
فرخ آباد-سہارنپور جنتا ایکسپریس میں قصبہ چخلی، ضلع بلڈھانہ، مہاراشٹرا کے
ایک مسافر فرخ علی خان کے ساتھ ہاتھا پائی کی گئی ، داڑھی پر بھی نوچ لی
گئی۔ فرخ خان چاردیگرافراد کے ساتھ تبلیغی جماعت میں شرکت کے لئے آئے تھے۔
مگر مرکز نظام الدین جانے کے بجائے پہلے کسی عالم سے ملنے سہارنپورکا رخ
کیا۔ فرخ خان کے ساتھ ہاتھاپائی جب وہ ٹرین میں بیت الخلا جانا چاہ رہے تھے
اوراس کے راستہ میں چندلوگ ڈتے ہوئے تھے۔ یہ لوگ غالباً شراب کے نشے میں
بھی تھے۔ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا ، ان کے دیگر چار ساتھی ڈبے کے دوسرے حصے
میں تھے۔ ہاتھاپائی صرف فرخ خاں کے ساتھ ہوئی۔
یہ ٹرین تقریبا ساڑھے چھ بجے بڑوت سے گزرتی ہے اورسات بجے کاندھلہ پہنچتی
ہے۔ یہ وقت ڈیلی پسنجروں کے گھرلوٹنے کا ہوتا ہے۔ گمان یہ ہے کہ یہ حرکت
ایسے ہی مسافروں نے کی ۔ٹرین بڑوت میں رکی، تو جن لوگوں نے ہاتھا پائی کی
تھی وہ ٹرین سے اتر گئے ،مگر یہ پانچوں کاندھلہ پہنچ گئے، تاکہ رپورٹ دراج
کرائیں۔ تھانہ قصبہ میں ہے اور اسٹیشن سے قصبہ کوئی دو کلو میٹر دور
ہے۔کاندھلہ میں تبلیغی تحریک کے متوسلین کی اچھی خاصی تعدادہے۔ تحریک کے
بانی مولوی الیاسؒ اصلاًاسی قصبہ کے باشندہ تھے۔آناً فاناً یہ خبرپھیل گئی
کی ٹرین میں تبلیغی جماعت کے ساتھ مارپیٹ ہوئی۔
اتفاق سے یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب کچھ لوگ گزشتہ کئی د ن سے تھانے
کے سامنے دھرنے پر بیٹھے تھے اورشہر میں کوئی ایک ہفتہ سے اس لئے ہیجان تھا
کہ چند لفنگے ذہنی طور سے معذورایک نوجوان مسلم لڑکی کواٹھا کرلے گئے ۔
بظاہر اس کی آبروریزی کی گئی تھی ۔وہ نیم برہنہ حالت میں شہر سے باہر
کھیتوں میں ملی تھی۔ مگرپولیس اس سنگین معاملہ میں کوئی کاروائی نہیں کررہی
تھی۔ چنانچہ بی ایس پی لیڈر اورسابق چیرمین حاجی اسلام اور چند دیگر افراد
پولیس پر دباؤ ڈالنے کے لئے مہم چلارہے تھے۔ اس واردات کوانجام دینے کا شبہ
جن دبنگوں پر ہے، الزام ہے کہ پولیس ان کو نظرانداز کر رہی ہے۔ چنانچہ
تھانے کے باہر کئی دن سے دھرنا جاری تھا اورفضا پہلے سے مکدرتھی۔
عام قاعدہ یہ ہے کہ جب اس طرح کا واقعہ پیش آتا ہے تواس کی اطلاع ایک سے
دوسرے کو پہنچتے پہنچتے مبالغہ بہت ہوجاتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی یہی ہوا۔
دوسری صبح کاندھلہ بڈھانہ روڈ پر ریلوے کراسنگ پر ہزاروں افراد جمع ہوگئے۔
کیرانہ حلقے سے سماجوادی رکن اسمبلی ناہید حسن اور کاندھلہ سے حاجی اسلام
اورچند دیگر معززین بھی پہنچ گئے۔ اطلاع ملتے ہی ضلع کلکٹراورپولیس کے اعلا
حکام بھی آگئے ۔ ان سے پرسکون ماحول میں خاطیوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ
کیا گیا۔ ضلع حکام نے پہلے دس دن میں اور پھر لوگوں کے اصرار پر دو دن میں
کاروائی کی یقین دہائی کرائی، جس کے بعد اکثر لوگ منتشر ہوگئے ۔مگر چند
ناعاقبت اندیش افراد کے ورغلائے میں چالیس پچاس سر پھرے وہیں جمے رہے
اورفوری کاروائی کا مطالبہ کرنے لگے۔ انہی لوگوں نے ریل روکی، پتھراؤ کیا
اورریل کی املاک کو بھی کچھ نقصان پہنچایا۔ کہا جاتا ہے ایک شخص نے کلکٹر
کومارنے کے لئے ہاتھ بھی اٹھایا(مارا نہیں)۔ جس پر حکام ضبط کھو بیٹھے۔
لاٹھی چارچ ہوا۔ کسی نے گولی بھی چلائی، جس میں ایک نوجوان دین محمد زخمی
ہوگیا ۔ مگر شہر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ فائرنگ میں دو، تین افراد مارے
گئے ۔چنانچہ ہزاروں کی بھیڑ تھانے پر جمع ہوگئی۔کچھ شرپسندوں نے تھانے میں
کھڑی ہوئی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔
اس ہنگامہ کا اثر یہ ہوا کہ اصل معاملہ پس پشت چلا گیا اورپولیس نے سرکاری
املاک کو نقصان پہنچانے اوربلوہ کے الزام میں پانچ افراد کو نامزد کرکے دو
ہزارنامعلوم افراد کے خلاف کیس درج کرلیا ہے۔ اب اندیشہ یہ ہے کہ پولیس جس
کوچاہے گی پکڑے گی، رگڑے گی اوروصولی کرے گی۔ آپس کی رنجش نکالنے کے لئے
خود اپنے ہی بھائی ایک دوسرے کے خلاف پولیس سے شکائتیں کریں گے، مخبری کریں
گے اور پکڑوائیں گے۔پولیس نے رپورٹ میں ناہید حسن، ایم ایل اے ، سابق
چیرمین حاجی اسلام کے علاوہ میرجنگ، نصیر اورمذکورہ مظلوم لڑکی کے والد
سلیم کو بھی نامزد کرلیا ہے۔نصیرغالباً سلیم کے ہی کوئی عزیز ہیں۔سلیم
(اورنصیر) کو نامزد کرنے کی وجہ صاف ہے کہ وہ گھبراکر لڑکی کی عصمت دری کے
معاملہ میں خاموش ہوجائیں اور خاطی دبنگ اورشیر ہوجائیں۔
ڈیلی پسنجروں کی زیادتی
ٹرین میں مسافروں کے ساتھ دھینگا مشتی کا یہ جو معاملہ پیش آیا، اس میں کچھ
اثر توفرخ خان کی داڑھی، ٹوپی اورلباس سے اس کد اورنفرت کا بھی ہوگا جس کا
انجکشن عوام میں لگاتار لگایا جارہا ہے۔اس طرح کی نازیبا حرکتیں اس روٹ کی
ٹرینوں میں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادتی کرنے
والے جب زیادتی کرنے پر آتے ہیں تو اپنے ہم مذہبوں کو بھی نہیں
بخشتے۔عموماً یہ حرکتیں ڈیلی پسنجر کرتے ہیں جن کے غول کے غول چلتے ہیں ۔
مسافروں کو زور زبردستی سے ہٹا کر خود سیٹوں پرجم جاتے ہیں اور چوکڑی بنا
کر تاش کھیلتے ہیں۔ جوا بھی چلتا ہے۔بعض ٹرینوں میں ان کی ٹولیاں ڈھول،
جھانجن اور ٹالیوں کے ساتھ اونچی آواز سے بھجن گاتی ہوئی چلتی ہیں۔ان میں
چند ہی کے پاس سیزنل ٹکٹ ہوتے ہیں ۔اکثریت بغیر ٹکٹ ہوتی ہے۔ٹکٹ چیکنگ ہوتی
ہی نہیں۔نئی نسل میں عموما ً دھینگا مشتی اورماردھاڑ کو ہی لیاقت اور شان
سمجھا جانے لگا ہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کے واقعات کی ایک بڑی وجہ
ماحول کا وہ بگاڑ ہے جو سنگھی تحریک نے پیدا کردیا ہے۔
دوسرا پہلو
ہرچند کہ واقعہ ناخوشگوارہے مگر اس کا بغیر سوچے سمجھے جو شدید ردعمل ہوا،
ہزارو ں لوگ احتجاج کرنے گھروں سے نکل پڑے، اس کو اگرچہ فرقہ ورانہ زاویہ
سے ہی دیکھا جارہا ہے اور فرقہ ورانہ رنگ دیا جارہاہے، لیکن اس کے کچھ
دوسرے اسباب بھی ہیں۔یہ صرف فرقہ ورانہ امن و قانون کا مسئلہ نہیں، بلکہ
سرکار کی مجموعی ناکامی ، نااہلی اورناعاقبت اندیشی کا معاملہ ہے۔ سرکارکی
سرپرستی میں ناانصافیوں کا بول بالا ہو رہا ہے۔کہنے کو تو حکومتیں عوامی
نمائندوں کی ہوتی ہیں، لیکن عوامی شکایات کے معاملہ میں اس قدر بے حس ہوگئی
ہیں کہ جب تک ہنگامہ نہ ہو ،کان پر جوں نہیں رینگتی۔ ہنگامہ کو شانت کرنے
کے لئے جو وعدے کئے جاتے ہیں، ہنگامہ دبتے ہی پہلی فرصت میں ان کو بھلادیا
جاتا ہے۔یوں تو اس ناانصافی کا شکار ملک کے سبھی دبے کچلے باشندے ہیں،
مگرعیسائی اور مسلم اقلیت کے ساتھ ناانصافیوں میں تعصب اورفرقہ پرستی کا
زہر بھی گھل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں یہ دونوں اقلتیں
خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ سرکاروں کی سرپرستی میں مسلسل اس طرح کے
واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن کی بدولت عدم تحفظ اورزیادتی کا یہ احساس
بڑھتا جاتا ہے۔ کاندھلہ کا یہ ردعمل اسی احساس بے بسی کا اظہار ہے۔مثل
مشہور ہے مرتا، کیا نہ کرتا۔
سرکار کی نظر میں شفافیت کے ساتھ نفاذ قانون کی کوئی اہمیت ہی نہیں ۔ جو
لوگ چن کرآتے ہیں اورسرکار بناتے ہیں ان کے بھی ذہنوں میں قانون کا کوئی
احترام نہیں ہوتا۔ پولیس اور سول انتظامیہ کا استعمال دولت کی کشید کے لئے
اس قدر عام اوربرہنہ ہوگیا ہے کہ کوئی پارٹی اس سے پاک صاف نہیں رہی ہے۔
اس کی ایک مثال تھوک میں فرضی انکاؤنٹر کے واقعات ہیں۔ دہشت گردی جیسے
سنگین الزام میں بغیر ادنیٰ ثبوت گرفتاریاں ہوتی ہیں۔جس کو چاہا پکڑا اور
سالہا سال جیلوں میں ایڑیاں رگڑنے پر مجبورکردیا۔ اب تک ہزاروں تعلیم یافتہ
نوجوانوں کی زندگیوں کوتباہ کیا جاچکا ہے۔دوسری طرف کھلی اشتعال انگیزی اور
دھرم نے نام پر غنڈہ گردی کرنے والوں کو اعزار واکرام سے نوازا جاتا ہے۔
اگر قانون کی عملداری ہوتی، ناانصافیوں کی بھر مار نہ ہوتی تو پھراس طرح کے
ردعمل نہ ہوتا۔
فرقہ پرستوں کا کھیل
کاندھلہ کا یہ واقعہ پیش آتے ہی فرقہ پرستی کا کھیل شروع ہوگیا۔ جھوٹ
پھیلانے اورعوام کو گمراہ کرنے کے لئے سوشل میڈیا کا کھل کراستعمال ہورہا
ہے۔ وہاٹس ایپ اورٹوئیٹر پر افواہیں گشت کررہی ہے۔ لیڈروں کے بیانات آرہے
ہیں۔ فرقہ ورانہ طور پر پرامن قصبہ کاندھلہ کی فضا کو مکدرکرنے کے لئے
لیڈروں کا آنا جانا شروع ہوگیا ہے۔ اخباروں میں غیرمحتاط رپورٹیں آرہی ہیں۔
کہا جارہا ہے کہ مسلم فرقہ گودھرا جیسا ماحول پیدا کررہا ہے۔وہاٹس ایپ پر
یہ جھوٹ پھیلایا جارہا ہے کہ ہندو مسافروں کے ساتھ مسلمانوں نے بدسلوکی۔
حالانکہ کسی مسافر کیساتھ کوئی بدسلوکی نہیں ہوئی۔ مگرسنگھی تنظیم اکھل
بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے قومی سیکریٹری روہت چہل نے وہاٹس ایپ پر لکھا:
شاملی معاملہ پر میڈیا خاموش کیوں ہے؟ کیا وہ گودھرا سے بھی کسی بڑے واقعہ
کا انتظار کررہاہے؟‘مطلب یہ کہ ٹی وی چینلوں پر ان کی من مطلب مسلسل
اسٹوریاں کیوں نہیں چل رہی؟ سب نیپال پر کیوں لگے پڑے ہیں؟ ایک وہاٹس ایپ
میں کہا گیا ہے:کاندھلہ میں ہزاروں مسلمانوں نے بیکانیر ہردوار ایکسپریس کو
روکا، بہت سے ہندوؤں کو جبراروکا ۔ میڈیا اور سیاسی لیڈر کہاں ہیں؟‘‘ دوسرے
نے لکھا:’ مسلم دنگائی دہلی سہارنپور روٹ پر ٹرینوں کو لوٹ رہے ہیں۔‘
بی جے پی کے سینئر لیڈر ویریندرسنگھ نے ایک بیان میں ساراالزام مسلمانوں کے
سردھرتے ہوئے کہا ہے کاندھلہ ریلوے اسٹیشن پرمسلمانوں نے ہندوؤں کے ساتھ
زیادتی کی اورپولیس ریاستی حکومت کی کھلی ہدایت پرخاموش ہے۔ اگرتم جماعتیوں
کے ساتھ انصاف چاہتے ہو تو ان کو بھی گرفتار کرو جنہوں نے اسٹیشن پر ہندوؤں
کے ساتھ زیادتی کی۔‘ صاف ظاہر ہے کہ ریل میں مسافروں کے ساتھ زیادتی کرنے
والوں کو پیغام دیا جارہا ہے کہ بھاجپا غنڈہ گردی کرنے والوں کی پشت پر
ہے۔مسٹر بیرندرسنگھ نے ہندوؤں اورخصوصاً جاٹوں کواشتعال دلاتے ہوئے یہ بھی
کہا کہ ریاستی سرکارمسلمانوں کی طرفداری اورہندوؤں کے ساتھ زیادتی کر رہی
ہے۔ اس سے مسلمانوں کے خلاف غصہ بڑھتا ہے اور جب برداشت کی حد ہوجائیگی
تووہ غصہ زبردست انتقام کی صورت میں ظاہر ہوگا۔‘ یہ مسلمانوں کے خلاف تشدد
برپا کرنے کا کھلا الٹی میٹم ہے۔
لکھنؤ سے میل ٹوڈے میں سنجیوسریواستو نے یہ بے پر کی اڑائی کہ’ تبلیغی
کارکنوں کوکاندھلہ اسٹیشن پر اس لئے مارا پیٹا گیا کہ وہ کھلے عام تبلیغ
کررہے تھے۔ ‘یہ واقعہ ٹرین میں ہوا، بڑوت سے پہلے ہوا، کاندھلہ اسٹیشن پر
نہیں ہوا اور دنیا جانتی ہے کہ تبلیغی غیرمسلموں میں اسلام کی دعوت نہیں
دیتی۔یہ اصلاحی تحریک ہے اوردیوبندی مسلمانوں تک محدود ہے۔
ایک اطلاع یہ ہے کہ مظفرنگردنگوں کی بدولت سرخیوں میں آنے والے تھانہ بھون
سے بھاجپا رکن اسمبلی سریش رانا نے خاموشی سے کاندھلہ کا دورہ کیا۔ وہاں
استھانک کی جین دھرم شالہ میں بند کمرے میں میٹنگ ہوئی ۔اس کی جوچند کلپنگ
وہاٹس ایپ پرآئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ علاقہ میں فرقہ پرستی کے شعلے
پھربھڑکانے کی سازش رچی جارہی ہے۔
یہ تفصیل اس لئے بیان کردی گئی کہ اس روزنامہ کے موقر قارئین کو اندازہ
ہوجائے کہ ٹرین میں ایک پردیسی مسافر کے ساتھ جو ناخوشگوارواقعہ پیش آیا،
اس پر جو ردعمل ہوااور اس پر جو سیاست شروع ہوئی ہے ،اس کے اثرات کوسمجھا
جاسکے۔ ہماری مشکل یہ ہے سارے فیصلے سڑکوں پرہوتے ہیں ۔ اگرتھانے جانے سے
سنجیدہ صلاح مشورہ ہوجاتا، معاملہ کی چھان بین ہو جاتی اورسوچ سمجھ کر
اقدام کیا جاتا تو فرقہ پرستوں کو زہرگھولنے کا یہ موقع نہ ملتا۔ اگر ہمارے
تبلیغی جماعت کے یہ محترم کارکن صبرو تحمل سے کام لے لیتے ، گھر سے جس کام
کے لئے نکلے تھے، اس کا بھی یہی تقاضا تھا کہ شیطان اگرراستہ روک رہا ہے،
تو بچ کر نکل جائیں، تو علاقے کی صورت حال میں یہ کشیدگی، کبیدگی
اورفسادرسیدگی نہ پھیلتی۔ مگر مقدرات الٰہی کو کون ٹال سکتا ہے۔ بڑوت میں
فرخ خان کے ساتھ زیادتی کے لئے پانچ نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آردرج
ہوگئی ہے۔ اول تو ان کو پکڑنے میں ہزاربہانے ہونگے، سیاسی مصلحتیں آڑے آئیں
گی۔ اس لئے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ اس معاملہ میں کوئی سنجیدہ اقدام
ہوگا۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگرخانہ پوری کے لئے کچھ گرفتاریاں ہو گئیں
اورمقدمہ قائم ہوگا، تواس صورت میں مہاراشٹرا سے ان صاحبان کے لئے عدالتوں
میں حاضری اوران حاضریو ں کے دوران مقامی عناصر سے ان کا محفوظ رہ جانا کیا
آسان ہوگا۔ اگر بفرض محال یہ سب ہوبھی گیا توکیا موجودہ نظام میں کسی کوسزا
مل پائیگی اورملے گی تو کتنی؟ جس نظام میں ہاشم پورہ کے ملزم چھوٹ گئے اس
میں یہ توقع کون کرسکتا ہے کہ دیگرریاست کے ایک فرد کے ساتھ ریل میں معمولی
مارپیٹ پرسزاہوگی۔ یہ اوربہت سارے سوال ہیں جو جواب چاہتے ہیں۔
اس خطے میں ابھی دوسال پہلے ایک گہری سازش کے تحت اکثریتی ہندو جاٹ آبادی
کو غریب مزدور پیشہ مسلم اقلیت کے خلاف اکسا کر سیاسی بساط بچھائی گئی تھی
جس کا فائدہ چناؤ میں بھاجپا نے اٹھایا۔ اب پھر اسمبلی الیکشن نزدیک ہیں۔
درایں اثنا تجزیہ نگاروں کا قیاس ہے کہ گزشتہ ایک سال میں بھاجپا کا کرشمہ
کم ہوا ہے۔ یہی کیرانہ کی سیٹ جس پر 1996سے بھاجپا کے سینئر لیڈر حکم سنگھ
کا قبضہ تھا، ضمنی چناؤ میں ناہید حسن (ایس پی ) نے جیت لی ۔ اس سیٹ کوحکم
سنگھ نے اسی حلقہ سے ایم پی چنے جانے کے بعد خالی کیا تھا اوراپنے ایک
قریبی کو اپنی جگہ ٹکٹ دلوایاتھا۔چنانچہ اس واقعہ کوہوا دیکر ایک مرتبہ پھر
وہی ماحول پیدا کیا جارہا ہے جس کا فائدہ اسمبلی چناؤ میں اٹھایا جاسکے۔
ہم پھرکہتے ہیں کہ ٹرین میں پردیسی مسافر کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ اس کا
مداواچاہنا حق بجانب۔ مگر اب جو تدبیراختیار کی گئی،جس میں ایس پی اوربی
ایس پی کے دولیڈرنمایاں ہونے کی جنگ لڑتے نظرآتے ہیں، ہمیں اندیشہ ہے کہ اس
کے نتائج من پسند نہیں نکلیں گے۔ یہ ہمارا جوش ہے جو دودھ کے ابال کی طرح
آتا ہے اوربیٹھ جاتا ہے۔ اس ساری صورتحال پر غوروفکرکرنے اورسماج کے صالح
عناصرکوساتھ لیکر جدوجہد کی جانی چاہئے۔ اس کی پہل جمعیۃ علماء ہند نے کی
تھی، مگراس میں اتنازور نہیں پیدا کیا جاسکا جتنا مطلوب ہے۔ اس واقعہ کے پس
منظر میں ہمیں مطالبہ کرنا چاہئے کہ ٹرینوں میں ڈیلی پسنجروں کی دھینگا
مشتی کو سختی سے دبایا جائے۔ اس کے لئے ریلوے کی مستعدی کے علاوہ پولیس کی
غیر جانب داری اور سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ ہرچند کہ مسٹرمودی کرپشن کا
خاتمہ کرنے کے وعدے وعید کے ساتھ آئے تھے، مگرپچھلے ایک سال میں اس جانب ان
کا ایک بھی قدم نہیں اٹھا ہے۔ اٹھے گا بھی کیسے،ان کا خمیر جس مٹی سے اٹھا
ہے اس میں سیاسی، سماجی، دھارمک ہرطرح کا کرپشن شامل ہے۔ (ختم) |
|