سری نگر کی بہادر عوام نے بھارتی جمہوریت کی چِتا جلا دی
(Qazi Naveed Mumtaz, Multan)
تقسیم ہند سے قبل مسلمانان عالم
انگریزوں کے ساتھ ساتھ مقاصد ہندوؤں کے ظلم کا شکار بھی تھے یعنی اُن
ہندوؤں کے جن پر ایک ہزار سال مکمل کر کے مسلمانوں نے اَنھیں جینے کا رنگ
ڈھنگ سکھایا چمگادڑ سے ڈرنے والی اس قوم کی خصلت نے منافقت دوغلہ پن اور
تعاصب کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ 33خداؤں کے ماننے والے گائے کے پُجاری اَن
چالبازوں نے کشمیریوں کے ساتھ شیخ عبداﷲجیسے غداروں کے ساتھ ملکر چال چلی
کہ اسے بھارت کا حصہ بنایاجائے۔کشمیر دنیا میں وادی جنت نظیر کی مانند ہے۔
جہاں کے خوبرو خوش اخلاق لوگ وادیاں سرسبز باغات آبشاریں اور رواں دریا امن
و سکون کی جگہ تھے۔ لیکن آزادی کے وقت عوام کی اکثریت کشمیر کو پاکستان کا
حصہ بنانے کے خواہش مند تھے اور مجاہدین نے 1948ء میں بہت سا حصہ آزاد بھی
کروالیا لیکن اقوام متحدہ نے بھارتی مگرمچھوں کے آنسو کام اور استصواب رائے
کے وعدے پر جنگ بند ہوئی۔ آج 65سال بعد لاکھوں کشمیریوں کی شہادت کے باوجود
گزشتہ دنوں سری نگر میں پاکستان کا پرچم لہرایا گیا مسرت عالم کے پاکستان
کے حق میں لگائے گئے فلک شگاف نعرے بھارتیوں پر بجلی بن کر گرے۔ اٹوٹ انگ
کا رٹ لگانے والوں کو بتادیا گیا کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہی نہیں بلکہ
کشمیریوں کے دل پاکستانیون کے ساتھ دھڑکتے ہیں لیکن جس مقصد کے حصول کیلئے
کشمیری روز جانیں دے رہے ہیں کیا ہم اُن کے خون کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں ؟
آئیے! احتساب کے ترازو میں کشمیریوں کی ہم سے وابستگی اور اپنا کر دار
تولتے ہیں ۔ کشمیریوں کی نمائندہ جماعت ’’حریت کانفرنس‘‘کو پاکستانی میڈیا
پر اتنی کوریج بھی حاصل نہیں جتنی بھارتی اداکاراؤں کو حاصل ہے ۔ جنہیں
کبھی کشمیری مجاہد اور شہید کہاجاتا تھا آج اُنھیں جاں بحق کہا جاتا ہے ۔
کیونکہ اسلام اور آزادی کیلئے جان دینے والے مجاہدین کو دہشت گرد کہیں گے
تو آقاؤں کی خوشنودی ہے اور ویسے بھی شہادت تو صرف سیاست دانوں کی ہے۔ ان
کی کیا خوب زندگی ہے زندگی میں خوبصورت حوروں کے ساتھ زبردستی عیاشی اور
کسی حور کا بھائی تیش میں آکر قتل کر دے تو یہ شہید۔ ہمارے سیاست دانوں کا
تو پالتو جانور بھی مارا جائے تو شہید کہلاتا ہے ۔ جس بھارت کے درندہ صفت
فوجی کشمیری بہنوں اور بیٹیوں کی عزت پامال کرتے ہیں ہمارے سینما اُسی کی
فلموں سے آباد ہیں۔ ہمارے چینلز اُس کے ڈرامے دکھا کر رحمن کی بجائے رام نا
فذ کر وانے میں لگے ہیں ہمارے حکمرانوں کی اُن کے ساتھ مشترکہ کاروبار ہیں
اور اُن کے رسم ور واج ہمارے گھروں میں اور ہماری زندگیوں میں نہ ختم ہونے
والے مرض کی طرح داخل ہو چکے ہیں ۔ ہمارا PTVاب انگار وادی مقدمہ کشمیر
جیسے ڈرامے نہیں دکھاتا ۔ اور ہماری کشمیر کمیٹی JUIFکو نواز نے کیلئے اُن
کے گھر کی لونڈی بن چکی ہے۔ جو کشمیر ی آزادی کیلئے سر کٹوا رہے ہیں ہم اُن
کشمیری مجاہدتنظیموں کو دہشت گرد کہہ کر بین کر رہے ہیں لیکن بھارت میں
RSSشیف سیہنا جیسی دہشت گرد تنظیمیں حکومتی پُشت پناہی میں بلوچستان میں
بغاوت کو ہوا دے رہی ہیں۔ سری لنکن ٹیم پر حملہ بھارتی سازش تھی لیکن ہم
امن کے بھوکے کیسے سچ بولیں ۔ کیونکہ ہمیں کشمیریوں کے لہو سے زیادہ اپنا
امن کا وہ شوق عزیز ہے جس کی پاداش میں ہم آزادی کے پروانوں کو مٹتا دیکھ
کر اب صدائے احتجاج تک بلند نہیں کرتے ۔ اقوام متحدہ میں بیٹھے ہمارے
نمائندے اور وزارت خارجہ میں بیٹھے پالیسی ساز صرف آدھے صفحے کا بیان جاری
کر کے صر ف اس لیے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ جان سے ہاتھ دھونے والا اُن کا
عزیز رشتے دار نہیں ہم اتنے بزدل ڈر پوک ہیں کہ عدالت کے سزا یافتہ بھارتی
مجرم سر بجیت سنگھ کو آج تک سُولی پر نہ لٹکاسکے اور انھوں نے اجمل قصاب کی
زندگی کاچراغ گُل کر دیا۔ راع مُسات پر بلیک واٹر کے خونخوار درندے جو ہمیں
کبھی مسلک کے نام پر لڑاتے ہیں تو ہمیں کبھی کسی اور نا م پر ۔ اِن کے
کارناموں پر کبھی کوئی ٹاک شاک نہیں ہوااِن سے تو لال حویلی والا شیخ رشید
بھی ڈرتا ہے جو سب کی پگڑیاں اُچھالتا ہے۔ کر سٹفر کانام نیک محمد یا راجیش
کا نام سعد یا فضل اﷲ رکھ دینے سے بظاہر تو یہ ثابت کر دیا جا سکتا ہے کہ
وہ ہم ہی میں سے گمراہ ہوئے ہوئے لوگ ہیں لیکن جب انھیں جھنم رسید کیا جاتا
ہے تو ان کے جسموں پر بنے Tatoکے نشان صاف بتاتے ہیں کہ یہ بھارتی دہشت گرد
ہیں لیکن جنگل میں مرے کوے کی بریکنگ نیوز چلانے والے چینل اس حوالے سے
خاموشی اختیار کر تے ہیں۔ جس ملک کے فیملی ڈرامے دنیا بھر میں پسند کئے
جاتے ہوں اُس ملک کے چینل بھارتی ڈرامے چلارہے ہوں تو سمجھ آتی ہے کہ اِن
کے مالکان پاکستان میں بیٹھ کر محض پیسے کی ہوس میں ہماری ثقافت اور اقدار
نیلام کر رہے ہیں۔ منحیث القوم ہم نے کشمیری تحریک آزادی کے ساتھ انصاف
نہیں کیا جو مددتعاون اور حمایت انھیں دینا چاہیے تھی وہ ہم نے اُنھیں نہیں
دی لیکن پھر بھی پاکستانیوں کے دلوں میں کشمیریون کیلئے جو محبت موجود ہے
اُس کا ثبوت وقتاََ فوقتاََ دیا جاتا ہے۔
مومن کو حکم ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے گھوڑے تیا ررکھے لیکن اِن بزدل بھارتیوں
کیلئے گھوڑے تو دور چمگادڑ ہی کافی ہے اگر انھیں کوئی فیس بُک پر چمگادڑ کی
تصویر بھیج دے تو یہ بے ہوش ہو جاتے ہیں ۔ واقع سری نگر جہاں آزادی کے
متوالون کا مودھی سر کار کو عبرت ناک چانٹا ہے اور پاکستانیوں کیلئے بھی
لمحہ فکریہ ہے کہ قائد اعظم نے جسے شہہ رگ کہا تھا وہ آج بھی دشمن کے پنجوں
میں ہے۔اورہم اُن کی پرانی فلم شعلے کو نیا پینٹ کرکے آج کی نسل کو گبر سنگ
سے ڈرانے چلیں ہیں چند ٹکوں کے عوض حالانکہ ایسے گبر سنگھ تو حیدر علی اور
ٹیپو سلطان کا نام سُن کر اپنا لباس گیلا کر بیٹھتے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ ہمیں
اپنی اہمیت اور قدرو منزلت معلوم نہیں اگر صرف یہ ہی احساس ہو جائے کہ ہم
سب سے بلند مقام نبیؐ کے اُمتی ہیں تو ہم کشمیر تو کیا دنیا میں گائے کے
پُجاریوں کو ایسا سبق سکھائیں کہ انھیں اپنا وہ وقت یا د آ جائے جب یہ
درختوں کے پتے بطور لباس پہنتے تھے لیکن سوال یہ ہے کہ ہمیں کون ٹھیک کرے
گا؟اس کا جواب کافی تلاش کے بعد بھی نہیں مل سکا اگر آپ کو لگتا ہے ہم سب
کو ہمارے سوا کوئی دوسرا ہے جو ٹھیک کر سکتا ہے اُس کا نام مجھے ضرور
بتائیے گا اور ہاں کریلوں کے موسم میں کڑوا سچ ہضم کیجئیے۔اور وہ یہ ہے کہ
پاکستانی چینلز پر چلنے والے بھارتی ڈرامے آپکے بچوں پر اس قدر اثر انداز
نہ ہو جائیں گے کہ آپکا عبدالرحمن کرشن لال بن کر رام رام کرنے لگے۔ اور
ویسے بھی ہم تاخیر پسند لوگوں کی یہ صفت ہے کہ ہم تبھی کچھ کرتے ہیں جب
ہمارے کھیت چڑیاں چُگ جاتی ہیں۔ |
|