الیکشن 2018 "توقعات"
(Muhammad Rafee Azhar, Okara)
(نوٹ: یہ مضمون ۱۱ مئی ۲۰۱۳ کو
انتخابات کے بعد لکھا گیا تھا ، تاہم یہ کہیں شائع نہ ہو سکا۔ اب ذرا اسے
موجودہ تناظر میں پڑھیے اور لطف اٹھایے)
یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ پاکستان میں دوسری کامیاب جمہوری حکومت کے بعد
الیکشن ہونے جارہے ہیں لیکن یہ الیکشن {2018} گزشتہ تمام الیکشنوں سے بالکل
مختلف ہیں۔ اس دفعہ سو فی صد ووٹ ڈالے جانے کی توقع ہے۔ قومی اسمبلی میں یہ
بل واضح اکثریت سے پاس ہوا تھا کہ اب نادرا جس پاکستانی کا شناختی کارڈ
بناے گا اس کے ساتھ اسے ایک سِم نمبر بھی جاری کرے گا۔ شناختی کارڈ بننے کے
بعد وہ شخص کسی بھی موبائل فون نیٹ ورک پر اپنے سِم نمبر کو اکیٹیویٹ کرا
سکے گا۔ یہ نمبر اس کی زندگی کا نمائندہ ہوگا یعنی یہ نمبر اسے آن رکھنا
پڑے گا۔ اس نمبر پر وہ ایک سے زیادہ نیٹ ورک بھی استعمال کر سکے گا۔ حکومت
نے یہ ایک اچھا اقدام اٹھایا ہے کہ ہر سیل فون نمبر پر صارف کا مکمل ریکارڈ
موجود ہوگا۔ پولیس کا ڈیجیٹل سرچ سسٹم بے حد موءثر بنا دیا گیا ہے اور ہر
تھانے میں ایسے سیکورٹی آلات نصب کر دیے گئے ہیں کہ کسی بھی شخص کی مکمل
شناخت اس کے سیل فون نمبر سے ہو جاتی ہے۔ جدید آلات کی مدد سے اس کی نقل و
حرکت کو بھی مانیٹر کیا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کا
نیٹ ورک تقریباً ختم ہو چکا ہے اور گزشتہ جمہوری حکومت کی نسبت اس حکومت
میں دہشت گردی کے زیادہ واقعات نہیں ہوئے۔ اگرچہ اس ضمن میں پاکستان اور
افغانستان کی ڈیورنڈ لائن کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جہاں پاکستان
نے ایک تاریخی اور جراءت مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے طور خم کے راستے کے علاوہ
تمام بارڈر پر خار دار تار بچھا دی ہے اور ہر پانچ سو میٹر پر ایک چیک پوسٹ
بنا کر تمام بارڈر پر پاکستان رینجر ز کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے ۔
الیکشن 2018 کی حیران کن بات، الیکشن کمیشن کا ڈیجیٹل ووٹنگ سسٹم ہے۔ اب
کسی بھی حلقے میں ایک سے زیادہ پولنگ اسٹیشن بنانے، اساتذہ کی الیکشن ڈیوٹی
لگانے یا رینجرز اور فوج تعینات کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور نہ ہی ووٹ
کاسٹ کرنے کے لیے بیلٹ پیپر اور مہر کی ضرورت پڑے گی ۔ حکومت اور الیکشن
کمیشن کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ انھوں نے اس دفعہ ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے
ایسا جدید طریقہ متعارف کرایا ہے جس کی مثال ابھی تک مغربی اور یورپی ممالک
میں بھی کم کم ملتی ہے۔ اس نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ گذشتہ
الیکشن پر آنے والے اخراجات کا دس فی صد سے بھی کم خرچ ہوگا جب کہ ووٹ بھی
سو فی صد ڈالے جا سکیں گے۔ کیوں کہ بغیر کسی وجہ کے ووٹ نہ ڈالنے کو قومی
جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ اسے باقاعدہ قانون کا حصہ بنا دیا گیا ہےکہ جو شخص
بلا وجہ ووٹ کاسٹ نہیں کرے گا اسے چھ ماہ جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ یہ
اقدام شاید جمہوری نظام کے خلاف برسرپیکار مذہبی فرقوں کے رد میں اٹھایا
گیا ہے۔ لہذا اب ہر فرد کم از کم اس خوف سے تو ووٹ ڈالے گا ہی تاہم ووٹ
ڈالنے والوں کے لیے ایک خوش خبری یہ بھی ہے کہ جیسے ہی کوئی اپنے سیل فون
کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرے گا اسے 200 روپے کا بیلنس بھی ملے گا۔ لہذا حکومت
اور الیکشن کمیشن کے اس اقدام سے یقیناً ہر فرد ووٹ ڈالنے کی ضرور کوشش کرے
گا۔ اس لیے اس دفعہ سو فی صد ٹرن آوٹ کی توقع ہے۔
گزشتہ الیکشنوں کے طریقہ انتخاب میں ایک ایسی خامی تھی کہ الیکشن کمیشن اسے
جتنا بھی موثر بنا لیتا وہ خامی دور نہیں ہو سکتی تھی۔ کیوں کہ ایسا کوئی
آلہ یا پیمانہ نہیں جس سے انتخابی عملے کی غیر جانب داری کو ناپا جا سکے۔
سچ بات تو یہ ہے کہ جو سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آتی ہیں وہ تمام سرکاری
اداروں میں سیاسی بنیادوں میں بھرتیاں ضرور کرتی ہیں۔ خاص طور پر تعلیمی
اداروں اور بالخصوص سندھ میں تو بھرتیاں ہوتی ہی سیاسی بنیادوں پر ہیں۔
الیکشن کمیشن کی مجبوری یہ ہے کہ اس نے انتخابی عملے کے لیے اساتذہ ہی سے
مدد لینی ہوتی ہے۔ اب جہاں پورا کا پورا عملہ ہی کسی سیاسی پارٹی کا نیاز
مند ہو وہاں اس پارٹی کو جتوانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاسکتا ہے اور
استعمال ہوتا رہا ہے۔ مخالف پارٹی کے بیلٹ پیپر کو قصداً ضائع کر دینا اور
آخری وقت میں ٹھپہ مافیا کی ملی بھگت سےرِگنگ کرنا ہرگز نہیں روکا جا سکتا۔
الیکشن کے نظام انتخاب سے ناواقف و نا تجربہ کار فوجیوں کو اگر پولنگ
اسٹیشن کے اندر تعینات کر بھی دیا جاے تب بھی دھاندلی کو کچھ نہ کچھ قابو
تو کیا جا سکتا ہے لیکن روکا پھر بھی نہیں جا سکتا۔
نئے ڈیجیٹل ووٹنگ سسٹم میں دھاندلی کے تمام ممکنہ امکانات کو ختم کردیا گیا
ہے۔ اس ڈیجیٹل ووٹنگ سسٹم کے سافٹ ویئر پر گذشتہ دو سالوں سے کام ہو رہا
تھا جو اب پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ ہر حلقے میں ایک ڈی وی سسٹم ہو گا جس
کی حفاظت کے لیے سیکورٹی کے ادارے تعینات ہوں گے۔ ڈی وی سسٹم کو آُپریٹ
کرنے کے لیے پانچ افراد پر مشتمل ماہرین کا عملہ ہو گا۔ ہر امید وار اور اس
کے ایک نمائندے کو وہاں بیٹھنے اور جائزہ لینے کی اجازت ہوگی۔ ڈی وی سسٹم
ایک ایسا سافٹ ویئر ہے کہ کوئی امیدوار یا عملے کا کوئی فرد دھاندلی کرنا
چاہے بھی تو نہیں کر سکے گا۔
اس میں ہوگا یہ کہ الیکشن والے دن ہر وہ شخص کہ جو پاکستان کا شہری ہے اور
2016 سے قبل اس نے شناختی کارڈ بنواتے ہوئے نادرا سے اپنا سم نمبر بھی وصول
کیا ہوا ہے اور 2016 سے قبل کے تمام شناختی کارڈ حاصل کردہ لوگوں نے بھی
نادرا سے اپنا سم نمبر رجسٹرڈ کروا لیا ہے،وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں
ہوں، انھیں اُن کے حلقے کے ڈی وی سسٹم کی طرف سے ان کے سیل فون پر اردو اور
انگریزی زبان میں ایک پیغام موصول ہوگا جس میں ووٹر کے حلقہ نمبر اور اس کے
امید واروں کے نام اور پارٹی الف بائی ترتیب سے درج ہوں گے۔ ہر ووٹر اسی
پیغام کے جواب میں اپنے امیدوار کا صرف سیریل نمبر درج کرکے بھیج دے گا۔ اس
طرح خودکار طریقے سےاس کا ووٹ کاسٹ ہو جاے گا۔ ووٹ کاسٹ ہونے کی صورت میں
ہر ووٹر کو باقاعدہ جواب آے گا کہ اس کا ووٹ کامیابی سے کاسٹ ہو چکا ہے۔
اگر کوئی دوبارہ کاسٹ کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے ڈی وی سسٹم کا کمپیوٹر
جواب دے گا کہ آپ کا ووٹ پہلے ہی فلاں وقت کاسٹ ہو چکا ہے۔ ہر حلقے کے ڈی
وی سسٹم اسٹیشن پر ایک بڑی ایل سی ڈی نصب کی جاے گی جہاں ووٹ کاسٹ ہونے کے
خود کار طریقے کو براہ راست دیکھا جا سکے گا۔ یہ ایل سی ڈی، ڈی وی ایس
اسٹیشن کے باہر نصب ہوگی تاکہ عوام اور میڈیا اس کو مانیٹر کر سکیں۔ اس
سسٹم کے تحت چوں کہ وقت بہت کم لگے گا، اس لیے ووٹ کاسٹ کرنے کا وقت صبح 8
بجے سے دوپہر 12 بجے تک رکھا گیاہے۔ ٹھیک بارہ بجے ڈی وی سسٹم کا ووٹ
ریسیور خود کار طریقے سے آف ہو جاے گا اور اب ووٹ گننے کی ضرورت بھی نہیں
ہوگی، کیوں کہ ہر حلقے میں جیسے جیسے ووٹ کاسٹ ہو رہے تھے ، اسی حساب سے ہر
امیدوار کے نام کے سامنے "کل میزان" کے خانے میں جمع بھی ہو رہے تھے۔ یہاں
ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ حتمی نتیجے تک پہنچتے پہنچتے شاید
زیادہ وقت لگے____ جی نہیں بلکہ تمام حلقے اپنے اپنے ضلعے کے مین
اسٹیشن____ ہر ضلع اپنے اپنے صوبے کے مین اسٹیشن اور ہر صوبہ الیکشن کمیشن
آفس سے براہ راست منسلک ہو گا۔ علاوہ ازیں کسی بھی تعطل سے بچنے کے لیے ہر
حلقے میں باقاعدہ جنریٹر کا انتظام بھی کیا گیا ہے، اس لیے تمام الیکشن کا
حتمی نتیجہ ایک گھنٹے تک متوقع کیا جا رہا ہے۔
مذکورہ طریقہ کار سے سو فی صد ووٹ کاسٹ ہونے کے توقع ہے اور مزید یہ کہ اس
میں دھاندلی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب کوئی دہشت گرد پاکستان کے جمہوری نظام
کو ثبوتاز نہیں کر سکے گا___ کوئی پارٹی اب دھاندلی کی شکایت نہیں کر سکے
گی___ کوئی ریٹرننگ افسر اب جانب داری نہیں دکھا سکے گا___ کوئی پریزائڈنگ
افسر اب دباو میں نہیں آ سکے گا اور کوئی سیاسی پارٹی اب اپنی سیاسی
بھرتیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے الیکشن نہیں جیت سکے گی۔ اب پاکستان کا ہر
فرد اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ کاسٹ کرنے میں آزاد ہو گا۔ ہر پاکستانی اپنا
ووٹ ڈالنے کے بعد مطمئن ہوگا کہ اس نے جس قیادت کا انتخاب کرنا چاہا ہے وہ
اس میں سو فی صد کامیاب ہوا ہے۔ اس کو کہتے ہیں تبدیلی___ یہ ہے نئے
پاکستان کا خواب__ دیکھیے اب یہ خواب کب شرمندہء تعبیر ہوتا ہے اور کون اسے
پورا کرتا ہے ۔ |
|