ڈاکٹر ایم اعجاز علی
سابق ایم پی
بانی وسرپرست آل انڈیایونائٹیڈمسلم مورچہ
شالمیاراپارٹمینٹ لال باغ لکھنؤ
آل انڈیا یونائٹیڈمسلم مورچہ کی ایک ٹیم حافظ غلام سرور کی سربراہی میں
ندورا گاؤں کے دورہ پرگئی ۔یہ گاؤں ہریانہ کے جند وحصار کے بیچ میں واقع ہے
،خبر ملی کہ جب سے پنجاب میں بھاجپا کی سرکار بنی ہے وہاں ’’گھر واپسی‘‘کی
معاملے پرکاروائی شروع ہوگئی ہے ۔یہ سارا معاملہ پنجابی گلوکار صدیق کے
انتخاب سے جڑاہوا ہے ۔وہ پچھلے اسمبلی انتخاب میں پنجاب کے ایک محفوظ حلقہ
(برائے شیڈول کاسٹ)سے نہ صرف امیدوار بن بیٹھے بلکہ جیت بھی گئے۔انہوں نے
اپنا کاسٹ سرٹیفکیٹ ڈوم (میراسی)برادری کا دیا جو شیڈول کاشٹ ( ایس سی)کے
زمرے میں آتاہے انتخاب کے درمیان اس بات کی خوب کھینچاتانی اور بیان بازی
ہوئی کہ صدیق مسلمان ہوکر محفوظ حلقے سے کیسے کھڑا ہوگئے۔ جبکہ ہندو،سکھ
اور بودھ مذہب کو چھوڑکر دوسرے مذاہب کے ممبران کو اس زمرے سے باہر رکھا
گیا ہے ۔اس دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہریانہ پنجاب میں مسلمانوں کی
ویسی آبادی جو پیشے سے دلت ہے ۔ایسے لوگ ہندوکے نام پر اپنا سرٹیفکیٹ
بنواکر شیڈول کاشٹ کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔حکومت سازی کے بعدجعلی سرٹیفکیٹ
بنانے والوں پر دباؤپڑنے لگاہے کہ ’’ہندومذہب‘‘قبول کراصلی سرٹیفکیٹ کے
مالک بنیں۔یہ خبرجب یونائیٹیڈمسلم مورچہ کے ذمہ داران سروے پر گئے توکھل کر
سامنے آئی ۔پتہ چلا کہ ڈوم برادری کی پنجاب میں اچھی خاصی آبادی ہے یہ گانا
بجانے کا پشتینی پیشہ کرنے والی جماعت ہے ۔اس برادری کی آبادی کا ۷۵
‘۸۰فیصد حصہ روزی روٹی ودیگر بنیادی مراعات کی حصولیابی کی خاطرہندوازم
قبول کر چکا ہے صرف یہی نہیں بلکہ اس طرح سے مر تدہو نے کاسلسلہ ان ساری
پیشہ ور برادریوں کے بیچ چل رہی ہے جو ہندو یا پنجابی دلتوں کے ہم پیشہ ہیں
مثلا لوہار ،شیکلگر،کنجار ،سنپیرے وغیرہ ۔دفعہ ۳۴۱کے زمرے میں آنے والی ان
پیشہ ور آبادیوں پر یہ بھی شرط نافذ ہے کہ ہندو،سکھ اور بودھ کو چھوڑکر
باقی ماندہ مذاہب کے دلتوں کو(شیڈول کاسٹ)مراعات ایک ہی شرط پر مل سکتی ہے
کہ وہ پہلے ہندوازم قبول کرلیں ۔حیرت کی بات تویہ ہے کہ سیکولرازم کا دعوی
کرنے والی آئین ہند میں اس طرح کی شرط ۶۰،۶۵برسوں سے ہے لیکن نہ تو مرکزی
سرکار اس کالے داغ کو آئین کے پیشانی سے مٹانے کا من بنا رہی ہے اورنہ ہی
عدالت عظمی اس سمت کوئی اقدام کر رہی ہے۔اس میں بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ
مسلمانوں کی لیڈر شپ کا دعوی کرنے والی تنظیمیں بھی اس نقش کہن کومٹانے میں
نہیں پہل کرنا چاہتی ہے۔کیا یہ معاملہ ایودھیا متنازعہ یا پرسنل لا ء جیسے
زخموں سے بڑا زخم دفعہ341پر لگی شرطوں کے ذریعہ مسلمانان ہند کو دیا گیاتھا
جسکے علاج سے آج بھی ہم غافل ہیں ۔لوگ مانیں یا نہ مانیں لیکن اب حقیقت
سامنے آنے لگی ہے کہ سنگھ پریوار ،اسپین کے فارمولے کو ہندوستان میں دہرانے
کیلئے شروع سے سر گرم ہے اور ایک مضبوط حکمت عمل کے تحت دفعہ 341کو نشانہ
بنایا،اس پر جبراغیر آئینی شرطوں کو نافذ کرواکر ملک کاایسا ما حول بنایاکہ
مسلمانوں کا دماغ ایودھیا ،پرسنل لاء اور 370جیسے مدعوں میں بھی پھنسارہے
تاکہ دفعہ341کے ذریعے ’’گھر واپسی‘‘کاپوشیدہ مہم رواں دواں رہے ۔،ملک کا
کون سا خطہ ہے جہاں گاؤں کا واقعہ دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ضرورت اس بات کی
ہے کہ متحدہوکر ہم دفعہ 341پر لگے اس نقش کو ہٹا سکیں ۔فی الوقت ایودھیا
متنازعہ کی طرح دفعہ 341میں ترمیم کا معاملہ بھی سپریم کورٹ میں ہے ۔ |