ڈاکٹر وحید الرحمن قتل ہوگئے ۔سبین
محمود قتل ہوگئیں۔ پروفیسر شکیل اوج چلے گئے۔ حکیم سعید سے لے کر آج تک شہر
کراچی میں نہ جانے کتنے دانشور اور کتنے قیمتی لوگ ابدی نیند سلادیئے گئے ۔
مرنے والوں میں پروفیسر ، ڈاکٹر ، دانشور، صحافی ، علماء، لیڈرز اور نہ
جانے کون کون سی ہستیاں کام آچکیں مگر سلسلہ ہے کہ رُک نہیں پاتا۔
پاکستان کے ایٹمی دھماکے سے لے کر چینی صدر کے حالیہ دورے تک غور کرتے
جائیے اور سمجھتے جائیے ۔ یاد رکھیئے پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اس کے
دشمنوں کو علم ہے کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل کسی ملک کو ہر طرح اور ہر طریقے
سے نقصان تو پہنچانے کی کوشش کی جاسکتی ہے مگر براہِ راست جنگ چھیڑنا آسان
نہیں ہوسکتا۔ جس طرح کسی گزرتے ہوئے اس پاگل شخص سے جس کے ہاتھ میں’’ پتھر‘‘
ہو کوئی آسانی سے الجھتا نہیں ، اسی طرح کوئی بھی بڑی سے بڑی طاقت اپنے سے
کمتر ایٹمی طاقت یہ براہِ راست حملہ کرنے کی جرأت اس لئے نہیں کرسکتی کہ
شکست دینے کی صورت میں وہ اپنا بھی بہت کچھ نقصان کر چکی ہوگی۔
پاکستان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے پاکستان کے دشمن اتنی ہمت نہیں
رکھتے کہ وہ اس سے جنگ کریں مگر وہ یہ ضرور کرسکتے ہیں کہ ہر وہ سازش کریں
جس سے ملک کو معاشی ، معاشرتی ، اقتصادی ، نظریاتی اور جسمانی طور پر اتنی
زچ پہنچادیں ، اتنا کمزور کردیں کہ اس کے مقابلے میں آنکھ نہ اٹھاسکے بلکہ
بغیر جنگ لڑے غلام بنالیا جائے ،جو کسی جنگ جیتنے کے نتیجہ میں حاصل ہوتا
ہے ۔ چینی صدر کے حالیہ دورے جہاں اس کے دشمن انگشت بدندان ہیں وہاں خود
پاکستان میں رہنے والے اور پاکستان سے محبت کرنے والے بھی اپنی اہمیت پر
پہلی مرتبہ متعجب اور حیران ہیں ۔ چینی صدر کے دورے نے ثابت کردیا کہ
پاکستان کو تحفظ و استحکام کے لئے جس طرح چین جیسے ملک کی ضرورت ہے اسی طرح
’’پاکستان ‘‘ بھی چین جیسے ملک کی کمزوری ہے ۔ پاکستان کا استحکام ،چین کا
استحکام ہے ، اس کی ترقی چین کی ترقی ہے۔ خطرات سے گھرا پاکستان چین کو بے
چین رکھے گا ۔ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن ، چین کے جغرافیہ کا تحفظ ہے ۔
چین کی پوزیشن کا انحصار بھی پاکستان کی داخلی ، خارجی اور جغرافیائی
پوزیشن پر منحصر ہے لہٰذا چین کے وجود سے جو بے چین ہیں ،جو چین کے دشمن
ہیں وہ پاکستان کے خیر خواہ کیسے ہوسکتے ہیں۔ اگر کسی کو یقین نہیں تو یقین
کرلے کہ ماضی میں جن کو وہ خیر خواہ سمجھتے تھے اب مذکورہ فارمولا سامنے
رکھ کر خیر خواہی اور بد خواہی کی راہیں تلاش کرلے۔ دوست کے دشمن کبھی بھی
دوست نہیں ہوسکتے ۔
مستقبل میں چین سے لڑائی کس کی ہے ؟ آج چین سے تکلیف کس کو ہے؟ پاک چین
دوستی کن کی آنکھوں کو کھٹکتی ہے؟ پاک چین اقتصادی راہداری کے میگا پروجیکٹ
اور سمندر تک رسائی سے کس کو تکلیف ہے ؟ آپ خوب جانتے ہیں۔ سوچتے جائیے آپ
کو جوابات خود ملتے جائینگے۔ ٹارگٹ کلنگ ہے تو کیوں؟ بم دھماکے ہیں تو
کیوں؟ بلوچستان میں تخریبی سرگرمیاں اور اس کو علیحدہ کرنا کن کا مقصد
ہوسکتا ہے ؟
خیبر پختونخواں کے اندر اور باہر مشق ستم کیوں جاری ہے ؟ طالبان حقیقی ہوں
یا مصنوعی ،پاکستان ہی کے پیچھے کیوں پڑے ہیں ؟ کالعدم تنظیموں اور لسانی
گروہوں کو بیرونی امداد کس مقصد کی لئے دی جاتی رہی ہے؟ ’’را ‘‘کے ایجنٹس
کیوں پکڑے جاتے ہیں؟
ان سب کا صرف ایک مقصد ہے غیر مستحکم پاکستان اور جنگ کے بغیر شکست ۔یہ سب
قصور آپ کے ایٹمی طاقت ہونے کا اور مستقبل کے سپر چین کی ’’مجبوری ‘‘بننے
کا ہے ۔پھر دشمنوں کو کیا ضرورت ہے کہ پورے ملک کو تہہ و بالا کریں ۔ ان کا
آسان ہدف یہ رہا ملک کی شہہ رگ معاشی دہلیز کو نشانہ بنایا بنائے۔
چنانچہ شہر کراچی ایک عرصہ سے کِرچی کِرچی ہے ۔ کراچی کی ترقی ملک کی ترقی
ہے ، ملک کی ترقی خود کراچی کی خوشحالی کی صورت میں لوٹے گی۔ کراچی میں ایک
عرصہ سے بدامنی اور مسلسل ٹارگٹ کلنگ اس بڑے منصوبہ کا حصہ ہے۔
ایک زمانے میں کراچی میں روزانہ ٹارگٹ کلنگ میں 30, 40 افراد جاں بحق ہورہے
تھے کافی شور بھی مچ رہا تھا اس وقت مجھے اورنگی ٹاؤن کراچی میں رہنے والے
ایک غریب آدمی نے یہ بات کہی کہ اب کچھ دن بعد یہ تعداد 10کے آس پاس رہا
کرے گی یہ بھی کہا کہ یہ پکی رپورٹ ہے اور کچھ دنوں بعد حقیقتاََ ایسا ہی
ہوا ۔ 2015ء سے قبل گزشتہ کئی سال یہی تعداد کی اوسط دیکھی گئی۔ اس کا
مطلب ہے کہ یہ سب طے شدہ منصوبہ کے تحت ہوتارہاہے ۔ مسلمانوں کی تاریخ ہے
کہ اس کو شکست دینے کیلئے میر جعفر ، میر صادق جیسے لوگ ہی ہی کام آتے ہیں
اور آج بھی وہ ’’ایجنٹس‘‘ اپنا کام دکھا رہے ہیں ۔ سوچنا اور آنکھیں کھلی
رکھنا یہ تو کم از کم ہم سب کرسکتے ہیں ۔ پاکستان بالخصوص کراچی سے کئی
ڈاکٹر ز ، کئی انجنیئرز، کئی بزنس مین بیرونِ ملک چلے گئے ،بیرونی ممالک سے
سرمایہ کاری تو نہ ہوسکی البتہ مقامی سرمایہ بیرونِ ممالک منتقل ہوگیا۔
نتیجتاََ ملک اور اس کے رہنے والے بے روزگار اور مفلوج ہوتے چلے گئے ۔
انڈسٹریز بدحال ، کارخانے بے رونق ، دکانیں بند ۔ وجہ چاہے بھتے ہوں یا
پرچیاں یا اغواء برائے تاوان۔ بدامنی کے درپردہ سب اپنا کام دکھاتے رہے
ہیں۔ نقصان کس کا ہوا ؟ میرا اور آپ کا ملک پاکستان کا۔
ایٹمی طاقت سے لڑائی کے لئے یہ بہترین ہتھکنڈے ہیں ۔ مستقبل میں بڑی طاقتوں
کے توازن کی لڑائی میں ہم بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ دار تو ہم ہیں ہی۔ بات
سمجھ میں آجانی چاہیئے ۔ سوچنا اور آنکھیں کھلی رکھنا یہ تو ہم سب کم از کم
کرہی سکتے ہیں۔ |