پاکستان بھارتی چال کو سمجھے....؟بھارت
پاکستان سے کیا چاہتا ہے
بھارت کی بوکھلاہٹ، پاک بھارت مذاکرات سے قبل بھارت کا ایک اور دباؤ
بھارت کا مطالبہ پاکستان کے پانی و بجلی اور داخلہ کے وزراء بھارت نہیں
آسکتے
شائد اَب بھارتی حکمران پاکستان سے جامع اور بامقصد مذاکرات کی پیشکش کر کے
خود ہی پچھتا رہے ہیں اور اَب وہ ایک ایسے امتحان میں پھنسے محسوس ہورہے
ہیں کہ جس سے نکلنا خود اِن کے بھی بس میں نہیں رہا اور اَب اِس امتحان سے
آسانی سے نکلنا اِن کے لئے مشکل تر ہوگیا ہے جس کے لئے وہ ایسی حرکات اور
سکنات کے مرتکب ہو رہے ہیں کہ جس پر نہ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ ساری
دنیا میں بھی بھارتیوں کی اِس بوکھلاہٹ کو بڑی حیرت کی نگاہ سے دیکھا جا
رہا ہے۔
ایک خبر کے مطابق بھارت نے دہلی میں ہونے والے پاک بھارت مذاکرات شروع ہونے
سے دو روز قبل ہی حکومت پاکستان کو دباؤ میں لیتے ہوئے یہ مطالبہ کردیا کہ
پاکستان کا جو آٹھ رکنی وفد 24 فروری کو پاک بھارت مذاکرات کے سلسلے میں
بھارت آئے گا اُس وفد میں پاکستان اپنے پانی و بجلی اور داخلہ کے وزراء کو
ہرگز شامل نہ کرے اور اِس کے علاوہ جو بھی چاہیں وہ پاکستانی وفد کے ہمراہ
بھارت آسکتے ہیں اور اِس کے ساتھ ہی بھارتی دفتر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا
کہ بھارت دہشت گردی کے سمیت ہر اُس نقطے پر صرف بات کرے گا جس پر پاکستان
بات کرنا چاہے گا مگر اُس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرے گا۔ کیوں کہ وہ صرف
بات چیت ہوگی وہ مذاکرات کا حصہ نہیں ہوگی۔
جس پر حکومت پاکستان نے اپنا سر خم کرتے ہوئے اِس بھارتی مطالبے کو تسلیم
کرلیا اور 24 فروری کو بھارت جانے والے پاکستانی وفد میں فوری طور پر
تبدیلی کر لی حکومت پاکستان کا یہ عمل اِس بات کا بھی غمازی ہے کہ حکومت
پاکستان مذاکرات شروع ہونے سے قبل ہی بھارتی سازشوں کا شکار ہوتی ہوئی نظر
آرہی ہے اور یہ جاننے کے لئے بہت ضروری ہے حکومت پاکستان بھارت کی اُس سازش
کا جائزہ لے کہ جس کے لئے بھارت اِس قسم کے حربے استعمال کر کے مذاکرات کے
عمل کو خود ہی سپوتاژ کرنا چاہتا ہے۔
جبکہ میرا خیال یہ ہے حکمرانوں سمیت پوری پاکستانی قوم کو سانحہ ممبئی کے
بعد پہلی بار بھارت کی جانب سے پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے کے لئے جامع
اور بامقصد مذاکرات کی خودسے دعوت کی پیشکش کے منظر اور پس منظر میں یہ
ضرور دیکھنا چاہئے کہ کیا بھارت واقعی پاکستان سے بامقصد مذاکرات کے حق میں
ہے بھی کہ نہیں ...؟اور بھارت نے پاکستان سے مذاکرات کے سلسلے میں اَب تک
جتنے بھی جتن کر ڈالے ہیں کیا اُن میں بھارت واقعی مخلص نظر آیا ہے؟ یا اَب
تک اِس نے اِس سارے معاملے میں جو کچھ بھی کیا ہے وہ سب کا سب محض رسمی
ہے۔؟
یہاں میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اِن تمام خدشات کا بغور جائزہ لینے کے بعد
اگر حکومت پاکستان بھارت سے مذاکرات کے لئے پیش رفت کرے گی تو یقیناً دونوں
جانب سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی مثبت راہ ضرور
سُجھائی دے گی ورنہ پھر وہی ہوگا جو اِس سے پہلے ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ یہی
ہوتا آیا ہے کہ بھارت کی جانب سے ہر مذاکراتی عمل کے بامقصد اختتام سے قبل
ہی کوئی نہ کوئی نقطہ ایسا بیچ میں آن دھمکتا ہے کہ سارے مذاکراتی عمل
بھارت کی اچانک ہونے والی ہٹ دھرمی کی وجہ سے سپوتاژ ہو جاتا ہے۔
بہرحال اِس بار بھی جو کچھ بھی ہو ...؟مگر مجھے اتنا یقین ضرور ہے کہ بھارت
امریکی دباؤ میں آنے کے باوجود بھی پاکستان سے بامقصد مذاکرات کے حق میں
قطاً نظر نہیں آرہا ہے کیوں کہ بھارت آج بھی وہ نہیں چاہتا جو پاکستان
چاہتا ہے اور پاکستان کیا چاہتا ہے اِس کے بارے میں بھارت سمیت امریکا اور
ساری دنیا بھی یہ خوب جانتی ہے کہ پاکستان بھارت سے شروع ہونے والے مذاکرات
میں کن مسائل کا بامقصد اور تصفیہ طلب حل چاہتا ہے۔
اگرچہ اِن مسائل کی پاکستان کے پاس ایک طویل فہرست ضرور ہے مگر اِس فہرست
پر عمل درآمد کئے بغیر بھارت ایسے لاکھ مذاکرات کر ڈالے بھی تو سب کے سب بے
مقصد اور لاحاصل رہیں گے جب تک بھارت پاکستان کے اَس ایجنڈے پر عمل نہیں
کرتا جنہیں پاکستان نے ہمیشہ پاک بھارت مذاکرات کے دوران پیش کیا اور اُمید
ہے کہ پاکستان25فروری کو بھارت میں شروع ہونے والے اِن مذاکرات میں بھی
اپنا یہ ایجنڈا ضرور پیش کرے گا جو مسئلہ کشمیر، پانی اور سیاچن جیسے مسائل
کے حل پر مشتمل ہوگا۔ جس کے بغیر بھارت کی جانب سے شروع ہونے والے یہ
مذاکرات خالی ڈھول ثابت ہونگے اور جو شروع ہونے سے پہلے ہی بج بج کر پھٹ
جائیں گے۔
کیوں کہ اِس کے ساتھ ہی میرا ایک خیال یہ بھی ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے بھارت
سے جن اہم ایشوز پر مذاکرات کا خواہاں رہا بھارت نے اِنہیں کبھی بھی اہمیت
نہیں دی اور اِس بار بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ بھارت کی نظر میں اِن ایشوز
کی کوئی وقعت نہیں جن پر پاکستان مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔
بلکہ بھارت کے نزدیک صرف اِس کا وہ ایجنڈا ہی مقدم ہے جو بھارت پہلے ہی سے
امریکا کی ڈکٹیشن سے اِن مذاکرات کے لئے تیار کرچکا ہے اور وہ اِس مذاکراتی
عمل کو صرف اِس مقصد کے لئے آگے بڑھانا چاہتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے
خلاف سنجیدہ اقدامات کرے اور اپنی سرزمین سے بھارت کے خلاف مبینہ دہشت
گردانہ کاروائیوں کو روکے تو بھارت پاکستان سے مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہوگا
ورنہ مذاکرات ہر بار کی طرح اِس بار بھی بے مقصد ثابت ہونگے۔
اِس صورت ِ حال میں پاکستان کو یہ کرنا چاہئے کہ پاکستان بھارت کی مذاکرات
کی دعوت کو رد کردے اور بھارت پر اپنی یہ شرط عائد کردے کہ پاکستان بھارت
کے مذاکرات کے عمل میں اُس وقت تک شامل نہیں ہوگا کہ جب تک بھارت دہشت گردی
کے علاوہ پاکستان کو درپیش نئے اور پرانے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ نہیں
ہوجاتا اُس وقت تک پاکستان بھارت کی جانب سے بہتر تعلقات کے استوار کرنے
سمیت بھارت کو درپیش دہشت گردی کے کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے مذاکرات شروع
نہیں کرے گا۔ |