پاکستانی حکومت کی جانب سے بھارت
کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی ایک اور کوشش کے تحت بھارت جانے
والے وفد میں عین آخری وقت پر تبدیلی کا فیصلہ بہت کچھ کہہ گیا ہے، اگرچہ
بھارت نے عین وقت پر مذاکراتی وفد میں کسی قسم کی تبدیلی کی تردید کی لیکن
ماہرین نے اسے خبر کا تاثر تبدیل کرنے کی کوشش سے ذیادہ اہمیت نہیں دی۔ اس
تبدیلی کے تحت وزارت پانی و بجلی اور داخلہ کے نمائندوں کو بھارت جانے والے
وفد سے نکال کر ان کی جگہ محکمہ داخلہ کے ہی دو افراد کو شامل کر لیا گیا
تھا۔ جس کے بعد مذکورہ وفد نئی کمپوزیشن کے ساتھ بھارت گیا۔
انڈین وزیر داخلہ پی چدم برم کی جانب سے گزشتہ ہفتہ سامنے آنے ولے توہین
آمیز بیان کے بعد درست اقدام نہ کیا جانا اس کی وجہ بنا ہے یا اپنی تمام تر
آزادی و سالمیت اور حمیت کو داﺅ پر لگا کر محض مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا
شوق ہمارے حکمرانوں کو اس پر مجبور کر رہا ہے یہ دونوں باتیں اپنی جگہ جواب
طلب اور توجہ دئے جانے کی منتظر ہیں۔ جس کا جواب اگر ہم نے نہ دیا تو شاید
آنے والا وقت دے دے لیکن وہ کن الفاظ میں دے گا اور کسے محبوں اور غداروں
کے زمرے میں کھڑا کرے گا یہ دیکھنے کے لئے ابھی انتظار کرنا ہو گا۔ بالکل
ویسا ہی انتظار جیسا چینی نہ ملنے پر یوٹیلیٹی اسٹور کے باہر، پٹرول نہ
ملنے پر پٹرول پمپ کے باہر، روٹی نہ ملنے پر تنور کے باہر دوا نہ ملنے پر
اسپتال کے باہر اور آٹا نہ ملنے پر حکومت کے سستا آٹا مرکز کے باہر کرنا
عوام کی مجبوری بن گیا ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ مذاکرات دونوں ملکوں کے
مابین موجود مسائل کو حل کرنے کے لئے اعلیٰ سطحی مذاکرات سے قبل کی ایک مشق
ہیں جن کا اس کے سوا کوئی فائدہ نہیں کہ یہ آئندہ مذاکرات کے ایجنڈے کی
تیاری اور اس میں دونوں جانب سے موجود مؤقف کو اس سطح پر لانے کا کام کریں
گے جس پر بات چیت آگے بڑھائی جا سکے۔
24فروری کو بھارت جانے والے وفد میں سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر، دفتر خارجہ
کے ترجمان عبدالباسط، محکمہ خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل، دو ایڈیشنل سیکرٹریز
اور تین ڈائریکٹرز شامل تھے۔ جب کہ بھارتی مطالبے سے قبل پڑوسی ملک جانے
والے وفد میں وزارت خارجہ کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ وزارت پانی و بجلی اور
وزارت داخلہ کا بھی ایک ایک نمائندہ شامل تھا۔
اس فیصلے اور وفد کے بھارت جانے سے چند روز قبل انڈین صدر، وزیراعظم، وزیر
خارجہ اور وزیر داخلہ کے بیانات یہ واضح کر رہے ہیں کہ ہم جن مذاکرات کی
امید لگائے بیٹھے ہیں ان کے ایجنڈے میں سرے سے وہ مسائل شامل ہی نہیں ہیں
جن کا حل پاکستانی قوم کے دل کی آواز اور ملکی ضرورت ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ
ایس ایم کرشنا نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مذاکرات کے دروازے بند
نہیں کئے لیکن جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے تو ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ
کشمیر اب ماضی کا قصہ بن گیا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات بحال
کروانے میں کئی چینلز کے فعال ہونےکی تصدیق کرتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا
تھا کہ اصل صورتحال بات چیت شروع ہونے کے بعد سامنے آئے گی۔
جب کہ آزاد ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق جن جامع مذاکرات کی خواہش پر
یہ ذلت آمیز شرط قبول کی گئی ہے وہ بھارت کا مقصد ہی نہیں ہیں۔ بھارتی
وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ بھارتی مؤقف میں
تبدیلی آسکتی ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے تیار کی جانے والی سمری
میں بھی جن موضوعات کو مذاکرات کا حصہ بنایا گیا ہے وہ صرف دہشت گردی تک
محدود ہیں۔ ذیادہ سے ذیادہ کسی مسئلے پر بات ہونے کا امکان ہے تو وہ یہ کہ
بھار ت بلوچستان میں اپنی مداخلت کے الزام کو دور کرنے کے لئے بات چیت کرے
گا۔
بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے 14 فروری کو نئی دہلی میں میڈیا سے بات
چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت میں مذاکرات نتیجہ خیز ہونے کی
امید نہیں ہے۔ جب کہ اس کے اگلے روز 15فروری کو پونا میں ہونے والے بم
دھماکوں کے بعد وزیر داخلہ پی چدم برم کو ہدایت دیتے ہوئے ان کا ارشاد عالی
تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت دہشت گردی کے علاوہ کسی دوسرے مسئلہ
پر نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن اگر پاکستان کشمیر اور دوسرے مسائل پر مذکرات
کرنے کو بضد ہے تو انہیں ملتوی کر دیا جائے۔ واضح رہے کہ پونا بم دھماکوں
کا الزام بھی بغیر تحقیق کے کسی رچرڈ ہیڈلی نامی فرد پر لگا کر اسے
پاکستانی قرار دے دیا گیا تھا۔
رہی سہی کسر 22فروری کو اس وقت پوری ہو گئی جب بھارتی خاتون صدر پرتیبھا
پٹیل نے تحت اللفظ یہ کہہ ڈالا کہ دہشت گردی کے علاوہ کسی مسئلہ پر بات چیت
نہیں ہو سکتی۔ اگر پاکستان بہتر تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے تو اسے
بھارت کے خلاف ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں کو روکنا ہوگا۔
بالکل آخری وقت میں یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ بھارت دہشت گردی کے علاوہ
دیگر معاملات پر بھی بات چیت کرنے کو تیار ہو گیا ہے۔ پی چدمبرم نے مقبوضہ
کشمیر کی کٹھ پتلی جماعت کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ
مفتی سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات
میں سرحدوں کے آر پار تجارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی بنک کو آزاد کشمیر
میں بھی کھولنے کی اجازت دینے کے مسئلہ پر بات چیت کی جائے گی۔ اس انکشاف
آمیز اعلان نے ایک بار پھر یہ بات واضح کر دی کہ بھارت اول و آخر جس بات کو
اہمیت دے کر مذاکراتی ایجنڈے کا حصہ بناتا چاہتا ہے وہ اس کے مفادات سے
شروع ہوتی اور وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ اس پورے ایجنڈے میں کچھ لو کچھ دو کا
اصول کہیں کار فرما ہی نہیں، نہ ہی پاکستان سے ہونے والی ذیادتیوں کا ازالہ
مقصود ہے۔
ہم جن مذاکرات کے لئے مرے جا رہے ہیں اور اپنے عالم شوق میں کسی بھی سطح پر
قومی اتفاق رائے کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں ان کے متعلق فریق
مخالف کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ اس نے قومی کانفرنس طلب کی تاکہ ایک
متفقہ لائحہ عمل تشکیل دے کر آگے بڑھا جائے۔ دوسری جانب وہ پاکستان کے لئے
مختص دریاﺅں پر بند باندھنے سے ایک قدم آگے بڑھ کر تاجکستان میں ہوائی اڈے
کے قیام، جاپان سے تعلقات میں بہتری لا رہا ہے۔ امریکہ کے افغانستان سے
نکلنے کی کسی بھی کوشش سے ناراض ہونے والا بھارت اتنی مہربانیوں کے بعد بھی
یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ پاکستان کی حمایت کر رہا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن
پوسٹ کے مطابق امریکا کا پاکستان پر انحصار بھارت کے لئے پریشانی کا سبب بن
رہا ہے۔ چین کی سرحدوں پر فوج لگانے کے بعد میزائل پروگرام کی توسیع کا
اعلان بھی اسی حکمت عملی کی کڑی ہے جس کا مقصد خطے میں اپنے کردار کو کم
ہونے سے بچانا اور موجودہ پوزیشن کو بحال رکھنا ہے۔ فوری طور پر اگر
مذاکرات کا ڈول ڈالا بھی گیا ہے تو اس کا اصل مقصد وقت کے حصول سے ذیادہ
کچھ بھی نہیں ہے۔
الزامات کی بھرمار، غیر یقینیوں کے عفریت کی موجودگی میں بنیادی مسائل کو
قطع نظر کر کے مذاکرات کس کی ایماء پر ہو رہے ہیں؟ یہ سوال بھی گزشتہ چند
دنوں کا جائزہ لینے اور عالمی افق پر ہونے والے اقدامات کو سمجھنے کے بعد
حل طلب نہیں رہتا۔ امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیاء رابرٹ بلیک
نے 22فروری کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ پاک بھارت بات چیت بڑی پیش رفت
ہے جو جامع مذاکرات کی بحالی کی راہ ہموار کرے گی۔ رابرٹ بلیک کا کہنا تھا
کہ امریکی حکومت پاکستان و بھارت کے درمیان بات چیت کا خیر مقدم کرتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات چیت ایک بڑا بریک تھرو اور دونوں ملکوں کے
لئے موقع ہے کہ وہ جامع مذاکرات کی بحالی کے طریقوں پر غور کر سکیں۔ امریکی
نائب وزیر خارجہ نے دانستہ یا نادانستہ اپنے دل کی بات کہتے ہوئے کہا کہ
2004ءسے2007ء کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات پر کافی پیش
رفت ہوئی تھی۔ امریکا، بھارت اور پاکستان تینوں کو امید ہے کہ پیش رفت کا
یہ سلسلہ دوبارہ شروع کیا جا سکتا ہے۔
رابرٹ بلیک نے جس عرصہ کی جانب اشارہ کیا ہے یہ وہی وقت ہے جب بھارت نے یکے
بعد دیگرے بگلیہار ڈیم سمیت دیگر متنازعہ آبی منصوبوں پر کام کو آگے
بڑھایا، بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کا ڈرامہ رچانے سمیت، مالیگاﺅں بم دھماکوں
اور حیدرآباد سمیت دیگر مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلم کش فسادات کروائے
تھے۔ مؤخر الذکر کے متعلق بعد میں مشہور زمانہ کردار ہیمنت کرکرے کی تحقیق
کے مطابق ان میں بھارتی فوج کے کرنل سطح تک کے افسران ملوث پائے گئے۔ اگرچہ
یہ تحقیق بمبئی حملوں کے دوران کرکرے کو قتل کر دئے جانے کے بعد پھر دوبارہ
پوری نہیں ہو سکی لیکن ابتدائی طور پر سامنے آنے والی اطلاعات نے یہ واضح
کر دیا تھا کہ منصوبہ سازوں کا تعلق بھارتی انتہا پسند جماعتوں اور عسکری
حلقوں سے ہے۔
بھارتی صدر، وزیراعظم، وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ سمیت دیگر سیاسی قیادت
پاکستان کو مذاکرات کے نام پر جہاں لے جانا چاہتی ہے وہ محض وقت لینے سے
ذیادہ کچھ نہیں۔ تاکہ کسی نئے طریقے سے الزامات لگانے کا موقع مہیا ہو سکے۔
اگر اس دوران کشمیر پر بات نہیں کرنی، آبی مسئلہ مذاکراتی ایجنڈے کا حصہ
نہیں ہو سکتا، بھارت کی جانب سے آئے روز لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال
فائرنگ پر بھی گفتگو نہیں ہو گی، افغانستان کے ساتھ ساتھ مشرقی سرحدوں پر
واقع قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں کھلی مداخلت پر بھی صورتحال کی وضاحت
ممکن نہیں تو پھر انتہائی ذلت آمیز شرائط پر کیا محض مذاکرات مذاکرات کا
کھیل کھیلنا ہی مقصد ہے؟
اگرچہ امریکی میڈیا یہ تاثر دے رہا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ امریکی
دوستی پر مضطرب ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا ہی کی جانب سے شہ دئے جانے
پر بھارت نے اپنی فوجوں کو چین کی سرحدوں پر منتقل کیا، اسے افغانستان سے
نکلنے سے روکنے کے لئے پونا دھماکوں کا الزام پاکستان پر لگایا اور مذاکرات
پر مشروط آمادگی اس لئے ظاہر کی کہ فی الوقت یہ امریکا کی خواہش ہے جس کا
مقصد افغانستان میں جاری آپریشن میں کسی بھی قیمت پر کامیابی حاصل کرنا ہے۔
بھارتی آبی جارحیت کا مسئلہ گفتگو سے آگے بڑھ کر عملی صورت اختیار کرنے کے
بعد ہماری زمینوں کو بنجر کرنے اور ڈیموں کو خشک کرنے تک پہنچ چکا ہے۔
کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد لاشے انصاف مانگ رہے ہیں، کنٹرول لائن پر
فائرنگ، افغانستان میں پاکستان مخالف عناصر کو جمع کرنا اور ان پر بھاری
بجٹ خرچ کر کے اپنے پاﺅں جمانے کی کوشش ایک پوری داستان ہے، ذلت آمیز شرائط
کو تسلیم کرنے اور ہر قدم پر بھارت کی ناروا ضد ماننے کے علاوہ باعزت راستے
کا انتخاب ہی آپشن بچاہے۔ بات چیت یقیناً غلط نہیں مگر اس وقت تک مفید بھی
نہیں جب تک ایجنڈا بنیادی مسائل پر مشتمل اور معاملہ برابری کی بنیاد پر نہ
ہو۔ اس تناظر میں یہ بات سامنے کی ہے کہ کشمیر، پانی اور بھارتی جارحیت کو
روکے اور ان سنگین مسائل کا حل تلاش کئے بغیر کوئی بھی مذاکرات وقت کے ضیاع
اور مخالف فریق کو وقت دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔ خصوصاً بغیر پیشگی تیاری
اور قومی یکسوئی کے نتائج کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟ اگر یہ احمقوں کی
جنت میں رہنا نہیں تو کیا ہے؟ ہم بھی دیکھتے ہیں، آپ بھی دیکھیں، مگر عمل
کے لئے سوچنا شرط ہے۔ |