جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے جس کی
تعریف اگر کتابوں میں تحریر کے مطابق لیں تو اُن میں درج ہے کہ لوگوں کی
حکمرانی لوگوں کیلئے لوگوں پر۔ مسلمان کیلئے تو یہ جائز نہیں کہ وہ ایسی
حکمرانی کو قبول کرے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا کہ
حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے اس قرآن کے آیت سے ہمیں یہ واضح حکم ملتا ہے
اقتدار اعلیٰ شریعت کو حاصل ہے نہ کہ عوام کو اور اس کے علاوہ بھی قرآن میں
کثیر تعداد میں آیات موجود ہیں جو ہماری رہنمائی اس طرف کرتی ہیں کہ اسلام
میں حکمرانی صرف اللہ کے نازل کردہ کے مطابق ہی کی جاتی ہے اور اللہ کے
نازل کردہ کے مقابلے میں لوگوں کی خواہشات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ تو ہے
وہ بنیادی وجہ جس کے بعد کسی بھی مسلمان کیلئے جمہوریت کو اپنانا جائز نہیں
چاہے استعمار اُس کو اسلامی جمہوریت کے نام سے یا کسی بھی قسم کے فریب سے
دے۔
جمہوریت میں حکمرانی کے اصولوں کی حقیقت پر بحث کی جائے تو ہمیں گہری نظر
ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ جمہوریت میں اور آمریت میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ
یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ آمریت ایک شخصی حکمرانی ہے اور جمہوریت
میں ایک خاص طبقہ ہے جو لوگوں پر حکمرانی کرتا ہے۔ آمریت میں حکمران اپنے
اقتدار کو طول دینے کیلئے اُس کی اتھارٹی کو قائم رکھنے والے لوگوں کو
نوازتا ہے اور اس کیلئے وہ لوگوں کی رائے اور عوام کے مفادات کو پس پشت
ڈالے رکھتا ہے۔ جمہوریت میں بھی ایک وزیراعظم یا صدر کو اپنا اقتدار بچانے
کیلئے پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کو قائم رکھنا ہوتا ہے جس وجہ سے وہ مسلسل
۵ سال اپنے ہی ارکان پارلیمنٹ کے ہاتھوں بلیک میل ہوتا رہتا ہے اور اس
حکومت کو چلانے کیلئے اُسے وزارتوں کی بندر بانٹ کرنی پڑتی ہے اور جو
وزارتوں سے محروم رہتے ہیں اُن کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر سیاسی رشوت دینی
پڑتی ہے جن پر اُن ارکان کا پورا اختیار ہوتا ہے اور وہ لوگوں پر خرچ کرنے
کی بجائے اُس سے الیکشن پر خرچ کی گئی رقم کو منافع سمیت وصول کرنا اپنا
بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں خلیفہ کو اپنی خلافت کو قائم رکھنے
کیلئے کسی قسم کی بلیک میلنگ کا سامنا نہیں ہوتا کیونکہ وہ جب ایک دفعہ
مسلمانوں کی بیت کے ذریعے چُنا جاتا ہے تو وہ اپنی حیات کے اختتام تک
مسلمانوں کا امیر رہتا ہے اور اُس کو اپنا اقتدار بچانے کیلئے صرف ایک ہی
شرط ملحوظ ہوتی ہے کہ اُس کو اللہ کے نازل کردہ سے ہی حکومت کرنی ہوتی ہے
اور اگر وہ اس شرط کو ملحوظ نہ رکھے تو اُسے معزول کردیا جاتا ہے۔
جمہوریت کے حامی لوگوں کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ جمہوریت میں حکمران
اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ جمہوریت میں
کبھی بھی ووٹنگ سو فیصد نہیں ہوتی۔ اگر زیادہ سے زیادہ بھی اندازہ لگایا
جائے تو ۲۵ سے ۳۰ فیصد ووٹ ڈالا جاتا ہے جس میں سے حکمرانی کرنے والا گروہ
۷ سے ۱۰ فیصد ووٹ کی نمائندگی کرتا ہے جو کہ واضح ہے کہ اقلیت کا نمائندہ
گروہ حکمرانی کررہا ہوتا ہے۔ جبکہ خلافت میں جب خلیفہ انتخابی مرحلہ سے گزر
جاتا ہے تو تمام کی تمام اُمت اُس کو بیعت اطاعت دیتی ہے اور شرح کے مطابق
حکمرانی کرنے پر اُس کے ہر حکم کی اطاعت کرتی ہے۔ خلافت میں حزب اختلاف کی
بجائے خلیفہ کو ہر وقت مجلس اُمت میں احتساب کا سامنا کرنا ہوتا ہے اگر وہ
اللہ کے نازل کردہ کو نافذ نہ کرے ورنہ ہر نمائندہ خلیفہ کے اطاعت کا پابند
ہوتا ہے جبکہ جمہوریت میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف، مختلف صوبے اور وفاق
ہمیشہ کسی نہ کسی مخاصمت کا شکار رہتے ہیں حکمران ہمیشہ اپنے اقتدار کا
بچانے میں لگے رہتے ہیں اور حزب اختلاف ہمیشہ اُس کو گرانے کی سازش میں لگے
رہتے ہیں۔
اگر ہم انسانی عقل کا اللہ کے نازل کردہ کے ساتھ مقابلہ کریں تو ہمیشہ ہمیں
انسانی عقل کے بنائے ہوئے نظام میں خامیاں ہی ملیں گی کیونکہ انسان جتنا
بھی ذہین اور فتین کیوں نہ ہو اُس کی عقل ہمیشہ تفاوت، تناقض، اور تضاد کا
شکار رہتی ہے اور ہمیشہ اپنے ماحول سے اثر لیتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں وہ
خالق مدبر جس نے انسان کی تخلیق کی بلکہ کُل کی کُل کو تخلیق کیا تو وہی
جانتا ہے کہ انسان کو اس دنیا میں زندگی گزارنے کیلئے کن قوانین کی ضرورت
ہے اور وہی قوانین مکمل بغیر کسی خامی کے ہوسکتے ہیں۔ اسلئے خلافت ہی وہ
نظام حکومت ہے جو حقیقی معنوں میں مسلمانوں کا نظام ہے نہ کہ جمہوریت جس کے
اُصول خامیوں سے بھرپور ہیں ۔ |