حیاتیاتی تنوع اور اسلامی نقطہ نظر

 اس کرۂ ارض پر یا اسکے کسی ایک علاقہ میں مختلف اقسام کے جانداروں ( انسان ۔ حیوان ۔پرندے۔ کیڑے مکوڑے ) یا پھر چھوٹے یا بڑے نباتات کی موجودگی کو حیاتیاتی تنوع کا نام دیا جاتا ہے۔ اور جسے انگریزی میں BIOLOGICAL DIVERSITY یا مختصر طور پر BIODIVERSITY کہا جاتا ہے۔ پچھلی پانچ دہائیوں سے ساری دنیا کے با شعور اور با خبر لوگوں میں عموما ًاور حکومتوں میں خصوصا ً یہ احساس جاگا ہے کی قدرت کی بنائی اس تنوع (Diversity) میں تبدیلی یا کمی انسانی زندگی کے لئے بڑی مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ کچھ سائنسدانوں کا تو یہ بھی نظریہ ہے کہ موجودہ دور میں اس دنیا کو سب سے بڑا خطرہ جنگلات کے ختم ہونے اور پرند وں و چرند وں کے کم ہونے میں ہے۔کیونکہ ایسی صورت میں قدرتی آفات( سیلاب۔آندھی۔طوفان) کا آنا لازمی ہے اور پھر انسانوں میں مہلک بیماریوں کا اضافہ یقینی ہے۔
بیسویں صدی کی حیرت انگیز سائنسی ترقی اور تجارتی ترقی نے جہاں ایک طرف سائنسی زندگی کے مختلف زمروں میں سہولتیں اور آسانیاں مہیا کرائی ہے۔ وہاں دوسری طرف بعض خطرناک مسائل بھی پیدا کردئے ہیں جن سے نمٹنا روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) سے پیدا ہونے والے مسائل اتنے پیچیدہ ہیں اور ان کے حل اتنے مشکل ہیں کہ پوری دنیا کی سرکاریں پریشانی میں پڑ گئی ہیں۔ساری دنیا میں دانشوران مشکل میں پڑ گئے ہیں اور عوام میں بہت بے چینی پیدا ہوچکی ہے۔ ان مشکلات میں سب سے بڑی مشکل اور کسی حد تک خطرناک بھی، ماحولیات کے توازن کا بگڑنا ہے۔ وہ توازن جو لاکھوں سال سے جاندار اور بے جان کے بیچ میں موجود رہا ہے۔ وہ توازن جو انسان اور جانوروں کے اور پودوں کے بیچ رہا ہے اور جس میں پودوں کا اہم رول شامل ہے۔ انسان، جنگل، پہاڑ ان پر جمے گلیشیر، ندیاں، میدان، سمندر اور ان کو گھیرے میں لئے ہوئے ماحول، یہ سب کے سب ایک خاص انداز اور تعداد میں ایک دوسرے کیلئے ضروری ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کا کمزور پڑنا یا کم ہوجانا دوسرے کیلئے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔اس تنوع کو بگاڑنا انسانیت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے ۔یہ عمل مختلف امراض کو جنم دے سکتاہے

اسلامی نقطۂ نظر سے حیاتیاتی تنوع کے توازن کو بگاڑنے میں انسان کا حصہ دار ہونا ایک گناہ ہے اور فطرت سے ٹکرانے کے برابر ہے۔ اس زمین پر نباتات اور حیوانات کے تحفظ کی ذمہ داری ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے۔اس ذمہ داری کی جانب بہت صاف اشارے قرآن اور حدیث میں موجود ہیں، جن کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔

اس زمین پر انسان کی حیثیت ایک خلیفہ کی ہے جس کا فرض ہے کہ وہ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے یہاں کے ماحولیات کا تحفظ کرے اور جس کا حکم سورۂ انعام میں موجود ہے۔ اﷲ تعالیٰ انسان کو پورا اختیار دیتا ہے کہ وہ اس سرزمین کی ہر چیز کا استعمال ایک خاص انداز سے کرے۔ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انسان ساری مخلوق میں افضل ہے، لیکن اس کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسری مخلوق کے اوپر کوئی ظلم وزیاتی کرے ۔نباتات اور حیوانات کے تحفظ کو ایک دینی فریضہ بتانادراصل ایک اسلامی فکر ہے۔ سورہ انعام (آیت 38 ) میں ارشاد ہے ـ ۔۔’’ اور زمین مین چلنے والے جانور اور دو پروں پر اڑنے والے(پرندے) تمہاری طرح جماعتیں (خاندان) ہیں‘‘۔ حد تو یہ ہے کہ قرآنی ارشادات کی روشنی میں پانی کا غلط استعمال بھی منع کیا گیا ہے۔ سورۂ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’کھاؤ اور پیو لیکن اسراف سے بچو‘‘

قرآن میں متعدد آیات ہیں جن میں حیوانی اور نباتاتی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔حیرت انگیزدنیاوی تنوع کی خوبصورتی کو مختلف آیات میں بیان فرمایا گیا ہے، انسان کو زمین کے ماحول میں تبدیلی کا نہ تو حق ہے اور نہ ہی اجازت ۔ قرآن کی ایک آیت میں بہت واضح طور پر ایسا کرنے کی سزا بتائی گئی ہے، سورۂ روم میں اﷲ فرماتا ہے کہ ’’زمین اور سمندر میں انسان کے ہاتھوں جو کچھ بھی غلط ہوتا ہے اس کا نقصان اس کو اٹھانا پڑتا ہے‘‘ یہ آیت ایک تنبیہ ہے ان جوگوں کے لیئے جو اس سرزمین کے تنوع کو بدلنا چاہتے ہیں، اسی طرح سورۂ البقرہ میں فرمایا گیا ہے کہ اﷲ کے نزدیک ایسے لوگ جو جانور یا پودوں کو نقصان پہنچاتے ہیں وہ در اصل اس سرزمین پر فساد بپا کرتے ہیں اور جس کی سزا متعین ہے ۔ قرآن کے ان احکامات کی روشنی میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حیاتیاتی زندگی کو محفوظ رکھنے کیلئے بہت سے احکامات صادر فرمائے ہیں ان میں سے کچھ ذیل میں دئے جاتے ہیں :-
’’یہ دنیا سبزہ زار ہے اور اﷲ نے تم کو اس پر خلیفہ مقرر کیا ہے یہ دیکھنے کیلئے کہ تم کیسا عمل کرتے ہو‘‘۔ (صحیح مسلم)
جو مسلمان کوئی درخت لگائے اور اس میں(پھل یا چارہ) انسان یا جانور کھائے تو بونے والے کے لئے وہ تا قیامت باعث ثواب (صدقہ) ہو گا ( راوی۔ حضرت جابر بن عبدﷲ۔ مسلم)
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک موقعہ پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’تمام جاندار اﷲ کی ایک مخلوق ہیں اور ان میں سے اﷲ سب سے زیادہ ان کو پسند کرتا ہے جو ان مخلوقات کو فائدہ پہنچاتے ہیں‘‘۔ (بخاری)
اﷲ چاہتا ہے کہ انسان ساری کائنات میں ہرجاندار کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے ان میں سے کسی پر ظلم وزیادتی خواہ وہ جانور ہو یا پرندہ انسان کو جہنم میں پھینکنے کیلئے کافی ہوگی۔معصوم جاندار کو تکلیف پہنچانا ایک بڑاگناہ ہے ۔ اﷲ کے رسول نے یہ فرمایا کہ’’ـ جانور کے ساتھ اچھا برتاؤ بالکل ویسا ہی ہے جیسے انسان کے ساتھ اچھا برتاؤ اور جانور پر ظلم بھی اتنا ہی برا ہے جتنا انسان پر ظلم ‘‘۔ (بخاری)
کچھ دوسری احادیث جو حیوانی زندگی کے متعلق ہیں وہ ذیل میں درج کی جاتی ہیں :-
رسول اﷲ نے ایک موقعہ پر اپنے صحابیوں سے فرمایا کہ ’’ایک خراب کردار کی عورت صرف اس لئے بخش دی گئی کیونکہ ایک پیاسے کتے کو پانی پلادیا تھا‘‘۔ مشہور یورپ کے مؤرخ Montgomery Watt نے تحریر کیا ہے کہ جانوروں کے لئے رسول اﷲ کا رحم حیرت انگیز تھا۔۔َّ

Dr.M.I.H. Farooqi
About the Author: Dr.M.I.H. Farooqi Read More Articles by Dr.M.I.H. Farooqi : 11 Articles with 22861 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.