ذرائع ابلاغ کے اس قدر
پھیلاؤ سے پہلے دنیا بالکل محدود تھی۔علم کا سب سے بڑا ذریعہ گھر کے بز رگ
ہی ہو تے تھے۔ہر علم سینہ بہ سینہ ہی چلتا تھا۔کوئی چیز کہیں لکھی نظر نہ آ
ئی مگر پھر بھی ایسی مستند معلومات کہ جوبا ت اماں جی نے کہی وہی استاد نے
بتا ئی ،چو پال میں گئے تو اس کی تشریح سنائی دی۔ گویا علم نہ ہوا پتھر کی
لکیر ہو گئی۔ کہیں بھی دو رائے نہ تھیں مگر آج؟علم کی وسعت نے زندگی کو
کتنا پیچیدہ بنا دیا ہے ۔ہر معاملے میں دو رنگی، سہ رنگی بلکہ رنگا رنگی!
سب سے پہلے سائینس کو دیکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ اکھاڑ پچھاڑ وہیں نظر آ تی
ہے!
ماحولیات کا جائزہ لیں ،بیشتر ماہرین رو رہے ہیں کہ جنگلی حیات تبا ہ ہو
رہی ہے لوگ دھڑا دھڑ شکار کیے جا رہی ہیں ۔کتنے ہی جا نور ہیں کہ صفحہ ہستی
سے نا پید ہو رہے ہیں اورfood chain ٹو ٹ رہی ہے مگر ایک گروپ اور بھی ہے
جس کا کہنا ہے کہ جنگلات میں جا نور زیادہ ہو گئے ہیں اور درخت کم ہو رہے
ہیں ،لہذا لوگوں کی حو صلہ افزائی کی جائے کہ وہ شکار سے شوق فر مائیں تا
کہ جانوروں کی تعدا دبرقرار رہے۔
اس با ت سے سب آ گا ہ ہیں کہ درخت اگائیے ورنہ فضا میں آ کسیجن کی کمی ہو
جائے گی ،سانس لینا مشکل ہو جائے گا۔مگر ایک گروہ قلیل ہی سہی یہ ضرور کہتا
ہے کہ اگر روئے زمین پر درختوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو خطرہ ہے کہ آکسیجن
کی مقدار بڑ ھنے کی وجہ سے خود بخود آگ بڑ ھنی شروع ہو جائے گی جیسا کہ
پچھلے زمانوں میں ہو چکا ہے) کیونکہ آکسیجن جلنے میں مدد کر تی ہے۔
ماہر ماحولیات سخت پریشان ہیں کہ دنیا آ لودگی کی وجہ سے تباہ ہو رہی ہے
اور زمین کو بہتر بنانے کی صورت کی جائے کیونکہ ہمارے رہنے کے لئے صرف یہی
ایک جگہ ہے۔جبکہ ایک دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ دنیا تولا محالہ تباہ ہونی
ہی ہے پھر کیوں خواہ مخواہ اس کو درست کر نے میں وقت اور وسائل ضائع کیے جا
ئیں ؟
ماحولیات ہی کے ماہرین آ با دی کے بڑ ھنے اور اس کے ساتھ ساتھ وسائل کے
زیادہ سے زیادہ استعمال پر سخت برانگیختہ ہیں اور ان کی یہ سوچ کچھ ڈھکی
چھپی نہیں کہ اگر یہی حال رہا تو کرہ ارض پر کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ملے گی
جبکہ دوسرے گروہ( مذہبی نہیں بلکہ سائینسی ہی) کا کہنا ہے کہ ابھی تو
کائنات اور دنیا کا معمولی سا حصہ ہی explore ہوا ہے اور اگر حادثات اور
جنگوں کی وجہ سے آ بادی کا گراف نیچے آ تا رہا تو اس کا ئنات کا بہت سا حصہ
unexploredہی رہ جائے گا ۔ اس رائے میں فی الحال اتنی توانائی نہیں مگر بہر
حال یہ بھی اس معاملے کی ایک دوسری انتہا ہے کہ ہمیں دنیا کی آ بادی زیادہ
سے زیادہ بڑ ھانے کی فکر کر نی چاہئیے کہ مقابلہ دوسرے سیاروں کی مخلوق سے
ہو گا۔
دنیا کا درجہ حرارت بڑھنے کا خیال تو بہت عام ہے اور اس کی وجہ عموما گرین
ہاؤسز،کا رخانے یا دوسرے معنوں میں انسان کی بڑھتی ہوئی ضروریات ہیں مگر
کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا کا درجہ حرارت بڑھ نہیں رہا بلکہ گھٹ رہا
ہے اور اگر یہ ہی حال رہا تو دنیاایک ٹھنڈی اور اندھیری ہو جائے گی اور
شاید یہ وہی لوگ ہیں جو اقتصادی ترقی کو نا گزیر کہتے ہیں مثلا ان لوگوں کے
بقول اگر دنیا کو ایندھن کے مضر اثرات
سے پاک کرنے کے لئے سائیکلوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے تو بہر
حال اس کی تیاری بھی تو آ لودگی میں اضافہ کا باعث ہو سکتی ہے؟
اوزون کی تہہ میں شگاف پر تو سب متفق ہیں جس کے نتیجے میں قطبین پر برف
پگھل رہی ہے،لہذا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ دنیا میں پانی کی مقدار بڑھ جائے
گی۔ یہاں تک کہ خشکی کا ایک ٹکڑا بھی باقی نہیں رہے گا ( اس موضوع پر فلمیں
بن چکی ہیں )جبکہ اس کے بر عکس ایک دوسری رائے میں زمین پر پانی کی مقدار
کم ہو رہی ہے کیونکہ زمین بتدریج صحرا میں بدل رہی ہے اور اس کی وجہ وہی
موسموں کی تبدیلی بتائی جاتی ہے۔لہذا آ ئندہ جنگیں صرف اور صرف پانی کے لئے
ہی ہو ں گی۔
چلیں سائنس تو شروع ہی مفروضات سے ہوتی ہے اور پھر قوانین بننے تک کئی
مرحلوں سے گزرتی ہے۔سائنس دان بحث و مباحثہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کی ٹانگ
گھسیٹتے ہی ہیں ۔کبھی یہ بحث اصولی ہوتی ہے اور کبھی شخصی!ریاضی میں دو اور
دو ہمیشہ چار ہوتے ہیں مگر ایک رائے میں اگر fractions کو round کر لیا
جائے تو 2+2=5 بھی ہو سکتا ہے ۔پیسوں کے لین دین میں تو یہ ہی مفروضہ چلتا
ہے۔
اب دیگر شعبہ ہائے زندگی کا رخ کرتے ہیں !!!
ماہرین غذا ئیات خوب کھانے پینے پر زور دیتے ہیں کہ جان ہے تو جہاں ہے ۔دوسری
طرف یہ اعداد و شمار آ تے ہیں کہ کم کھانے کی وجہ سے بہت قلیل مقدار مر تی
ہے جبکہ زیادہ تر لوگ کثرت طعام کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہو کر اس جہاں
فانی سے گزر تے ہیں ۔چائے کی علت کو نہایت ضرر رساں کہا جاتا ہے مگر ساتھ
ساتھ اس کے بے شمار فوائد بھی ضرور بیان کیے جاتے ہیں اور تو اور سگریٹ
نوشی کے بارے میں بھی دورائے پائی جاتی ہیں ۔نقصانات والی رائے تو بہت عام
ہے مگر یہ بھی ایک رائے ہے کہ اس سے آپ سمارٹ رہتے ہیں لہذا مغرب میں
خواتین ڈائٹنگ کے لئے سموکنگ کر تی ہیں ۔
دانش وروں کی طرف دیکھا جائے تو حکیم محمد سعید کے منہ سے آ خری کلمات یہ
ہی نکلتے ہیں کہ مسلمانوں کے زوال کی وجہ کتاب سے دوری ہے(اور یہ کہ
الیکٹرانک میڈیا کسی طور پرپرنٹ میڈیا کی جگہ نہیں لے سکتا) ۔مسلمانوں نے
اپنے عروج میں کتنی ملین کتا بیں لکھیں اور شائع کروائیں۔دوسری طرف اشفاق
احمد کسی اور زاویے سے بات کر تے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ علم صرف لکھنے
پڑھنے کا نام نہیں ہے ! یہ تو بیان سے سینہ بہ سینہ آ گے بڑھتا ہے۔ اپنی
بات کو justify کر نے کے لئے محمد ﷺ کی مثال پیش کر تے ہیں کہ وہ کون سے پڑ
ھے لکھے تھے مگرعلم کاتو خزانہ تھے اور صرف بیان (تبلیغ) سے ہی لوگوں کو
سکھایا ۔ان کے خیال میں الیکٹرانک میڈیا کا اسقدر پھیلاؤ اسی ذریعہ (بیان)
کا revival ہے۔کیا کریں ؟؟ ایک طرف الماریوں میں سجی کتابیں ہیں تو دوسری
طرف آ ڈیو؍ویڈیو،سی ڈیز وغیرہ ۔کس کا انتخاب کریں دونوں ہی درست کہہ گئے
ہیں ۔
معاشیات کا رخ کرتے ہیں تو ایک گروہ کہتا ہے کہ پیسے کو بہت سوچ سمجھ کر
خرچ کر نا چاہئے،اتنی مشکلوں سے حاصل کیا جاتا ہے ۔خرچ کو آمدنی سے کم رہنا
چاہئیے۔ اس کے بر عکس دوسرا گروہ اس بات کا حامی ہے کہ ایک خرچ دوسرے کے
لئے آ مدنی کا با عث ہو تا ہے۔اگر تمام لوگ پیسے بچا نے لگیں تو اکثر یت تو
بھوکی مر جائے گی۔کہتے ہیں کہ استعمال سے چیزیں خراب ہو تی ہیں مگر ایک
دوسری رائے یہ ہے کہ اگر چیزوں کو استعمال نہ کیا جائے تو وہ ضائع ہو جاتی
ہیں ۔
ابلاغیات میں کمپیوٹر کی تعلیم پر اتنا زور ہے کہ اس کو نہ جا ننے والا جا
ہل تصور کیا جائے گاجبکہ دوسری رائے یہ بھی ہے کہ کمپیوٹر کا پورا سسٹم فیل
ہو جائے گا اور دنیا پھر manual پر آ جائے گی۔زبان کا پھیلاؤ کچھ لوگوں کے
لئے خوشی کا با عث ہے جبکہ ٹھیک اسی بات پر کچھ لوگ شاکی ہوتے ہیں کہ زبان
کی ریڑھ لگ رہی ہے،ہر نتھو خیرا ان کی زبان بول رہا ہے۔
کسی معقول آدمی سے پوچھیے تو وہ یہی کہے گا میڈیا پر تو بس شوبز یا کھیل کو
پروجیکٹ کیا جاتا ہے ۔علم و دانش و آ گہی کا تو کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔جبکہ
کھلاڑی ہوں یا شوبز سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے ہنر وفن کی نا قدری کا
رونا روتے نظر آئیں گے۔ہر فیلڈ میں ایک تجربہ کار نسل ہو تی ہے اور دوسری
وہ جو اس فیلڈ میں قدم رکھ رہی ہو تی ہے ۔ہر دو شا کی نظر آ تے ہیں۔تجر بہ
کار نسل کا شکوہ یہ ہو گا کہ اب تو پہلے جیسی اقدار و معاملات رہے ہی نہیں
ہیں ۔جبکہ نو وارد نسل کا یہ شکوہ یہ ہو گا کہ جو بوسیدہ روایات چل رہی ہیں
ان ہی کی پیر وی کرنی پڑ تی ہے۔،جدت کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں !
یہ دورنگی زندگی کے ہر پہلو میں نظر آ تی ہے خواہ معاملات ہوں یارحجا
نات!اختیارات ہوں یا اخلاقیات!حتٰی کہ بعض دفعہ محسوس ہو تا ہے کہ مذہب میں
بھی یہ الجھن موجود ہے ۔ مثلا ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ہاتھ نہ پھیلاؤ۔دوسری
طرف خیرات کی تلقین نظر آ تی ہے۔ ایک طرف یہ رحجان ہے کہ گرا ہوا کوڑا بھی
کسی سے نہ مانگو ،دوسری طرف لوگوں کی مدد پر اکسایا جا رہا ہے ۔ وغیرہ
وغیرہ
بات اصل یہ ہے کہ ہر چیز کی دو انتہاؤں کے درمیان میں ہی کوئی مقام مطلوب
ہو تا ہے جسے ایک ماہر غذائیات balance diet کہتا ہے تو ماہر ماحولیات
balance in Nature جبکہ قرآن اسے’’ المیزان ‘‘ کے نام سے پکارتا ہے۔ ہر
معاملے میں ان دو انتہاؤں کے درمیان جو سینکڑوں مثالیں، رویے، رحجانات،
معاملات نظر آ تے ہیں وہی تو دنیا کی خوبصورتی ہے ۔ یہ ہی تو بنانے والے کا
حسن ہے کہ اس نے ہر چیز منفرد بنائی ہے ۔ایک شاخ پر کھلنے والے دو پھول
بظاہر بالکل یکساں نظر آ تے ہیں مگر کچھ نہیں تو ان میں پو زیشن کا فرق
ضرور ہو گا۔۔تو آ ئیے!
اس نقطہ اعتدال کو تلاش کریں ،اسی میں ہماری بقا ہے ورنہ محض بھول بھلیوں
میں بھٹکنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا!! |