سانحہ صفورا۔۔۔اے دنیاکے منصفو!سلامتی کے ضامنو!

اس دنیامیں ظلم سے بڑھ کر قابلِ نفرت کوئی اور شئے نہیں۔ظلم کرنا بھی معیوب ہے اور ظلم سہنابھی جرات و بہادری کے خلاف ہے۔ظلم کو روکنا اور ظالم کو ٹوکناشجاعت کی علامت ہے۔کسی بھی معاشرے میں ظلم جتنا زیادہ ہوتاجائے،انصاف اور عدل اتناہی کم ہوتاجاتاہے۔چنانچہ ظلم کا خاتمہ ہر معاشرے کی ضرورت اور ہر انسان کے ضمیر کی آوز ہے۔

ظلم اس وقت تک بڑھتارہتاہے جب تک لوگ “جعلی ظالموں” کے ساتھ لڑتے رہتے ہیں۔ جعلی ظالموں سے الجھنا یعنی اصلی ظالموں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

ہم لوگ پاکستان میں ایک عرصے سے “جعلی ظالموں” کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔جعلی ظالم ہمیں اصلی اور حقیقی ظالموں کے حکم اور نقشے کے مطابق قتل کرتے ہیں جبکہ اصلی ظالم ہمارے جنازوں پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں اور ہماری لاشوں پر سیاست کرتے ہوئے ہماری مظلومیت کو سیڑھی بناکر ایوانِ اقتدار تک پہنچتے ہیں۔

جب بھی کہیں پر کوئی ظالمانہ کاروائی ہوتی ہے تو ہمارا تمام تر احتجاج جعلی ظالموں اور کرائےکے قاتلوں کے خلاف ہوتا ہے اور یوں اصلی اور حقیقی ظالم ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔

گزشتہ کچھ دنوں میں چند حضرات نے اپنے کالمز میں تفتان روٹ پر مسافروں پر ہونے والے مظالم کاذکر کیاہے۔عرصہ دراز سے کبھی ڈاکووں کے روپ میں مسافروں کو لوٹ لیاجاتاہے اور کبھی سرکاری اہلکار رشوت بٹورتے ہیں۔جب تجوریاں چھلکنے لگتی ہیں تو اس روٹ پر پھر ایک آدھ دہشت گردانہ کاروئی کروادی جاتی ہے جس کے بعدسرکاری محافظوں کے سارے کرتوت چھپ جاتے ہیں اور دہشت گرد موضوع بحث بن جاتے ہیں۔

لوگ دہشت گردوں سے سہمے رہتے ہیں اور سرکاری اہلکار اپنے مشن کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔یوں اس روٹ پر مسلسل لوٹ مار کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔

دوسری طرف اب کراچی میں اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے ۴۳ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیاہے۔پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں کی بربریت کا نشانہ بننے والے افراد کی عمریں 20 سے 70 برس کے درمیان تھیں، تمام افراد کو قریب سے گولیاں ماری گئیں اور تمام کو سر اور سینے میں گولیاں لگیں ۔

اس واقعے کے بعد زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ جعلی ظالموں کا کوئی گروہ اس سانحےکی ذمہ داری قبول کرے گا اور کچھ دہشت گردوں کے پکڑے جانے کے اعلانات سامنے آئیں گے۔

افسوس صد افسوس کہ ہمارے ملک میں کوئی ایسا غیرجانبدار اور آزاد ادارہ نہیں جو یہ تحقیق کرے کہ یہ کاروائی کس کی ایماء پر کی گئی؟کس واقعے سے توجہ ہٹانے کے لئے کی گئی؟کس کو کتنا بھتہ ملا؟کس کو کس گریڈ میں ترقی ملی ؟ کس کے بینک بیلنس میں کتنا اضافہ ہوا ؟اور کس نے کتنا ہضم کیا!؟۔

پاکستان جیسے مضبوط سیکورٹی فورسز رکھنے والے ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور لوٹ مار کا مطلب یہ ہے کہ یاتو اس ملک کی کلیدی پوسٹوں پر نااہل لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ ان واقعات کو نہیں روک سکتے اور یاپھر سرکاری افیسرز تو اہل ہیں لیکن خود مجرموں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور مجرموں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔

مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں ان لوگوں کو حکومتی اداروں سے جدا کرنا ضروری ہے۔یہ بات اظہر من الشّمس ہے کہ اگر ہماری خفیہ ایجنسیوں میں کالی بھیڑیں یہ ہوں اور ہمارے اعلیٰ حکام جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی نہ کریں تو کہیں پر نہ ہی تو کوئی رشوت لے سکتاہے اور نہ ہی بے گناہوں کا خون بہہ سکتاہے۔
غم اور دکھ کے ان لمحات میں ہم جہاں پراسماعیلی احباب سے تعزیت کرتے ہیں وہیں پریہ بھی عرض کریں گے کہ بے گناہوں کے اس لہو کو ضائع ہونے سے بچایاجائے۔جب تک ہم لوگ کرائے کے قاتلوں اور جعلی ظالموں کے خلاف احتجاج کرتے رہیں گے اس وقت تک بے گناہوں کا خون ضائع ہوتارہے گا اور حقیقی ظالم عیاشیاں کرتے رہیں گے۔

حقیقی ظالموں کے خلاف احتجاج کیجئے ،سرکاری قاتلوں اور مجرموں کے سرپرستوں کے خلاف آواز اٹھائیے۔

ہمیں اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جعلی ظالموں کے ساتھ لڑ کر ظلم کو ختم نہیں کیاجاسکتا۔ جعلی ظالموں سے الجھنے کا مطلب اصلی ظالموں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

ہم اس موقع پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برادری سے مربوط تمام اداروں سے بھی یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ مذمتی بیانات سے آگے بڑھیں اور پاکستان میں بسنے والے انسانوں پر سرکاری سرپرستی میں ڈھائے جانے والے مظالم کا نوٹس لیں۔
نذر حافی
About the Author: نذر حافی Read More Articles by نذر حافی: 35 Articles with 32480 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.