"کوئی دشمنی ازلی نہیں ہوتی اور
اس طرح کوئی دوستی بھی ہمیشہ کیلئے نہیں ہوتی،یہ اہم ترین قول ایرانی صدر
حسن روحانی کا تھا جن کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ تہران اور واشنگٹن کوشش
کرتے ہیں تو دونوں ممالک کے مابین گزشتہ تین عشروں سے بھی زائد عرصے سے
پائی جانے والی دشمنی کو دوستی میں بدلنا ممکن ہے۔ایرانی صدر حسن روحانی نے
واضح عندیہ دیا تھا کہ تہران میں امریکی سفارتخانے کا ایک مرتبہ پھر کھلنا
کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہوگی۔ " تاریخی لمحات ہوتے ہیں جب دیرینہ دشمن
اپنے موقف سے پیچھے ہٹ کر عوامی مفاد کیلئے اہم فیصلے کرتے ہیں ، امریکہ ،
ایران دوستی اور دشمنی پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ، اس مرحلے پر ان تعلقات
میں کیڑے نکالنا مناسب نہیں ، گو کہ پاکستان و عرب ممالک میں ایران ،
امریکہ کے تعلقات کو بڑی گہری نظر سے دیکھا گیا لیکن طاقت کے اس توازن کی
تبدیلی کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے جب بنگلہ دیش میں وہاب ریاض اور
شکیب الحسن کے درمیان تلخ کلامی کے دوران بنگالی کھلاڑی کی جانب سے
پاکستانی کھلاڑی کو انگلی دکھائے جانے پر شائقین کرکٹ حیرت زدہ رہ گئے کہ
کل تک نرم خو آج انگلی اٹھا کر دہمکیوں پر اتر آئے ہیں۔ایران آج مشرق وسطی
میں انتہائی اہم مملکت کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔عراق ، پھر شام کے بعد
ایران کی یمن میں موجودگی اور اثر رسوخ نے عالم اسلام میں دو مسالک کے
درمیان جنگوں کا آغاز کا امکان قرار دیا۔
حوثی باغی ، اسلام میں تفرقوں کی بنیاد پر اختلافات کا بھرپور فائدہ اٹھانا
چاہتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق اب تک اس جنگ میں1244افراد
ہلاک اور5044زخمی ہوچکے ہیں۔روس نے مملکت شام کی پشت پناہی کرتے ہوئے بے
گناہ معصوم عوام پر ظالم و جابر شامی صدر کی غاصب فوج کی جانب سے کیمیاوئی
ہتھیاروں کے استعمال کے باجود غاصب شامی جابر ظالم حکومت کا ساتھ دیکر ثابت
کیا کہ اسے مسلم امہ میں تفرقوں سے فائدہ پہنچ رہا ہے اور افغانستان میں
غیور مسلمانوں کے ہاتھوں بد ترین شکست کا بدلہ لینے کیلئے دوہرا کھیل کھیل
رہا ہے۔یمن میں بھی ایک عالمی سازش کے تحت مسلمانوں کو کمزور کیا جا رہا ہے
حوثی باغی شدت پسند اتنے مضبوط نہیں ہیں کہ وہ کامیاب ہوسکیں لیکن کچھ
عالمی طاقتیں پس پردہ رہ کر ان کی مدد کر رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ جنگ طوالت
اختیار کرتی جا رہی ہے گذشتہ دنوں سعودی سرحد کی ایک اہم چوکی پر زمینی
حملہ بھی کیا گیا جیسے بُری طرح پسپا کردیا گیا اور حملہ آوروں کو اپنے
ساتھیوں کی لاشیں چھوڑ کر جان بچانی پڑی۔حوثی دہشت گرد شدت پسند باغیوں نے
دالحکومت صنعا کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے رن ویز کے ناقابل استعمال ہونے
کے بعد شہر کے ایک بڑے گراؤنڈ کو ہوائی جہازوں کے رن وے میں تبدیل کردیا ہے
جہاں ایسے بعض جنگ کے خواہاں عناصر بھاری تعداد میں اسلحہ و جنگی ساز و
سامان پہنچا رہے ہیں۔
روس نے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرار داد بھی پیش کی لیکن شام کی طرح
طاقت کے زور پر قابض ہونے والوں کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے اتفاق رائے پیدا
نہیں ہوسکا۔ سلامتی کونسل کے ممبران کا کہنا تھا کہ اس قرار داد پر غور
کرنے کیلئے مزید وقت درکار ہے۔کیونکہ معاملہ مسلمانوں کی جانوں کا ہے اس
لئے سلامتی کونسل پس وپیش سے کام لے رہی ورنہ معاملہ اگر براہ راست امریکہ
کا ہوتا تو عراق اور افغانستان کی طرح فوراََ یمن پر بھی چڑھائی کردی جاتی۔
حوثی شدت پسند دہشت گردوں کے حمایتی اپنی جان بچانے کیلئے تو خلیجی ممالک
سے بھیک مانگ رہے ہیں لیکن ان حوثی باغیوں کو ان جانوں کا ذرا بھی خیال
نہیں ہے جو ان کی ضد ، ہٹ دھرمی اور شدت پسندی کی وجہ سے بے گناہ ہلاک ہو
رہی ہے۔غیر ملکی ابلاغ کے مطابق حوثی باغی سعودی حکومت کی جانب سے حملوں کا
بدلہ یمن کے معصوم بے گناہ عام عوام سے لے رہے ہیں جس سے خطے میں بغاوت
کیصورتحال سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق صرف چھ ہفتوں میں
1200سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ تین لاکھ سے زائد نے اپنا گھر بار چھوڑ
کر نقل مکانی کی۔ یہ بہت بڑا انسان المیہ ہے اور حوثی باغیوں کی مدد کرنے
ممالک و گروپوں کو معصوم انسانی جانوں سے نہیں کھیلنا چاہیے اور اپنی
اقتدار کی ہوس میں اس طرح یمنی عوام کو قربانی کی بھینٹ نہیں چڑھایا جانا
چاہیے۔یمن کے شہر عدن میں محصور خاندانوں پر بمباری کی جاتی ہے جبکہ ہسپتال
، امدادی ادارے اور اقوام متحدہ کے دفاتر پر بھی حملے کئے جا رہے ہیں
۔یقینی طور پر یہ ایک خطرناک صورتحال ہے حوثی شدت پسندوں کی جانب سے اقتدار
کی ہوس نے انھیں پاگل کردیا ہے اور انھیں انسانیت سے عاری کردیا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق ادارہ ایک ماہ کے اندر پندرہ لاکھ متاثرین کو
خوراک متاثر کرسکتا ہے لیکن ایسے فوری طور پر دو لاکھ لیٹر ایندھن کی ضرورت
تھی ، 26مارچ سے جاری سعودی فضائی حملوں کے بعد یمن کے باغیوں کی کمر تو
ٹوٹ چکی ہے لیکن بعض اہم طاقتیں مسلمانوں کو مزید کمزور کرنے کیلئے مثبت
کردار ادا نہیں کر رہے۔امریکہ اور ایران دشمنی اب دوستی میں تبدیل ہوچکی ہے
اور بتدریج اس میں استحکام آتا جا رہا ہے ، اسی تناظر میں امریکی وزیر
خارجہ جان کیری نے پنے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف سے یمن کے معاملے پر
تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کو کہا
تھا ۔قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس طرح کے معاملات ماضی میں کامیاب ہوچکے
ہیں جب غیر جانبدار ملک میں فریقین کے تنازعات کو حل کرانے کی کوشش کی گئی
تھی جس کی سب سے بڑی مثال افغانستان بحران ہے جب جرمنی میں 2001ء میں
کامیابی ملی تھی۔
جواد ظریف کا یہ بیان بڑا اہم تھا کہ" ـ2001ء میں اقوام متحدہ کے زیر
اہتمام بون کانفرنس میں امریکا کی قیادت میں اتحادی ممالک کے حملوں کے
نتیجے میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایک افغان حکومت قائم ہوئی تھی
، ایران نے اس کانفرنس میں حصہ لیا تھا اور نئی افغان حکومت کے قیام کے ضمن
میں امریکا کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ایران مانتا ہے کہ یمن میں بھی ایسا
معاملہ کیا جاسکتا ہے ۔"یہاں ہم اس بات کی مکمل توقع کرسکتے ہیں کہ مشرق
وسطی میں ایران اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے امن کے قیام میں اہم کردار ادا
کرسکتا ہے۔
پاکستان ایران کا پڑوسی ملک ضرور ہے لیکن ملکی خارجہ پالیسی میں خلیجی
ممالک کا عمل دخل با اتم موجود ہے ۔ علاوہ ازیں پاکستان کے نزدیک سب سے اہم
مسئلہ طالبان اور افغانستان ، امریکہ کے درمیان کامیاب مذاکرات کا ہونا ہے
، قطر میں ہونے والے سہہ فریقی ممالک مذاکرات میں کامیابی پاکستان کے
پائیدار امن کے لئے ضروری ہیں اور پاکستان اس عمل کی کامیابی کیلئے مکمل
تعاون بھی کر رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے۔خطے
کی اس صورتحال میں طاقت کا توازن گو کہ پاکستان کے حق میں بگڑ سکتا ہے
کیونکہ بھارت کی جانب سے در اندازیاں ، الزام تراشیاں اور کبھی کھبار افغان
ارباب اختیار کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات تمام امن کے ماحول کو خراب
کردیتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ یمن کا مسئلہ جلد از جلد حل ہو۔
اگر یمن کے باغیوں کیجانب سے ضد ، ہٹ دھرمی اور عوام کے خلاف انتقامی
کاروائیاں جاری رہیں تو تما م اسلامی ممالک کا نقصان ہے۔ |