شاہ سلمان کا اوبامہ کی زیرصدارت اجلاس میں شرکت سے انکار

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے امریکی صدر اوبامہ کی زیر قیادت خلیجی ممالک کے سربراہان کی کانفرنس میں شرکت سے انکار کرنے پر امریکی انتظامیہ ابھی تک سکتہ کی کیفیت میں ہے۔یمن بحران سے متعلق ہونے والی اس کانفرنس میں چھ ممالک جن میں سعودی عرب، کویت،قطر ، عمان اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں‘ کو مدعو کیا گیا ہے تاہم ابھی تک صرف کویت اور قطر دوممالک کے ہی اعلیٰ سطحی قائدین نے شرکت کی یقین دہانی کروائی ہے۔سعودی عرب کی جانب سے کہا گیا ہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز پہلے سے طے شدہ مصروفیات کی وجہ سے وائٹ ہاؤس کے اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے جبکہ امریکہ میں سعودی سفیر عادل الجبیرنے آگاہ کیا ہے کہ نئے ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف خلیج تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس میں مملکت سعودی عربیہ کی نمائندگی کریں گے ۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ نائب ولی عہدا ور وزیر داخلہ بھی ہوں گے ۔

شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو برسراقتدار آئے ابھی ساڑھے تین ماہ کا عرصہ گزرا ہے کہ اس مختصر وقت میں انہوں نے کئی اہم فیصلے کئے ہیں اورمختلف شعبوں میں قابل ذکر خدمات سرانجام دی ہیں۔ ابھی تک وہ بہت مضبوط اعصاب کے مالک ثابت ہوئے ہیں اوران میں بروقت جرأتمندانہ فیصلے کرنے کی خداداد صلاحیت موجود ہے۔اسے ان کی بہت بڑی خوبی شمار کیا جارہا ہے۔ خادم الحرمین شریفین نے شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز کواپنا ولی عہد اور شہزاد محمد بن نائف کو نائب ولی عہد نامزد کرنے کو مناسب سمجھاتاہم جب شہزادہ مقرن نے ولی عہد کی بھاری ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھانے سے معذرت کی تو شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ان کی معذرت قبول کرتے ہوئے شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد مقرر کیا اورسعودی عرب میں نوجوان قیادت کو آگے آنے کا موقع دیا تاکہ ریاست کے انتظامی معاملات کو زیادہ موثر طریقے سے چلایا جاسکے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نہ صرف ولی عہد دوم ہیں بلکہ وزیردفاع اور اقتصادی ترقی کونسل کے چیئرمین بھی ہیں۔ اسی طرح کابینہ میں دیگرنئے نوجوان وزراء کا تقررکیا گیا جسے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی سیاسی حکمت کا خاصہ قرار دیا جارہا ہے۔وہ سعودی عرب کے استحکام کیلئے فوری اور موثر فیصلوں کے حوالہ سے روایت شکن نظرآئے ہیں۔کئی شعبوں میں ترقی کیلئے انہوں نے اہم تبدیلیاں کیں جس کے واضح اثرات ابھی سے دکھائی دے رہے ہیں۔خادم الحرمین شریفین نے جہاں ملکی سطح پر اہم سیاسی فیصلے کئے وہیں یمن میں قیام امن اورحوثی باغیوں کی مکہ و مدینہ پر حملوں کی دھمکیوں کے پیش نظر ’’فیصلہ کن طوفان‘‘ آپریشن شروع کیاجس میں برادر اسلامی ملک کو زبردست کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ۔باغیوں کی کمر ٹوٹتی دیکھ کر وہ اسلام دشمن قوتیں جو یمن کو سعودی عرب کاافغانستان بنانے کے درپے ہیں‘ کے پیٹ میں بہت مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ افغانستان میں شکست پر یمن کو سازشوں کی آماجگاہ بنانے والے اتحادی ممالک کو بھی سعودی عرب کی یہ کامیابیاں ایک آنکھ نہیں بھا رہیں اور ان کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح اس کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کیا جائے۔ یہ ملک سعودی عرب کو تو یمن میں جنگ بندی کیلئے کہتے ہیں لیکن حوثی باغیوں کے سرزمین حرمین شریفین کی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھ روکنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ابھی حال ہی میں سعودی حکومت نے امدادی تنظیموں کیلئے راستہ کھلا رکھتے ہوئے پانچ دن کیلئے جنگ بندی کا اعلان کیاہے لیکن اس کے فوری بعد ہی حوثی باغیوں نے یمن کی سرحد سے متصل نجران اور جازان شہروں میں سرحد پار سے راکٹ حملے کئے ہیں جو اسکول اور ایک رہائشی مکان پر گرے جس سے ایک پاکستانی سمیت متعدد شہری شہید و زخمی ہو گئے۔یہ ایک طرح سے حوثیوں کا جنگ بندی معاہدہ تسلیم نہ کرنے کا واضح اعلان اور دوسرا سعودی شہروں پر حملے ان ناپاک عزائم کا اظہار بھی ہے کہ ان کا اصل ٹارگٹ سرزمین حرمین شریفین ہی ہے۔ بہرحال امریکہ اور اس کے اتحادی سعودی عرب کی جانب سے تو جنگ بندی دیکھنا چاہتے ہیں‘ مگرحوثیوں کی بغاوت کچلنے کیلئے ابھی تک انہوں نے کوئی اقدامات نہیں کئے ہیں اور نہ ہی ایسی ان کی کوئی خواہش دکھائی دیتی ہے جس پر ساری صورتحال بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ سعودی عر ب کے ساتھ کون ہے اور حوثیوں کا ہمدرد کون ہے؟برادر اسلامی ملک نے سرحدی علاقوں میں حوثی باغیوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لڑاکا فورس تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے اور حوثیوں کے خلاف فضائی کاروائی بھی جاری ہے۔یمن کے سابق صدر علی عبداﷲ صالح جنہوں نے تاحال کھلے بندوں حوثی باغیوں کی حمایت نہیں کی تھی اب علی الاعلان یہ کہہ دیا ہے کہ وہ پہلے حوثی باغیوں کے اتحادی نہیں تھے لیکن اب وہ ہر طرح سے ان کے ساتھ ہیں۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی حکومت کی طرف سے کئے گئے تما م فیصلے لائق تحسین ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ باغیوں کے سعودی شہروں پر حملوں سے اس پروپیگنڈہ کی بھی قلعی کھل گئی ہے کہ عرب اتحاد کی کاروائی سے حالات خراب ہو رہے ہیں۔حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ اگر سعودی عرب کی زیر قیادت عرب ممالک کی فضائیہ حوثی باغیوں کے خلاف آپریشن کا آغاز نہ کرتی تو اس وقت حالات بہت مختلف اور امت مسلمہ کے روحانی مرکز کیلئے سخت خطرات کھڑے ہوجاتے۔ حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے یمن کی سرزمین پر موجود بغاوت کا کچلنا بہت ضروری ہے۔سعودی سرحد پر لڑاکا فورس تعینات کرنے کا فیصلہ بھی بہت اچھا اور بروقت ہے۔یمن کے ساتھ طویل سرحد ہونے کی وجہ سے باغیوں کوحملوں کا موقع مل جاتا ہے۔ لڑاکا فورس کے تعینات کرنے سے یقینی طو رپر ان حملوں میں کمی آئے گی۔ جہاں تک شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا خلیج تعاون کونسل کے اجلاس میں شرکت سے معذرت کرنے کی بات ہے تواس فیصلہ کی بھی عالمی سطح پر بہت تحسین کی جارہی ہے۔ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ جس دن امریکی صدر اوبامہ کے سعودی عرب آنے پر اذان کی آواز سنتے ہی شاہ سلمان بن عبدالعزیز انہیں اکیلا چھوڑ کر مسجد چلے گئے تھے‘ اسی د ن یہ بات ثابت ہو گئی تھی کہ خادم الحرمین شریفین مسلم امہ کے حق میں اہم اور جرأتمندانہ فیصلے کریں گے۔ امریکہ جو خود کو دنیا کی سپر پاور سمجھتا ہے‘ وہ اس بات پر پریشان تھا کہ سعودی عرب نے اس کی بجائے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے ملک پاکستان سے کیوں مدد طلب کی ہے؟اور اب شاہ سلمان کے امریکی صدر کی زیر قیادت خلیج تعاون کونسل میں شرکت کرنے سے انکار کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ ہر ایک سے برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں اور امریکہ کی دوغلی پالیسیوں سے خوش نہیں ہیں۔امریکیوں نے اس وقت دوہرا معیار اپنا رکھا ہے ۔ وہ عربوں کو بھی تعاو ن کی یقین دہانیاں کرواتے ہیں۔ یمن میں امن کی باتیں کی جاتی ہیں اور دوسری طرف عربوں کے تحفظات نظر انداز کر کے ایران سے ایٹمی معاہدے کئے جارہے ہیں جسے عرب ممالک کسی صورت قبول نہیں کر سکتے اور اس معاہدہ کو سراسر خطہ کے مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یمن کے بحرا ن میں امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے من پسند نتائج کا حصول چاہتے ہیں تاہم اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے ان مقاصد میں ان شاء اﷲ کامیاب نہیں ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عرب اتحاد کو مزید وسعت دی جائے اور پاکستان و ترکی سمیت تمام مسلم ممالک برادر اسلامی ملک کی پشت پر کھڑے ہوں تاکہ سرزمین حرمین شریفین کے خلاف سازشوں کو ناکام بنایا جاسکے۔
Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 141392 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.