مغربی بنگال:جنتا نے منہ پھیر لیا تو ممتا کی آغوش

مودی جی گوناگوں وجوہات کی بنیاد پر ویلنٹائن ڈے نہیں مناتے مگر چونکہ امبے ماں کے بھکت ہیں اس لئے’’ ماتا دیوس‘‘یعنی مدرس ڈے کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ اس مرتبہ یہ مبارک دن انہوں نے مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کے ساتھ منایا اور دوسرے دن سیاست کی دنیا میں اماں کہلانے والی جئے للیتا کو عدالت سے بری کرواکران کی خدمت میں مبارکباد بھی پیش کردی۔ اس طرح گویا ’’ مدرس ڈے‘‘ کا حق ادا کردیا۔ وزیراعظم کے یہ اقدامات دراصل اپنی ایک سال کی مایوس کن کارکردگی کا حقیقت پسندانہ اعتراف ہیں اور اس کیلئے وہ خود مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وقت کے ساتھ اب انہیں دال آٹے کا بھاؤ معلوم ہوگیاہے اور دماغ رفتہ رفتہ ٹھکانے آرہا ہے۔ ورنہ گزشتہ سال دسمبرمیں ان کے دست راست امیت شاہ کا کولکاتہ میں مشہوراعلان کسے یاد نہیں’’ میں امیت شاہ ہوں ۔ بی جے پی کا ایک ادنی ٰ سا خادم ۔ میں یہاں ٹی ایم سی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے آیا ہوں‘‘۔ گزشتہ سال ستمبر میں بھی اسی طرح کا اعلان چنئی میں جئے للیتا کے خلاف بھی کیا گیا تھا۔قومی انتخابات کے بعد ملک کوکانگریس سے پاک کرنے کےبعد بہت جلد علاقائی جماعتوں کو بھی نیست نابود کردینے کے عزم بھی شاہ جی نے دوہرایاتھا۔

امیت شاہ کا دماغ پہلے تو کشمیریوں نے درست کیا جووادی سے انہیں خالی ہاتھ لوٹا دیا اس کے بعد دہلی میں کیجریوال نے ان کے دماغ کی چولیں درست کیں اور ان کی چتا کو آگ دکھانے کا کام شیلانگ میں ہوا جہاں شاہ کا استقبال گائے کے گوشت کی بریانی سے کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس منفرداحتجاجی جشن میں بی جے پی کے مقامی ارکان بھی شامل تھے ۔ امیت شاہ تو خیر اس تذلیل کے خلاف ایک لفظ نہ بول سکے مگرانہوں نے سنگھ سے درآمد شدہ رام مادھوکو آگے کردیا۔ مادھو نے کہا ملک کی مختلف ریاستوں میں سماجی و معاشی وجوہات کی بنیاد پر گئو کشی پر پابندی ہے لیکن شمال مشرقی ریاستوں میں گئو کشی پر پابندی لگانے کی کوئی تجویزمرکزی حکومت کے زیرغور نہیں ہے۔ شیلانگ میں جاکر بیچارے مادھو جی ’’ گائے ہماری ماتا ہے‘‘والامشہور و معروف نعرہبھول گئے۔

راہل گاندھی کی گھر واپسی کے بعد اچانک بی جے پی کو محسوس ہونے لگا ہےکہ وہ جس قبر پر فاتحہ پڑھ چکے تھے اس کے اندر کی لاش ابھی زندہ ہے۔ وہ نہ صرف سانس لے رہی ہے بلکہ دولتی ّ جھاڑ رہی ہے۔ اس کے بعد ملک کا منظر نامہ بدلنا شروع ہوا۔ پچھلے سال انتخاب سے قبل یہ حال تھا کہ مودی جی ایک شوشہ چھوڑتے تھے لوگ اس کا جواب دینے لگتے تھے اس سے پہلے کہ اس کا پڑیا کااثر ختم ہوتا ایک نیا شوشہ چھوڑ دیاجاتا۔ اب حالات اس کے برعکس ہوگئے ہیں۔ راہل نے جب سوٹ بوٹ والی سرکار کا تیر چلایا تو مودی جی کو ایک ہفتہ میں دو مرتبہ کہنا پڑا کہ یہ مکیش امبانی یا گوتم اڈانی کے مفادات کا تحفظ کرنے والی سرکار نہیں ہے گویا مودی جی مدافعت میں آگئے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر انہیں ایک سال بعد یہ صفائی دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

اس کے بعد راہل نے پنجاب اور مہاراشٹر کا دورہ کرکے طنز کیا کہ مودی جی کوغیر ملکی دوروں سے فرصت ملے تو اپنے ملک کا بھی دورہ کرلیاکریں ۔ اس کے جواب میں مودی جی نے مغرب کے بجائے مشرقی ریاستیں چھتیس گڑھ اور مغربی بنگال کی جانب کسانوں کے بجائے آدیباسیوں سے ملنے کا ارادہ کرلیا۔ راہل نےجب کیدار ناتھ مندر کارخ کیا اور ایک طویل پیدل یاترا کرکے ذرائع ابلاغ پر چھا گئے تو مودی جی کو اپنے گرو آتم شٹھا نند کی یاد آگئی اور اسی کے ساتھ مودی جی نےکالی کے مندر میں جاکر آرتی اتارنے کا بھی فیصلہ کرلیا۔ اس طرح گویا اپنی پیروی کروانے والا رہنما اپنے مخالف کی اتباع کرنے پر مجبور ہوگیا۔

بیچارے مودی جی کا ستارہ چونکہ فی الحال گردش میں ہے اس لئے پہلے تو چھتیس گڑھ میں ان کیلئے بنائے جانے والے مضبوط اسٹیج کوتیز آندھی نے اکھاڑ پھینکا اور بیچارے ۳۵ مزدور زخمی ہوگئے۔ خیر قدرتی آفات پر بھلا کس کا اختیار لیکن جن نکسلوادیوں کو بے وقوف بنانے کیلئے مودی جی چھتیس گڑھ گئے تھے ان لوگوں نے بھی مودی جی کی ہوا اکھاڑ دی اور ان کا ۵۶ انچ کا سینہ پچک کر نہ جانے کتنے انچ کا ہوگیا۔ پہلے تو خبر یہ آئی کہ نکسلوادیوں نے ۱۵۰ لوگوں کو اغواء کرلیا ہے اس کے بعد پتہ چلا کہ یرغمالیوں کی تعداد ۵۰۰ ہے اور بالآخر ۱۰۰۰ لوگوں کی تصدیق ہوگئی۔ نکسلوادیوں نے اپنے اس اقدام سے یہ بات ثابت کردیا کہ دہلی یا رائے پور میں جس کسی کی بھی حکومت ہو لیکن ان کے اپنے علاقہ میں انہیں کا سکہّ چلتا ہے۔ مودی جی غالباً یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ایک سال کے اندر انہوں نے نکسلی تشدد کو قابو میں کرلیا ہے لیکن وہ ایسا نہ کرسکے۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینےکے قائل مودی جی نکسلوادیوں کی خدمت محبت کا پھول پیش کرکے آگےبڑھ گئے۔

چھتیس گڑھ میں اگر بی جے پی کے علاوہ کسی اور جماعت کی حکومت ہوتی تو ریاستی سرکار کو اس شرمناک واقعہ کیلئے موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا لیکن یہاں تو دانت بھی اپنے ہی تھے اوران کے درمیان زبان بھی اپنی ہی تھی لیکن اس طرح کی رسوائی آج سے قبل کسی وزیراعظم کے حصے ّمیں نہیں آئی کہ اس کی ناک کے نیچے اس قدر لوگوں کو یرغمال بنا لیا جائے اور وہ بے دست پا ان مناظر دیکھتا رہ جائے۔ مودی جی کے بنگال چلے جانے کے بعد بھی ریاستی حکومت یرغمالیوں کو آزاد نہ کراسکی بلکہ ماؤوادیوں نے ازخود انہیں واپس کردیا۔ مودی جی نےاعلان کیا اس تشدد کا واحد علاج ترقی و خوشحالی ہے اور وہ اس کی خاطر ایک لوہے کا کارخانہ لگائیں گے۔ مودی جی کے دہلی لوٹنے سے قبل ہی ضلع بستر کے میں کارخانے کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا اور گاوں والوں نے اعلان کردیا کہ جب تک حکومت پوری آبادی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں ٹھونس دیتی یہ کارخانہ نہیں لگ سکتا۔ اس طرح گویا مودی جی تشدد کی آگ کو بجھانے کے بجائے اس میں تیل ڈال کر لوٹے۔

مودی جی نے چھتیس گڑھ میں سینہ ٹھونک کر اعلان کیا کہ ایک سال کا عرصہ ہوگیا کیا کسی بدعنوانی کا نام سنا؟ بیچارے مودی جی اگر اس دوران لوک سبھا ٹیلی ویژن چینل ہی دیکھ لیتے تو انہیں پتہ چلتا کہ حزب اختلاف ان کی سرکار کے سینئر وزیر نتن گڑکری کے استعفی ٰ کا مطالبہ کررہا ہے اور سارے ملک میں پورتی گھوٹالے کا شور سنائی دے رہا ہے لیکن مودی جی کسی کی سنتے کب ہیں وہ اپنی سنانے میں لگے رہتے ہیں لیکن اب لوگ بھی ان کی سنتے کم ہیں اور جو کچھ سنتے ہیں اس پر یقین بالکل بھی نہیں کرتے۔ مودی جی چھتیس گڑھ سے کولکاتہ گئےتو اپنی سیاست چمکانے کیلئے تھے لیکن درمیان میں دھرم کرم کا پاکھنڈ شروع کردیا۔

مودی جی اپنے گروجی سے ملاقات کیلئے جس بلور آشرم میں گئے ا س کے متعلق بتایا گیا کہ ۱۶ سال کی عمر میں مودی جی گھر سے بھاگ کر وہاں سنیاسی بننے کیلئے پہنچے تھے مگر چونکہ گریجویٹ نہیں تھے اس لئے انہیں داخلہ نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد انہیں چاہیے تھا کہ ۳ سال کسی کالج میں جاکر تعلیم حاصل کرتے مگر وہ ہمالیہ پربت چلے گئے وہاں سے واپس آئے تو آ تم شٹھانند راجکوٹ پہنچ چکے تھے۔ مودی جی نے پھر سے سنیاسی بننے کی خواہش ظاہر کی مگر گروجی نے منع کردیا۔ چوتھی بار وزیراعلیٰ بننے کے بعد وہ گروجی کی خدمت میں گئے اور کہا کہ آپ کی وجہ سے میں وزیراعلیٰ بن گیا ۔ گروجی نے انہیں جو پھول پرساد کے طور پر دئیے ان کو جیب رکھ کرمودی جی نے حلف برداری کی۔وزیراعظم بن جانے کے بعد گروجی نےازخود انہیں دعوت دی تومودی جی کولکاتہ کے بجائے امریکہ کی سیر پر نکل گئے۔ فی الحال گروجی بستر مرگ پر ہیں اوران میں کسی دعویٰ کی تصدیق یا تردید نہیں کرسکتے تومودی جی ان کی خدمت میں پہنچ گئےاور یہ کہانیاں ذرائع ابلاغ میںگردش کرنےلگیں۔

مذکورہ بالا افسانوں کواگر درست مان لیا جائے تو مودی جی کے گروجی کے بارے میں ضرور یہ کہنا پڑے گا کہ وہ بڑے فرد شناس انسان ہیں ۔ مودی جی کو دیکھ کر وہ بھانپ گئے کہ اگر اس شخص کو آشرم شامل کرلیا تو یہ آشرم کی نہ جانے کیا گت بنادے گا ۔اس لئے انہوں نے بار بار اصرار کے باوجودانہیں اپنے آشرم میں پھٹکنے نہیں دیا لیکن گاندھی جی کے قتل کے بعد گجرات میں کوئی سنگھ پریوار کے قریب پھٹکتا نہیں تھا ۔ ان لوگوں کو لگا کہ یہ ہمارے کام کا آدمی ہے اس لئے انہیں نہ صرف سویم سیوک بلکہ پرچارک بنالیا۔ سوامی آشٹھا آنند نے اپنے آشرم کو تو مودی جی کے پرکوپ سے بچا لیا لیکن پورے راشٹر کو سنکٹ میں جھونک دیا ۔

وزیراعظم کی ممتا بنرجی سے ملاقات اور جئے للیتا تو مبارکباد قومی سیاست پر دوررس نتائج ڈال سکتی ہے۔فی الحال ایوان پارلیمان میں پورا حزب اختلاف ہر معاملے میں مودی حکومت کا مخالف بنا ہوا ہے اس طرح گویا این ڈی اے کے باہر ساری جماعتیں بلاواسطہ کانگریس کے ساتھ ہو گئی ہیں۔ ایوان بالا میں این ڈی اے اقلیت میں ہے۔ اس کے صرف ۶۰ جبکہ یوپی اے کے ۹۴ ارکان ہیں۔ اس لئے جس قانون میں حزب اختلاف چاہتا ہے رکاوٹ ڈال دیتا ہے۔ پہلے این ڈی اے والے اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ بہت جلد ساری ریاستوں میں ان کی حکومت قائم ہو جائیگی اور ایوان بالا میں انہیں اکثریت حاصل ہوجائیگی لیکن اب اس کا امکان معدوم ہو چکا ہے۔ ایسے میں ممتا ، مایااور جئے للیتا کو اگر ساتھ لے لیا جائے تو بات بن سکتی ہے۔ ویسے ممتا اور مایا کے پاس بھی جملہ ۲۳ ارکان ہی ہیں ۔ یہ تینوں جماعتیں پہلے بھی این ڈی اے ساتھ رہ چکی ہیں اس لئے پھرسےانہیں اپنے ساتھ لے لینا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ یہ بی جے پی کانہ صرف اعتراف شکست بلکہ اس کی مجبوری بھی ہے۔

سردھا بدعنوانی کی آڑ میں ممتا کو پریشان کرنے کی ساری کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ بردوان دھماکہ اور بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں کے ساتھ ساز باز کا الزام بھی ممتاکوکوئی نقصان نہیں پہنچا سکا۔ ممتا بنرجی نے اس دوران مودی کے خلاف جو لب و لہجہ اختیار کیا وہ بھی قابل غور ہے ۔ کبھی تو انہیں دنگا بابو تو کبھی گدھا کے لقب سے نوازہ۔ من کی بات پر طنز کرتے ہوئے کہا دماغ ہے نہیں تو چلے گا کیسے اور سمرتی ایرانی کے کپڑے بدلنے والے کمرے میں کیمرے کی کہانی پر یوں تبصرہ کیا کہ یہی معاملہ اگرمودی کے ساتھ ہوتا تو وہ کیمرے کو دیکھتے ہی تقریر شروع کردیتے۔ ویسے بی جے پی بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں تھی اس نے ممتا کے قریبی رہنماوں پر سردھا چٹ فنڈ میں ۱۶ لاکھ لوگوں کودھوکہ دینے کا الزام لگایا اور امیت شاہ نے کولکاتہ میں اعلان کیا کہہماری کامیابیوں کی ابتداء کولکاتہ میونسپلٹی سے ہوگی اور اس کی انتہا آئندہ سال اسمبلی انتخاب میں ہوگی جب بنگال سے ٹی ایم سی کا مکمل صفایہ ہوجائیگا۔

بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے بی جے پی کو آئینہ دکھلادیا ریاست بھر میں اسے اوسطاً صرف ۴ فیصد ووٹ ملے اور کولکاتہ میں اس کا تناسب ۲۵ سے گھٹ کر ۱۵ پرپہنچ گیااس لئے صوبائی انتخاب سے ایک سال قبل ہی بی جے پی نے ممتا کو اپنا حلیف بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ ممتا عوامی سطح پر لاکھ مقبول سہی لیکن ان میں انتظامی صلاحیت کا فقدان ہے ۔ صوبائی حکومت ۷۴ء۲ لاکھ کروڈخسارے میں ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ مرکز اس قرض کومعاف کردے۔ممتا بنرجی اس کیلئے سابقہ حکومت پر الزام دھرتی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ خودانہوں نے اسے کم کرنے کیلئے کیا اقدامات کئے؟ ممتا بنرجی کو آئندہ سال انتخابات سے قبل عوامی فلاح بہبود کیلئے بھی مرکزی امداد چاہئے اس لئے اب وہ لڑائی جھگڑے کے بجائے پیار محبت کی باتیں کرنے لگی ہیں اور مودی جی بھی کہہ رہے ہیں کہ ممتا کی شکایت بجا ہے۔ انہوں نے میرے سامنے اس لئے اسے رکھا ہے کہ وہ جانتی ہیں صرف میں ہی ان کی مدد کرسکتا ہوں۔

ممتا کے ساتھ آجانے سے بی جے پی کو ممکن ہے دوچار ایم ایل اے مل جائیں اور راجیہ سبھا میں اس کی مشکلات قدرےکم ہو جائیں لیکن مغربی بنگال کے اندر بی جے پی ملیا میٹ ہو جائیگی۔ ممتا کو بھی یقیناً نقصان اٹھاناپڑےگا اس لئے کہ بغض ِ مودی میں جو مسلمان رائے دہندگان یکمشت انہیں ووٹ دے رہے ہیں وہ کانگریس و بائیں محاذ کی جانب نکل جائیں گے۔ ممتا کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بنگال کے اندر مسلمانوں کی تعداد گجرات کی مانند کم نہیں ہے وہ کئی مقامات پر نتائج پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ ویسے سیکولررزم کا دم بھرنے والے ممتا جیسے موقع پرست سیاستدانوں کا کیا ہے اگر وہ ریاستی سطح پر ہار بھی جائیں تو مرکز میں وزیر بن جائیں گی۔ا بھی تک تین قوانین کو وضع کرنے میں ترنمل کانگریس مودی سرکار کی حمایت کرچکی ہے اور بدلے میں سردھا گھوٹالے کی تفتیش کا کام دھیما کردیا گیا ۔ سی پی ایم رہنما محمدسلیم نے اسے ’’ملے سرُ میرا تمہارا ‘‘سے تعبیر کیا ہے۔

جئے للیتا کی رہائی کے بعد نہ صرف ان کے پھر سےوزیراعلیٰ بن جانے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں بلکہ ممکن ہے وہ ہمدردی کی اس لہر کا فائدہ اٹھانے کیلئے قبل از وقت انتخابات کا اعلان بھی کردیں ۔ ایسے میں کانگریس اور بی جے پی دونوں ان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گےلیکن چونکہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے اس لئے کانگریس کے ہاتھ سے بہترکمل کا ساتھ ہے۔ احسانمندی کا بھی تقاضہ ہے کہ اے آئی ڈی ایم کے دو پتوں کے درمیان کمل کا پھول کھلا ہوا ہو( اتفاق سے ممتا کا انتخابی نشان بھی دو پتے ہیں) قومی انتخاب کے بعد بی جے پی نے محسوس کیا تھا کہ تمل ناڈو کے اندر ایک زبردست سیاسی خلاء پیدا ہوگیا ہے۔ جئے للیتا بدعنوانی کے الزامات میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا ہیں ۔ ڈی ایم کے کے دو سابق وزراء ۲جی گھوٹالہ کے سبب جیل کی ہوا کھارہے ہیں۔ کانگریس کا مکمل صفایہ ہوچکا ہے ایسے میں صرف بی جے پی اور اس کے ہمنوا پی ایم کے وغیرہ رہ جاتے ہیں اور انہیں اب اقتدار میں آنے سےروکنے والا کوئی نہیں ہے لیکن اب ان کے ہوش ٹھکانے آگئے ہیں اور سمجھ گئے ہیں کہ تمل رہنما وں کے اندر یا باہر ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا عوام تو انہیں کو ووٹ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے خود اقتدار میں آنے کا خیال بالائے طاق رکھ کر جئے للیتا کی جئے جئے کار کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ جئے للیتا اور ممتا کے بعد بی جے پی کو شش ہوگی کہ اترپردیش میں مایاوتی کے ساتھ پینگیں بڑھائی جائیں اس لئے کہ آئندہ انتخاب میں سائیکل کو کچلنے کیلئے ہاتھی میرے ساتھی کا نعرہ لگانا لازمی ہے۔

بی جے پی کیلئے سب سے کڑا امتحان بہار میں ہے ۔نتیش کمار کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اے بی پی اور نیلسن نے مل کر ایک جائزہ لیا تھا کہ اگر اب انتخابات کا اعلان ہوجائے تو کس جماعت کو کس قدر ووٹ ملیں گے۔ اس جائزے مطابق بی جے پی اپنے حلیفوں سمیت ۴۱ فیصد پر تھی اور نتیش و لالو کا محاذ ۵۶ فیصد پر تھا ۔ ۱۵ فیصد ووٹ کی کھائی کو عبور کرنا کوئی معمولی بات نہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی کی مقبولیت ریت کی دیوار کی مانند گررہی ہے ایسے میں نومبر تک اس کھائی وسیع تر ہونے کے قوی امکانات ہیں اور اس طرح کے فرق سے تو دوقطبی مقابلے میں کمزور فریق کا صفایہ ہوجاتا ہے جیسا کہ گزشتہ مرتبہ یوپی میں ہوا تھا ۔

پنجاب میں صوبائی انتخابات بھی دن بدن قریب تر ہوتے جارہے ہیں جہاں عوام کا تعلق ہے وہ بی جے پی کی مرکزی اور اکالی دل کی ریاستی حکومت کے خلاف بھرے بیٹھے ہیں ۔ گزشتہ قومی انتخاب میں زبردست مودی لہر کے باوجود بھاجپ اکالی اتحاد کو ۱۳ میں سے ۷ نشستوں پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔مودی سرکار میں سب سے زیادہ طاقتور وزیر خزانہ ارون جیٹلی بھی جالندھرکے اکھاڑےسے دھول چاٹ کر لوٹے ۔ ایسے میں کوئی بعید نہیں جو اگر بی جے پی کو محسوس ہواکہ اکالی دل کے بادل اس بار صرف گرجیں گے مگربرسیں گے نہیں تو وہ اپنے کٹر حریف کیجریوال سے ہاتھ ملا لے۔ بی جے پی اگر مفتی صاحب کی پی ڈی پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنا سکتی ہے اور این سی پی کی حمایت سے مہاراشٹر میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرسکتی ہے تو عام آدمی پارٹی میں کیا برائی بلکہ بھلائی ہے۔ ابن الوقتی کے سیاسی حمام میں فی الحال تمام جماعتیں برہنہ ہیں اس لئے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ سیاست کے اندر وقت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنا لیا جاتا ہے جیسا کہ ممتادیدی نے کیا ،کل تک جسے گدھا کہتی تھیں آج دادا کہہ کر پچکارنے لگیں۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450305 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.