طالبان کے ساتھ مذاکرات……تحفظات
(Prof Masood Akhter Hazarvi, )
یہ بات ہر طرح کے شک و شبہ سے
بالا ہے کہ ہر ایک محب وطن پاکستانی دور حاضر کے ابتر حالات سے حد درجہ
پریشان اور کبیدہ خاطر ہے۔ آئے دن بے گناہ اور معصوم جانوں کا خون ہر طرف
بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔ لیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ بظاہر کوئی باہر کی
سامراجی اور حملہ آور قوت نہیں بلکہ خود اسی ملک کے نم خوار باشندے اور
پاسپورٹ ہولڈر ہی اپنے ہم وطنوں کا خون بہار ہے ہیں جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔
اور اسی پر مستزاد یہ ہے کہ وہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل حافظ قاری اور
علما ہیں جو کہ اس تمام خونی کھیل کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ سامراجی قوتوں کے
تسلط کے خلاف برسرپیکار ہونا تو یقینا حب الوطنی کی علامت ہے لیکن جس ملک
کے پروردہ اور باسی ہوں اسی کے معصوم اور بے گناہ شہریوں کے لئے خود کش
حملوں اور دیگر دہشت گردی کے ذرائع استعمال کر کے قتل و غارت کا بازار گرم
کرنا اور پھر اتنی دیدہ دلیری کہ میڈیا پر آکر بڑے فخر سے اعلان کرنا کہ آج
ہم نے اتنے ہم وطنوں کا خون کیا ہے، یقینا یہ لمحہ فکر یہ ہے۔ اگر یہ
مسلمان ہیں تو پھر ان کا اسلام بھی ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ جو دین
ہمارے پیارے نبی ﷺ لے کر آئے اس میں اس طرح کے ظلم و بربریت کی قطعاً اجازت
نہیں۔ بلکہ قرآن تو ایک گناہ کے قتل ناحق کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا
ہے اور کسی ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانا ہے۔ بلکہ اس
سے بھی آگے دیکھیں تو آقائے نامدار ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں
ایک عورت نے پیاسے کتے کی جان بچائی تو اﷲ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا اور
ایک شخص نے بے گناہ بلی کا قتل کیا تو اس کا مواخذہ ہوا۔
ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ان انسان نما بھیڑیوں کے دل پتھر ہوچکے ہیں جو کہ
احترام مسلم تو کجا، انسانی اقدار کو سمجھنے سے بھی بے حس ہوچکے ہیں۔ اس
میں کوئی شک نہیں کہ معاملاتمذاکرات سے حل ہوں تو ملک و ملت کی بہتری اسی
میں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کے مذاکرات کس سے؟ جب گن شپ ہیلی
کاپٹر، سرجیکل سٹرائیک کرتے ہوئے ان قاتلوں کے ٹھکانوں پر حملہ آور ہوتے
ہیں تو ISPR یا حکومت کی طر ف سے بیان جاری ہوتا ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کے
اتنے ٹھکانے تباہ کردئیے لیکن اس وقت جب مذاکرات کا باب کھلتا ہے تو انہیں
کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ قوم کو کیوں
دھوکا دیا جا رہا ہے، یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیے
جارہے ہیں اگر ان کے ٹھکانے تباہ کریں تو دہشت گرد اور بات مذاکرات کی چھڑے
تو طالبان۔ عجب منطق ہے نہ سمجھنے کی سمجھانے کی۔
طالبان ایک مقدس لفظ ہے جس کے فضائل حدیث میں موجود ہیں، جس کا معنی ہوتا
ہے’’علم حاصل کرنے والے‘‘۔ یہ طالب کی جمع ہے لیکن جب حرکتیں اس قدر بھیانک
ہوں کہ زمانہ جاہلیت بھی ان کے ظلم و ستم کے سامنے ماند پڑ جائے تو پھر
طالبان کیسے یہ تو اسلام کے نام پر ایک دھبہ ہیں۔ ان کے اوصاف اور کرتوت
حدیث’’خوارج‘‘ میں حضور اکرم ﷺ نے تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔ علاوہ ازیں
ابن بزعم خویش طالبان نے واضح طور پر کہا تھا کہ یہ آئین پاکستان غیر
اسلامی ہے اور اس کی کسی ایک شق کو بھی ہم اسلامی نہیں سمجھتے۔ حکومت وقت
سے ہمارا سوال ہے کہ کیا اب انہوں نے اپنے الفاظ واپس لے لئے ہیں اور آئین
پاکستان کو ماننے پر تیار ہیں یا کہ آپ ذاتی مصلحتوں کے شکار ہو کر قوم کو
دھوکہ دے رہے ہیں کیونکہ سابق وزیراعظم گیلانی کے دور میں سوات آپریشن ہوا
تو نتیجتاً ان کا بیٹا اغوا ہوگیا جو ابھی تک لاپتہ ہے۔ آپ کوڈر ہے کہ کہیں
آپ کے ساتھ بھی ایسا نہ ہوجائے۔ یقینا جنگ وجدل اور خون خرابہ سے چھٹکارہ
کسی بھی صورت ممکن ہو، وقت کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن یاد رکھیں آئین پاکستان
کی حرمت ریاست پاکستان کی سالمیت اور پاک آرمی کے وقار کو داؤ پر لگا کہ آپ
نے کوئی بھی قدم اٹھایا تو اس کے دو رس اور بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔
( شائع شدہ روزنامہ جنگ لندن مورخہ7 مارچ 2014 بروز جمعۃ المبارک)
|
|