کوئی ہے محمد بن قاسم؟؟

جب لنکا کے ڈاکوؤں نے مسلمانوں کے جہاز کو اغواکر لیا تو ایک قیدی لڑکی نے حجاز بن یوسف کو مدد کے لئے خط لکھا ۔ حجاج بن یوسف نے اس خط کے اثر سے وہاں کے راجاداہر سے مسلمان قیدیوں کو چھڑوانے کو کہا، لیکن اس نے بھی ان کی مدد سے انکار کر دیا۔ پھر حجاج نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو قیدیوں کو آزادی دلانے کا ذمہ سونپا۔ اس وقت اس کی عمر ۱۷ سال تھی۔ صرف اس مسلمان بیٹی کی فریادتھی اور محمد بن قاسم کاجذبہ تھا کہ نہ صرف ڈاکووٗں کو سزا ملی بلکہ راجا داہر کو بھی شکست ہوئی اور سارا سندھ باب الاسلام بن گیا۔

آج یہاں کے کسی ۱۷ سالہ نوجوان سے ایسی بہادری کی امید نہیں کی جا سکتی جو کسی کی بہن یا بیٹی کے لئے کچھ کر سکے، بلکہ یہاں کی نوجوان نسل تو خود بوڑھے والدین کے سہاروں پہ جی رہی ہے۔اور ان کو ایسی بیٹیوں کی تلاش ہے جو ان کے گھر بار کا بھی بوجھ اٹھا سکیں۔

اس کالم میں صرف تین ایسے واقعات کا ذکر ہو گا جن کے دکھوں کا بوجھ لے کے بوڑھے والد اس دنیا سے رخصت کو ہو گئے مگر قاتلوں کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ نکاح جیسے پاکیزہ رشتے کے نام پہ دوسروں کی زندگیوں کو جہنم بنا دیا جاتا ہے، مگر نہ تو کسی عالمِ دین کو نیا فتویٰ دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، نہ ہی پارلیمنٹ اور سینٹ میں کوئی ترمیم لائی جاتی ہے، ویمن رائٹس کے نام پر ہر وقت لائم لائٹ میں رہنے والیوں کو سوائے اپنے لیڈر کی تعریفوں اور پارٹی مشن کے علاوہ کوئی دوسری بات نہیں آتی۔
شہر میں رہنے والے ایک معزز ڈاکٹر صاحب نے اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی گاؤں میں اپنے بھائی کے بیٹے سے کر دی۔ گاؤں کا ماحول ایسا تھا یا لوگوں کا رویہ ایسا کہ کچھ سال بعد یہ بیٹی طلاق کے کاغذات لے کے جب گھر پہنچی تو والد نے کانچ کی بیٹی کے ٹوٹنے کا اتنا غم لگایا کہ وہی ٹکڑے چند دن بعد انکی موت کا سبب بن گئے۔

فارن ایمبیسی میں کام کرنے والی ایک طلاق یافتہ مگر ذہین و فطین بیٹی سے یک اجنبی محبت کے نام پر شادی کر لیتاہے۔ اور پھر اپنی بوڑھی ماں کی خدمت لئے چھوڑ کے باہر کے ملک چلا جاتا ہے۔ وہ ذہین مگر دکھوں کی ماری بیٹی دن رات بیمار ساس کی خدمت میں مشغول، اور ساس بھی اسے ایک لمحے کے لئے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ کرتی کہ کہیں ملازمہ بہو اپنی خوشی کے لئے ہی نہ کچھ سوچ لے، یعنی میکے جانے پر بھی پابندی۔ مگر اس ظالم ساس کو یہ بات کسی طور بھی ہضم نہ ہو رہی تھی کہ پتہ نہیں یہ غیر لڑکی کون کہاں کی،اور اس کے بیٹے کی کمائی سے جی رہی ہے۔ ظالم عورت نے یہ بھی نہ سوچا کہ مفت ملازمہ ہے، ورنہ فارن آفس میں کام کرنے والی کو پیسوں کی کمی نہ تھی۔ اور پھر بوڑھی ماں کی محبت جیت گئی، بیٹے نے اس دکھی کو چھوڑ دیا اور ماں سے وعدہ کیا کہ اگلی مرتبہ ان کی پسند کا مال گھر لائے گا۔ ظالم ماں بیٹا اس بات سے بے خبر کہ بیٹی کو دوسری مرتبہ طلاق کا داغ لگنے سے بیچارا بوڑھا باپ دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔

ایک اور بیٹی کو شادی کے پانچ سال بعد کسی ذہنی یا روحانی بیماری نے گھیر لیا۔ ظالم شوہر نے بچے اپنے پاس رکھے اور بیچاری کو طلاق دے کے اس کو بوڑھے والدین کے گھر واپس چھوڑ گیا۔ باپ اس صدمے کی وجہ سے ذہنی توازن کھو بیٹھا، اور پھر ایک دن پاگل پن کی حالت میں خود کو ختم کر لیا۔
بظاہر ان واقعات میں اصل قاتل کا چہرہ واضح نہیں ہے، مگر ان لوگوں کو کیا قصور ہے جو سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے ظالموں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں اور بغیر کسی قصور کے زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

ضرورت کسی محمد بن قاسم جیسے انسان کی ہے جو ایسے ظالموں کو سبق سکھانے کے لئے قانون سازی کر سکے۔ حق مہر لالچ کے نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ نہیں رکھا جا سکتا۔ مگر ایسی قانون سازی تو کی جاسکتی ہے کہ ظالم ساس کو اس بات کی سزا مل سکے جو وہ بہو کا گھر برباد کرتی ہے، ظالم شوہر کو کڑی سزا مل سکے جب وہ کسی کی زندگی برباد کر دیتا ہے۔ میری تمام قانون سازی کرنے والے لوگوں سے درخواست ہے کہ ایسی قانون سازی کر دیں، بلکہ نکاح نامہ میں یہ شق شامل کر دیں کہ جب بھی کوئی شوہر طلاق دے یا خلع کا واقعہ ہو۔ سابقہ شوہر ہر حال میں بیس سے پچاس لاکھ تک ہرجانہ ادا کرے۔ ادا نہ کرنے کی صورت میں دس سال قید با مشقت دی جائے، کیونکہ طلاق یافتہ بیٹیاں بھی تو ساری زندگی اس ظلم کی سزا کے ساتھ جیتی ہیں۔ ہرجانہ کی ادائیگی سے کم از کم بوڑھے والدین پر معاشی بوجھ کم ہو گا، کیونکہ بیٹیوں کے صدمے کسی کام کوکرنے کے قابل نہیں چھوڑتے۔
Asma
About the Author: Asma Read More Articles by Asma: 26 Articles with 28140 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.