کراچی بس سانحہ؛ ہائے خونِ انساں کی ارزانی
(Moulana Nadeem Ansari, India)
کیا ہندستان اور کیا
پاکستان؟
اس وقت ہر جگہ انسانی لہو کی جو ارزانی ہے اسے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آجاتا
ہے۔ آن کی آن میں خاندان کے خاندان اجاڑ دینا اور درجنوں بلکہ سیکڑوں
زندگیوں کو تہہِ خاک کر دینا، مفاد پرستوں اور دہشت گردوں کا روز کا معمول
بنتا جا رہا ہے۔ انسانی زندگیاں، انسان دشمنوںکے لیے مذاق بن کر رہ گئی ہیں،
جب چاہا ، جسے چاہا ٹھکانے لگا دیا۔افسوس تو اس پرہے کہ ایسے واقعات ایک دو
بار رونما ہونے پر بھی آیندہ مستقبل میں ان کی روک تھام کے لیے کوئی کوشش
و تگ و دو نہیں کی جاتی بلکہ بعض حضرات کا تو کہنا ہے کہ جن کے ذمے ان
حادثات کی روک تھام ہوتی ہے، ان کی ملی بھگت سے ہی یہ وارداتیں انجام پاتی
ہیں۔ ویسے یہ بات سمجھ میں آنے والی بھی ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ ایک دو
نہیں بلکہ پوری ٹولی، مسلح ہو کر دن دہاڑے سڑکوں اور چوراہوں پر یوں خون کی
ہولی کھیلنے میں کامیاب ہو جاتی ہے!
ہمارا تو یہ ماننا ہے کہ انسان جس کام کو دل سے کرنا چاہے، اسے کر گزرتا ہے،
خواہ وہ کسی کی جان لینا ہو یا کسی کی جان کی حفاظت کرنا۔ورنہ اتنا دیدہ
دلیری دکھانا کہ سر عام اور دن دہاڑے اتنی بڑی واردات سرانجام دینا کوئی
کھیل تو نہیں؟ پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی دار الحکومت میں اس
افرا تفری سے حکومتی اور ریاستی اتھارٹی پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ٹارگیٹڈ
آپریشن کے باوجود 6 سے زائد ٹارگٹ کلرز کا موٹر سائکلوں پر کھلے بندوں ایس
ایم جی، نائن این این ایم پستولوں سمیت دندناتے پھرنا اور بس کا محاصرہ
کرکے اس میں سوار ہونا اور چار سے پانچ منٹ تک مستقل فائرنگ کرتے رہنا کوئی
چھوٹا معاملہ نہیں ہے۔
تفصیل واقعے کی یہ ہے کہ گذشتہ دنوں( 13مئی 2015کو) کراچی شہر کے صفورا
چورنگی علاقے میں، 3 بائکوں پر آنے والے، 6مسلح جنگ جوؤں نے اندھا دھند
فائرنگ کرکے اسماعیلی برادری کے تقریباً 47 افراد کو ہلاک کر دیا۔ یہ واقعہ
اس وقت پیش آیا جب کہ وہ سب عائشہ منزل کے قریب اپنے جماعت خانے میں عبادت
کے لیے جا رہے تھے۔ یوں تو پاکستان میں اس طرح کے حادثات کا ہونا عام ہوا
جا رہا ہے، جس سے عوام میں ہر وقت خوف و ہراس کی کیفیت بنی رہتی ہے لیکن یہ
ایک بڑا واقعہ ہے۔اس حادثے کے باعث عالمی اسنوکرچیمپئن شپ کا انعقاد بھی
خطرے میں پڑگیاہے جب کہ ورلڈ فیڈریشن کے نائب صدر تیاریوں کا جائزہ لینے کے
لیے شہر قائد میں موجود ہیں۔کراچی میں بدھ کی صبح ہونے والے اس اندوہناک
واقعےنے کئی گھروں میں صفِ ماتم بچھا دی ہےاور وہاں ہونے والا کھیلوں کے
عالمی مقابلوں کا انعقاد بھی مشکل میں پڑ گیا ہے۔یہ مقابلے چھ سے پندرہ
اگست تک ہونے تھے، جس کے لیے چالیس ممالک کو دعوت نامے جاری کیے گئے تھےاور
سو سے زائد کھلاڑی مینز، وومینز اور ماسٹر کیٹگری میں حصہ لینے والے
تھے،اسی کی تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے عالمی اسکور فیڈریشن کے نائب صدر
میکسم کیزبھی منگل کی رات سے کراچی آئے ہوئے ہیں۔
اس حادثے پر ردِّ عمل ظاہر کرتے ہوئے پاکستان کے صدر ممنون حسین نے حملے کی
شدید مذمت کی اور زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت جاری
کیں اور وزیراعظم نواز شریف نے بھی اظہارِ افسوس کرتے ہوئے واقعے کا نوٹس
لیا۔وفاقی وزیرِداخلہ چودھری نثار نے ڈی جی رینجرز اورآئی جی سندھ سے
رپورٹ طلب کی اور گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد نے واقعے کی تحقیقات کا حکم
دیتے ہوئے ملوث عناصر کو قانون کی گرفت میں لانے کی سخت ہدایت کی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کا کہنا تھا کہ بس پر فائرنگ آپریشن کاردعمل
ہوسکتا ہے۔ تاہم غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق داعش اور جند اللہ کی طرف سے
حملے کی ذمے داری قبول کرنے کی بھی باتیں سامنے آئی ہیں۔
کراچی میں ہوئے اس سانحےکو دنیا بھر کے میڈیا نے ٹاپ ہیڈلائنز میں پیش کیا
اور اسے پاکستان کی سالمیت پر حملہ قرار دیا ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات و
میڈیا نے شہ سرخیوں میں اسے پیش کیااور ہندستانی اور امریکی میڈیامیں اس
خبرکو ٹاپ ہیڈلائنز پر جگہ ملی۔امریکی ٹی وی سی این این اے نے اپنی شہ سرخی
میں لکھا’’ کراچی حملے میں مذہبی اقلیت کو نشانہ بنایا گیا‘‘ جب کہ ہندستان
ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں اس واقعے کو’’ افسوسناک قرار دیا‘‘۔ برطانوی ٹی وی
اسکائی نیوز پر بھی اس واقعے کی مذمت کی گئی اور اسے پاکستان کی سالمیت پر
حملہ قرار دیا گیا۔
واقعہ یہ ہے کہ ہم اس طرح کے سانحات میں ایک آدھ دن ان کا ذکر تو کر لیتے
ہیں لیکن ان کی جڑ کاٹنے پر کوئی فکر نہیں کرتے اور شاید اب ہم ان چیزوں کے
عادی ہو گئے ہیں۔ میڈیا بھی ان سانحات کا ایک دو دن فالو اپ کرکے خاموش ہو
جاتا ہے اور حکم راں طبقہ بھی معاملے کے ٹھنڈا ہونے تک ذرا جوش میں نظر
آتا ہےبعد ازاں ان حادثات کے شکار افراد پر کیا بیتتی ہےاس کی فکر کرنے
والا کوئی نظر نہیں آتا، وقفے وقفے سے اس طرح کے سانحات کا ہونا تو جیسے
ہماری ترقی یافتہ زندگی کا ناگذیر حصہ بن گیا ہے۔ عوام کی طرف سے زیادہ
تقاضا ہوا تو کسی مشہور پارٹی یا مشہورِ زمانہ گروپ پر سارا الزام ڈال دینا
اور ان کے نام پر بِل پھاڑنا گندی سیاست میں روز کا معمول ہے۔ |
|