مرزا عبدالغنی (مرحوم ) ۔ ۔ ایک مثالی شخصیت
(Malik Muhammad Azam, Rawat)
راولپنڈی تحصیل کے ایک
چھوٹے سے دیہات بر والہ سے جماعت اسلامی کے بزرگ رکن مرزا عبد الغنی گزشتہ
دنوں اس عارضی دُنیا سے عالم آخرت کی طرف کوچ کر گئے۔ انا ﷲ و انا الیہ
راجعون۔مرحوم کو بار ہا دیکھا ٗدفتر جماعت اسلامی ضلع راولپنڈی الاکرا م
بلڈنگ میں اُ ن سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں۔ضلعی اجتماعات اور دیگر
پروگراموں میں بھی اُ ن سے ملنے کا کئی بار موقع ملا۔ اُن کا وہ ہنس مکھ
چہرہ کبھی نہیں بھولتا۔ دیہاتی سٹائل اورخالص پوٹھواری لب و لہجے کے حامل
مرزا عبد الغنی اپنی مثال آپ تھے۔ بظاہر سادہ سی شخصیت کے مالک تھے ٗ
مگراپنی آبادی اور ارد گرد کے دیہات و قصبات میں چلتی پھرتی جماعت اسلامی
تھے۔وہ اپنی برادری اور خاندان میں ہی نہیں بلکہ پورے علاقے میں عزت اور
احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔اگر یہ کہا جائے کہ وہ سراپا دعوت تھے ٗ
تو کوئی مبالغہ نہیں ہو گا۔صاف ستھر ی اور امانت و دیانت کے اصولوں پر مبنی
زندگی گزارنے والے مرزا عبدالغنی جب اور جہاں کہیں بھی بات کرتے تو لوگ اُن
کی بات کو توجہ سے سُنتے تھے۔وہ اﷲ کے دین کے مبلغ تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ جب
اور جہاں کہیں بھی موقع پاتے ٗاﷲ کے دین کی طرف لوگوں کودعوت دیتے تھے۔ فکر
آخرت اُن کا خاص مو ضوع ہوتا تھا۔وہ ہر محفل میں دُنیا کی ناپائیداری کا
تذکرہ کرتے تھے۔اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو اﷲ اور اُس کے رسول ﷺ کی
تعلیمات کی روشنی میں گزارنے پر زور دیتے تھے۔بھلائی ٗ خیر اور نیکی کے
کاموں کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے اور دوسرو ں کو بھی تلقین کرتے تھے۔اگر
ماضی پر نگاہ ڈالی جائے تو کلرسیداں ٗ روات ٗ ساگری ٗمانکیالہ اور ارد گرد
کے قصبات و دیہات میں جماعت اسلامی کی سرگرمیاں کثرت سے دیکھنے میں آتی ہیں۔
یہ علاقہ قومی اسمبلی کے اُس حلقے کا حصہ رہا ہے کہ جہاں سے 1970 ء میں
میجر(ر) غلام مصطفٰے شاہین جماعت اسلامی کے ٹکٹ ہولڈر تھے۔بعد ازاں 1985 کے
غیر جماعتی انتخابا ت میں مولانا فتح محمد (مرحوم)نے اسی حلقہ سے انتخاب
میں حصہ لیا تھا۔جبکہ راجہ شعیب عادل 1993 میں اسلامک فرنٹ کے پلیٹ فارم سے
قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ چوہدری سلطا ن احمد (مرحوم) ٗراجہ فضل الحق
اور محمد عباس بٹ اسی حلقہ سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے چکے
ہیں۔2013 کے انتخابا ت میں اسی حلقہ سے خالد محمود مرزا جماعت اسلامی کے
امیدوار تھے۔یہ وہ دیہاتی علاقے ہیں کہ جہاں مولانا فتح محمد (مرحوم) ٗراجہ
محمد بشار ت (مرحوم)مولانا صدر الدین رفاعی (مرحوم) ٗراجہ محمد ظہیر خان (مرحوم)اور
حکیم سید محمود احمد سرو سہارنپوری (مرحوم)کے درس قرآن ٗ دعوتی اور تربیتی
خطابات ٗسیرت النبی ﷺ اور جمعہ کے خطبات کے اثرات اب بھی دیکھنے اور سننے
کو ملتے ہیں۔ماضی میں روات اور ساگری کے مقامات پر ضلعی اجتماعات بھی منعقد
ہوچکے ہیں۔ راولپنڈی تحصیل کے اس مردم خیز علاقے میں ملک عبد الرحما
ن(مرحوم) محمد عباس بٹ ٗصوفی محمد سالک (مرحوم)مرزا سید اکبر ٗچوہدری نذیر
احمد (مرحوم)راجہ فضل الحق ٗ افتخار حسین اعوان اور خالد محمود مرزا امارت
کی ذمہ دار یا ں ادا کرتے رہے ہیں۔فریضہ اقامت دین کی یہ تحریک انہی بزرگوں
کی پُر خلوص محنتوں اور دن رات کی کاوشوں کی بدولت آگے بڑھ رہی ہے ۔ دُعا
ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان تمام بزرگوں کی خدمات اور کوششوں کو قبول و منظور
فرمائے اور انہیں اس سعی و جہد کا اجر عظیم عطا فرمائے ۔آمین ۔
چند دن قبل مرزا عبدالغنی (مرحوم) کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس منعقد
ہوا۔جس میں امیر جماعت اسلامی ضلع راولپنڈ ی شمس الرحمان سواتی مہمان خصوصی
تھے۔ اس موقع پر امیر جماعت اسلامی کلر سیداں جاوید اقبال ٗ سابق امیرجماعت
اسلامی پی پی 6 خالد محمود مرزا ٗسابق امیر کلر سیداں صوفی محمد جاوید ٗمولانا
حامد ربانی ٗمفتی عبدالرشید قاسمی ٗراجہ ضمیر الرحمان ٗماسٹر مشتاق اور
مرزا عبد الغنی مرحوم کے فرزند مرزا خورشید نے بھی اظہار خیال کیا۔مقررین
نے مرزا عبدالغنی کے حوالے سے اپنی یادوں اور ملاقاتوں کو خوبصورت اور
دلنشین انداز میں بیان کیا اورمرحوم کو زبر دست خراج عقیدت پیش کیا۔اس موقع
پر مرحوم کے خاندان اور اہل و عیال کے علاوہ علاقہ کے معززین اور ہر شعبہ
زندگی سے وابستہ افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔مولانا حامد ربانی نے کہا
کہ مرحوم بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔میرے ساتھ ایک رات گذاری ٗ فجر سے دو
گھنٹے قبل بیدار ہوئے اور اﷲ رب العزت کے حضور کھڑے ہو گئے۔ مفتی عبد
الرشید قاسمی نے کہا کہ مرزا عبد الغنی نہایت ہی شفیق انسان تھے۔مجھے اپنی
اولاد کی طرح سمجھا ۔تبلیغی جماعت کے لوگ گاؤں میں آتے تو وہ اُن کی نصرت
کرتے تھے ۔ اُن کے کھانے ٗ پینے اور قیام کے لئے اہتمام کرتے تھے ۔ماسٹر
مشتاق نے کہا کہ آ ج ہم اپنے محسن اور پیارے بھائی مرزا عبد الغنی مرحوم و
مغفو ر کی وفات حسرت آیات کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کے سلسلے میں مرحوم
کے آبائی گھر اکٹھے ہوئے ہیں۔اُن کی زندگی کی چند یاد یں زند ہ کرنے اور
انہیں خراج عقیدت پیش کریں گے۔یہ 1995.96 ء کی بات ہے کہ ایک دفعہ مجھے
مانکیالہ ریلوے اسٹیشن پر ملے۔ ہم نے اکٹھے چائے پی۔ مجھے کہنے لگے کہ
بھائی جان میں نے جماعت اسلامی کی رکنیت کا فارم بھیج دیا ہے۔ میری خواہش
ہے کہ آپ بھی میر ے ساتھ رکنیت کا فارم بھیجیں تاکہ دونوں کی رکنیت منظور
ہوجائے اور ہم دونوں مل کر جماعت کے کام کو آگے بڑھا سکیں۔ مرحوم میر ے ہم
جماعت بھی تھے۔بچپن سے ایک دوسرے سے شناسائی تھی۔وہ بچپن ہی سے ددہار نجار
میں اپنے برادر نسبتی مرزا سید اکبرکے ساتھ رہائش پذیر تھے۔وہاں سے ہی
ساگری سکول میں جایا کرتے تھے۔1947 ء میں مڈل پاس کرنے کے بعد اُن سے جدا
ہو گیا۔وہ محکمہ واپڈا میں ملازم ہو گئے اور مجھے پہلے فوج اور پھر سکول
میں نوکری مل گئی۔اس دوران کچھ عرصہ مرزا صاحب سے رابطہ نہ ہو سکا۔مرحوم کے
بارے میں واپڈا والوں کا یہی تاثر رہا کہ وہ نہایت دیانت داری کے ساتھ سروس
کرتے رہے۔ واپڈا جیسے محکمہ میں رشوت سے پاک ہو کر پنشن حاصل کرنا ایک
معجزہ سے کم نہیں۔مرزا عبد الغنی نے رکنیت حاصل کرنے کے بعد اپنی زندگی کے
شب و روزجماعت اسلامی کی سر گرمیوں میں صر ف کیے۔پیدل چل کر اور موضع
بروالہ کے جنگلوں میں سے گزر کر لوگوں کو اﷲ کے دین کی طرف بلاتے رہے۔جماعت
اسلامی کے پیغام کو حتیٰ المقدور ہر جگہ پہنچانے کی کوشش کی۔مانکیالہ کے
بازار میں ہر دوسرے دن جاتے اور لوگوں کو جماعت اسلامی کی دعوت دیتے تھے۔
ہمار ے وہ بزرگ جو آج اس دنیا میں موجود نہیں ہیں ٗ اُن کے ساتھ مل کر کام
کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ہمارے پُرانے ساتھیوں میں چوہدری افتخار علی
مرحوم موہڑہ جمعہ ٗسیکرٹری ولی محمد مرحوم موہڑہ وینس ٗصوبیدارنذیر
احمدمرحوم اراضی سوہال ٗچوہدری محمد یوسف مرحوم لوہدرہ ٗ چوہدری سلطان احمد
مرحوم لوہدرہ ٗجنرل(ر) قمر علی مرزا مرحوم ٗ مرزا محمد رشید مرحوم ٗچوہدری
دلپذیر مرحوم موہڑہ داروغہ اورمرزا مولا بخش مرحوم ددہار نجار کو آخری وقت
تک یاد کرتے رہے۔مرحوم کی دیانت داری کا یہ عالم تھاکہ جب معذور ہوئے تو
مجھے اور مولانا حا مد ربانی کو بلایااور جماعت اسلامی کا ریکارڈ جس میں
اعانت بھی تھی ٗ ہمارے حوالے کیا۔یقین جانئے جس طرح وہ اعانت اکٹھی کرتے
رہے ٗ اسی طرح صحیح سالم پیسوں تک ہمارے حوالے کی اور وصیت کی کہ اس سلسلے
کو جاری و ساری رکھنا۔مرحوم لگ بھگ دس سال تک ماہنامہ ترجمان القر آن اور
خوا تین میگزین منگوا کر دوستوں اور عام لوگوں میں تقسیم کرتے رہے۔یہ کام
اُن کی معذوری تک جاری رہا۔میں نے اُن کے ساتھ تقریبا پندرہ سال کام کیا
ہے۔وہ میرے جماعتی قائد بھی رہے۔بلاشبہ مرزا عبد الغنی کے چلے جانے کے
بعداس خلا کو پُر کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ یہا ں سے جو ذی روح چلا جائے ٗ وہ
واپس نہیں آتا۔مجھے دُکھ ضرور ہے کہ اب مرزا صاب سے ملاقات نہیں ہو سکے گی۔
لیکن دعوت دین اور جما عت اسلامی کا کام کرتے ہوئے جگہ جگہ اُن سے ملاقات
ہو گی۔قدم قدم پر اُن کی یادیں اور خیالات میری رہنمائی کرتے رہیں گے۔ میری
دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں اعلےٰ مقام عطا فرمائے۔
اُن کے لواحقین کو صبر کے ساتھ ساتھ مرحوم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ ۔آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
امیر جماعت اسلامی ضلع راولپنڈی شمس الرحمان سواتی نے کہا کہ موت ایک حقیقت
ہے ٗ اس سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ہم اس کا اظہار تو کرتے ہیں ٗ لیکن خود اپنی
موت سے غافل رہتے ہیں۔موت سے ہماری غفلت بھی ایک حقیقت ہے۔مرزا عبد الغنی
مرحوم نے موت کی حقیقت کو سمجھ لیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ وہ اس کی تیاری کے
لئے بستی بستی اور نگر نگر جاتے ٗ لوگوں سے ملتے اور انُ کواسلامی
لٹریچرپیش کر تے ۔وہ لوگوں کو اُ ن کے مقصد زندگی سے آگاہ کرتے ٗموت کی
تیاری کا درس دیتے ۔ اصلاح ذات ٗ اصلاح معاشرہ اور اصلاح قیادت کے لئے تیار
و آمادہ کرتے۔ آ ج وہ اپنے رب کے حضور اس کا بہترین اجر پا رہے ہوں گے۔مرزا
عبد الغنی مرحوم کی وراثت اُن کے حقیقی وارثوں کا حق ہے۔اُن کی وراثت جماعت
اسلامی اور اس کی دعوت بھی ہے۔میں یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اُن کی
خاندانی وراثت آ پ کو کوئی فائدہ دے گی یا نہیں ٗ لیکن یہ بات پورے یقین
اور شرح صدر کے ساتھ کہتا ہوں کہ اُنہوں نے جس مقصدزندگی کو اپنایاتھا۔اگر
آپ اس وراثت کو سنبھال لیں تو یہ دنیا اور آخرت دونوں میں فائدہ دے گی۔
|
|