جمعیۃ علماء ہند کا تاریخی پس منظر

بیسویں صدی کے ابتدائی ایام ہندوستانی مسلمانوں کے لئے انتہائی مشکل ترین تھے ۔ مسلم حکومت کے خاتمہ کے بعد مسلمانوں کو بیک وقت کئی مسائل کا سامنا تھا۔ مذہبی اقدار پر بھی حملہ ہورہا تھا۔ سیاسی اور سماجی سطح پر بھی مسلمان پسماندگی کی طرف آمادہ تھے۔ معاشی اور افتصادی حالت بھی مسلمانوں کی دن بہ دن خراب ہوتی جارہی تھی ۔برٹش حکومت کے زور و دبدبہ کی وجہ سے ہندوستانی عوام بالخصوص مسلمان انتہائی کس مپرسی اور بے بسی کے عالم میں اپنے شب وروز بسر کررہے تھے۔ زندگی کے ہر مرحلے میں وہ انگریزوں کے ظلم وستم ، جانب داری اور عصبیت کے شکار تھے ۔ ملک سے انگریزوں کو در بدر کرنے کے لئے کئی ایک تحریکیں علما ء نے شروع کر رکھی تھی۔ دارالعلوم دیوبند کا قیام اس سلسلے میں سب سے اہم اقدا م تھا۔اسی مقصد کے لئے حضرت شیخ الہند نے جمیعۃ الانصار قائم کی تھی ۔ اس ضمن میں سب سے بڑی جدوجہد تحریک ریشمی رومال کے ذریعہ کی گئی جو کامیابی سے چند قدم کے فاصلے پر غداری کی نذر ہوگئی۔چند غداروں کی وجہ سے انگریزوں نے اس تحریک کو بھی ناکام بنادیا بلکہ علماء کے حوصلوں کو پست کردیا ۔ شیخ الہند کے جیل میں چلے جانے کے بعدکئی سالوں تک سکوت طاری ہوگیا ۔ علماء نے بھی اپنی ذمہ داریاں مدارس تک محدود کرلی۔

حادثات ومصائب کی اس سنگین وادی میں گھری قوم کو بچانے کے لئے حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد رحمۃ اﷲ علیہ نے مدارس کی چہار دیواری سے باہرقدم نکالا۔ جن کے بارے میں ایک صاحب نظر نے کہاہے کہ وہ دین کی حقیقت، اسلامی علوم کی بصیرت بدلتے حالات کی بھرپور واقفیت ، حوصلہ مندانہ فیصلہ کی قوت، عمل کی غیر معمولی طاقت اورواقف راہ طریقت پر مشتمل ایک اولوالعزم شخصیت کے پیکر تھے۔ بہرحال انہوں نے قوم کی ڈوبتی نیا کو سمندر کنارے لگانے اور انگریزوں کے ملک بدر کرنے کے لیے سب سے پہلے علماء کو متحد کرنے کا بیڑہ اٹھایا ۔ان کی سوچ یہ تھی کہ علماء یک جہت ہوں گے تو سو جہتی ملت بھی کسی نہ کسی طرح ایک ہو جائے گی ۔چناں چہ 1917 میں مدرسہ عربیہ بہار شریف میں ایک جلسہ منعقد کیا، مختلف مذاہب فکر کے علماء کو جمع کیا، مولانا سید سلمان ندویؒ، قاری شاہ سلیمان قادریؒ جیسے اکابر ین امت بھی شریک اجلاس تھے، ان سب کی موجود گی میں مولانا نے جمعیۃ علماء بہار یا مجلس علماء بہار کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ابھی دو سال بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ مولانا کی یہ تنظیم جمعیۃ علماء ہند کے نام سے پورے ہندوستان میں پھیل گئی ، مولانا مناظر احسن گیلانی ایک جگہ رقم طراز ہیں۔ ’’ابھی چند مہینے ہوئے تھے کہ استھانواں کا وہی الکن خطیب مونگیر اس غرض آیا تھا کہ علماء کی منتشر اورپراگندہ جماعت کو ایک نقطہ پر خاص سیاسی خیالات کے ساتھ جمع کیا جائے، اس وقت دہلی جمعیۃ العلماء کا خواب تک نہ دیکھا گیا تھا ، طے یہ ہوا کہ صوبۂ بہار کے علماء کو پہلے ایک نقطہ پر متحد کیا جائے، پھر بتدریج اس کا دائرہ بڑھایا جائے۔(مولانا ابو ا لمحاسن محمد سجاد حیات وخدمات ص60۔ مولانا مناظر حسن گیلانی)

1919 میں دہلی کی سرزمین میں خلافت کانفرنس منعقد ہوئی، اس مجلس میں موجود تمام اہل علم نے جمعیۃ علماء بہار کو جمعیۃ علماء ہند میں تبدیل کرنے کی پیش کش کی ،اس مشورہ کے منظور ہوجانے کے بعد دہلی کے سید حسین رسونماؒ کی درگاہ پر خاص علماء کا اجتماع ہوا، اس مجلس میں حضرت مفتی کفایت اﷲ صاحب ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی صاحب، مولانا احمد سعید دہلوی ، مولانا عبد الباری فرنگی محلی سمیت کل بارہ علماء کرام تھے سبھوں نے جمعیۃ علماء بہار کے دائرہ کار کو پورے ہندوستان تک عام کرنے پر زور دیا ۔

1921 میں جمعیۃ علماء ہند کا دوسرا اجلاس عام پانی پت میں منعقد ہوا جس کی صدارت مالٹا کی جیل سے رہائی ملنے کے بعد حضرت شخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمۃ اﷲ نے فرمائی ۔ اسی اجلاس میں حضرت مولانا مفتی کفایت اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ کو جمیعۃ علماء ہند کا صدر منتخب کیا گیا ۔ اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کو جنرل سکریٹری۔ جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی رہنماؤں میں بانی جمیعۃ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد اور مذکور ہ اسماء کے علاوہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ،مولانا انظر شاہ کشمیری ، مولانا ابوالکلام آزاد ،مولامناظر احسن گیلانی ، مولانا سید سلیمان ندوی ، مولانا محمد میاں دیوبندی جیسے اکابر سرفہرست ہیں ۔جمیعۃ علماء ہند کے اس دوسرے اجلاس کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس وقت اہل حدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے دو نامور عالم دین مولانا ثناء اﷲ امرتسری ، اور مولانا داؤد غزنوی نے بھی جمیعۃ علماء ہند میں شمولیت اختیار کی تھی ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ سکتے ہیں شروع میں جمعیۃ علماء ہند ہندوستانی مسلمانوں کی ایک نمائندہ تنظیم تھی ۔ اس میں مسلک کی تفریق کے بغیر ہر ایک کو شرکت کی اجازت تھی۔

جمعیۃ علماء ہند اپنے قیام کے اول دن سے ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی خدمات میں مصروف ہے ۔ملک کی آزادی ، ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی اور مذہبی جنگ لڑنے میں جمعیۃ علماء ہمیشہ پیش پیش رہی ہے ۔ اس حقیقت کا ہرکسی کو اعتراف ہے کہ ملک کی آزادی میں جمعیۃ علماء ہند کی خدمات ناقابل فراموش ہے ۔ بانی جمعیۃ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ، مفتی کفایت اﷲ صاحب دہلوی ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ،شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمدنی اور دیگر اکابر نے نے ہمیشہ جمیعۃ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلندکی۔حکومت نے ان کی طاقت کو تسلیم کیا ۔ مسلم مسائل حل کئے ۔ قدرتی آفات اور دیگر موقع پر مسلمانوں کی مدد کی۔ انہیں ریلیف کا سامان فراہم کیا ۔جمعیۃ علماء ہند کا ایک طرہ امتیاز یہ ہے کہ خالص مولویوں کی جماعت ہونے کے باوجود تقسیم ہند کی مخالفت کرنے والوں میں یہ تنظیم سرفہرست تھی ۔بانی پاکستان محمد علی جناح کے نعروں پر یقین کرنے کے بجائے جمیعۃ کے ذمہ داروں نے ایک سیکولر ہندوستان کی ترجمانی کی اور تقسیم کی شدید مخالفت ۔ اکابرین دیوبند میں سے جن بزرگوں نے بھی تقسیم پاکستان کی حمایت کی انہیں جمعیۃ نے وفد بھیج کر تقسیم کے مضمرات سے آگاہ کیا اور دلائل کے روشنی میں ان کے سامنے یہ حقیقت آشکار ا کیاکہ مسلمانوں کی بھلائی متحدہ ہندوستان میں ہی تقسیم سے صرف خسارہ ہے ۔ جن پرکش نعروں کی بناپر قیام پاکستان کی کوشش کی جارہی ہے اس کی تعبیر ناممکن ہے۔ حقیقت حال آج سامنے ہے ۔ 68 سالوں کا طویل عرصہ گذرجانے کے باوجود بھی آج پاکستان ہر محاذ پر ناکام ہے ۔ اسلامی شریعت کا نفاذ تو بہت دور کی بات ہے سیاسی اور معاشی استحکام میں بھی یہ ملک زوال پذیر ہے۔

جمعیۃ علماء ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے قدیم تنظیم ہے ۔ اس سے وابستہ علماء نے ہمیشہ مسلمانوں کے مفاد کی خاطر حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کی ہیں ۔حالیہ دنوں میں جمیعۃ علماء ہند کا ایک گروپ جمیعۃ کے پلیٹ فارم سے حکومت کے سامنے اپنی طاقت و اہمیت کو تسلیم کرانے میں مسلسل مصروف ہے ۔ دہلی کے رام لیلام میدان یااس جیسے دیگر مقامات پر لاکھوں کا مجمع جمع کرکے حکومت کے سامنے ملی مسائل رکھے جاتے ہیں اور مسلمانوں کے اس کثیر مجمع کے پیش نظر حکومت سے یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ یہ ہندوستانی مسلمان یہاں کی دوسری سب سے بڑی اکثریت ہیں ۔ان کے بغیر حکومت سازی ناممکن ہے ۔ یہ یہاں کے حصہ دار ہیں کرایہ دار نہیں ۔ یہاں کی سرخ مٹی میں ان کا خون شامل ہے ۔ اس ملک کو سینچنے کے لئے انہوں نے اپنے پسینہ سے زیادہ خون بہایا ہے اس لئے حکومت ہند مسلمانوں کے ساتھ کسی طرح کا امتیازی رویہ اپنانے کے بجائے انہیں مکمل حقوق فراہم کرے ۔ہرایک کو بغیر کسی مذہبی تفریق کے ہندوستانی قوم کے زمرے میں رکھے ۔اتنی بڑی بھیڑ کے سامنے میں یہ مطالبہ کیا جارہا ہے اسے اگر نظر انداز کیا گیا تو انجام کار بہتر نہیں ہوں گذ۔ جمیعۃ علماء ہند کے دوسرے گروپ کے قائد حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کی توجہ اجلاس منعقد کرنے سے زیادہ بے قصور گرفتار مسلم نوجوانو ں کی رہائی پر ہے ۔ اب تک جیل کی سلاخوں میں بند دسیوں بے قصور مسلمانوں کی رہائی مولانا کی کوششوں سے ہوچکی ہے ۔اور اب بھی کئی بے قصور مسلمان کے مقدمہ مولانا لڑرہے ہیں ۔

جمعیۃ علماء ہند ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے ۔سب سے قدیم اور تاریخی تنظیم ہے۔ آج کے دور میں ہم اسے متحدہ اور سب سے بڑی جماعت تو نہیں کہ سکتے ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ سکتے ہیں کہ اس کا ماضی شاندار اور قابل فخر ہے ۔ سیاسی اور سماجی مسائل پر مسلمانوں کے حقوق کا مطالبہ کرنے والی یہی ایک جماعت رہی ہے ۔ آج بھی مسلمانوں کو اس جماعت سے یہی توقع ہے کہ ذمہ داران اپنے اسلاف کے طرزپر چلتے ہوئے شاندار ماضی کی روایت قائم کریں گے ۔جن اغراض و مقاصد کے تحت جمیعۃ علماء ہند کا قیام عمل میں آیا تھا اس کو بروئے کار لانے کی کوشش کی جائے گی۔(بصیرت فیچرس)
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 180712 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More