شیرِ راولپنڈی شیخ رشید احمد کی
ہار ........حکومت کے لئے آئینہ ہے
18فروری 2008 کے ہارے ہوئے شیخ رشید احمد25فروری 2010کو بھی ہار گئے
شیخ رشید احمد 25فروری کو بھی 12ویں کھلاڑی کی حیثیت سے چانس پر تھے
آج راولپنڈی کے حلقے این اے 55کے ضمنی انتخابی عمل میں حکومتی حمایت یافتہ
اُمیدوار اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی پاکستان مسلم لیگ
(ن) کے اُمیدوار ملک شکیل اعوان کے ہاتھوں ہونے والی 21ہزار ووٹوں سے شکست
نے حکمرانوں اور سیاسی بازی گروں کی نیندیں اُڑادی ہیں اور اِس کے بعد
حکمران اور برسرِاقتدار پارٹی کے اراکین سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ اِن کے
حمایت یافتہ اُمیدوار اور لال حویلی کے مالک شیرِ راولپنڈی شیخ رشید احمد
کی شکست کیو ں کر ہوگئی ہے؟ جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا اِن کے حمایتی
اُمیدوار کی جیت تو یقینی تھی مگر اِنہیں شکست کے کڑوے گھونٹ کیوں پینا
پڑگئے؟ اِن پریشان کُن سوالات کا ایک ہی جواب ہے کہ متحرم حکمرانوں کیا آپ
نے اپنے اِن دو سالہ اقتدار میں کیا کبھی یہ سوچا کہ آپ نے عوام سے کئے گئے
اپنے کتنے وعدے پورے کئے؟ اور عوام کو کیا دیا؟ کیا آپ نے اِس عرصے میں
کبھی پیچھے مڑ کر یہ دیکھا کہ آپ نے عوام کو کس معاملے میں کتنا ریلیف دیا
؟ اور کیا آپ نے اپنے نعرے روٹی، کپڑااور مکان سے عوام کو حقیقی معنوں میں
ہمکنار کیا؟ اور کیا آپ نے اپنا احتساب کیا کہ آپ عوام کے معیار پر کتنا
اُترے ہیں؟ اور آپ کا عوام میں کیا گراف ہے؟ میرے خیال سے جو کام آپ نہیں
کرسکے وہ کام راولپنڈی کے حلقے این اے 55کے ضمنی انتخاب نے کر دکھایا ہے یہ
ضمنی انتخاب نشان عبرت ہے ہمارے اِن رہنماؤں کے لئے جو اِس خوش فہمی میں
ڈوبے ہوئے ہیں کہ اُنہوں نے عوام کے مسائل حل کردیئے ہیں۔ اور جب یہ اپنی
حکومتی مدت پانچ سال پورے کرنے کے بعد اپنا سر تان اور سینہ پھولا کر
دوبارہ جنرل انتخابات کے وقت عوام کی دہلیز پر ووٹوں کی بھیک مانگنے جائیں
گے تو عوام اِن کے پھیلائے ہوئے کانسہ میں اُسی طرح وٹ ڈال دیں گے جس طرح
عوام نے متحرمہ شہید بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اِن کے دامن اپنے ووٹوں
سے بھر دیئے تھے۔ مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اَب صورتِ حال اِس سے قطعاً بڑی
مختلف اور حیران کُن ہوگی کیونکہ اِس کا اندازہ حکمران راولپنڈی کے ضمنی
انتخاب سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ عوام اِن کو تین سال بعد اپنی دہلیز سے کس
طرح سے واپس کریں گے کہ شائد یہ اُس کیفیت کا بیان بھی نہ کرسکیں تو ضروری
ہے کہ حکمران اپنے آپ کو سنبھالیں اور عوام کے معیار پر پورا اُتریں تو
ٹھیک ہے ورنہ تیار ہوجائیں اپنی سُبکی کے لئے جو ناقابلِ بیان ہوگی۔
بہرکیف !اِس صورت ِ حال کوئی اِسے کچھ بھی کہئے مگر اِس حقیقت سے قطعاً
انکار نہیں کرسکتا کہ ملک کے عوام اَب ایک لمحہ بھی موجودہ حکمرانوں اور
برسر اقتدارپارٹی کو حکومت میں نہیں دیکھنا چاہتے اور آج ملک کے عوام
اِنہیں انتہائی مجبوری کے عالم میں برداشت کر رہے ہیں اگر آج بھی ملک بھر
میں جنرل انتخابات ہوجائیں تو ملک کے ساڑھے سولہ کروڑ عوام اپنے ووٹوں کی
طاقت سے اِن حکمرانوں اور برسرِ اقتدار جماعت کا بھی وہی حشر کریں گے کہ جس
طرح عوام نے پچھلے انتخابات میں مشرف کے حامیوں اور راولپنڈی کے ضمنی
الیکشن میں حکومتی حمایت یافتہ اُمیدوار کا کیا تھا۔
اَب اِسی کو ہم بنیاد بناتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کہ اِس کا واضح ثبوت یہ ہے
کہ گزشتہ کئی دنوں سے راولپنڈی کے حلقہ این اے 55کے ضمنی الیکشن میں حکومتی
حمایت یافتہ اُمیدوار شیخ رشید احمد اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار
ملک شکیل اعوان کے درمیان جو معرکہ جاری تھا بالآخر 25فروری کو اِس حلقے
میں ہونے والے ضمنی انتخابی عمل کے ساتھ ہی حکومت کے حامی اُمید وار شیرِ
راولپنڈی شیخ رشید احمد کی ایک بار پھر ذلت آمیز شکست اور ملک شکیل اعوان
کی فتح کے بعد اُس کا اختتام ہوگیا ہے۔اور اِس طرح ضمنی انتخاب کے نتیجے نے
یہ واضح کردیا ہے کہ عوام کا حکومت پر کتنا عدم اعتماد ہے اور عوام آئندہ
ملک میں ہونے والے جنرل انتخابات میں برسرِاقتدار پارٹی اور حکمرانوں کا
کیا حشر کرے گی وہ بھی آج سب کے سامنے آچکا ہے اور ایک بات یہ کہ جس طرح
عوام نے اِس ضمنی انتخاب میں حکومت کی حمایت یافتہ اُمیدوار شیخ رشید احمد
کو شکست سے دوچار کر کے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار ملک شکیل اعوان
کو فتح ِ عظیم دلاکر حکومت سے اپنی نفرت کا اظہار کر کے موجودہ حکومت کو
ایک آئینہ دکھایا ہے اَب اِس آئینے میں حکمران اپنا چہرہ دیکھ لیں کہ عوام
نے اِس ضمنی انتخاب کے بعد حکومتی حمایت یافتہ امیدوار کی شکست سے جو آئینہ
تراشہ ہے اِس میں حکمران یہ دیکھیں کہ عوام اَب انہیں کس طرح سے دیکھ رہے
ہیں۔
بہرحال! میں یہ سمجھتا ہوں کہ اَب بھی بڑا وقت ہے کہ حکمران خود کو عوامی
عدالت میں لانے سے قبل اپنا احتساب خود کرلیں ورنہ اِن کا حشر عوام جنرل
انتخابات میں ایسا ہی کریں گے جس طرح راولپنڈی کے ضمنی انتخاب میں حکومتی
حمایت یافتہ اُمیدوار شیخ رشید احمد کا کیا ہے۔
گو کہ اگر دیکھا جائے تو اِس الیکشن میں شیخ رشید احمد کی ہار اِس لحاظ سے
بھی خاصی اہمیت کے حامل ہے کہ شیخ رشید احمد پہلے ہی پاکستان مسلم لیگ (ق)
کے اُن اُمیدواروں میں شامل رہے کہ جن سے متعلق یہ بہت مشہور ہوا تھا کہ
اُس وقت کے آمر جنرل پرویز مشرف کی بنائی ہوئی پاکستان مسلم لیگ (ق) کے وہ
تمام کے تمام اُمیدوار جو مشرف کی قربت میں ایسے نڈھال ہوچکے تھے کہ اِنہیں
اِس دوران عوامی کی کوئی فکر نہ تھی اور اِن سب کو ہر طرف صرف مشرف ہی
دِکھائی دیتا تھا اور پاکستان مسلم لیگ (ق) والے جن میں شیخ رشید احمد تو
سرِ فہرست تھے یہ اُس آمر جنرل کی وردی اور اِس کی کبھی کبھی شیروانی پکڑے
بھی ہر طرف پھرتے نظر آتے تھے اور آمر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے ایک اہم
رکن جانے اور پہچانے جاتے تھے اور اُنہوں نے مشرف کی قربت میں رہتے ہوئے
آمر پرویز مشرف کو ایسے مشورے بھی ضرور دیئے ہونگے کہ جن کا خمیازہ آج پوری
پاکستانی قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اِسی دوران جب ملک میں 18فروری 2008 کو
عام انتخابات ہوئے تو عوامی طاقت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ایک ہی
جھٹکے میں کردیا اور عوام نے اپنے ووٹ سے اُس وقت کے آمر جنرل پرویز مشرف
کے اُن چیلوں اور خوشامدیوں کو قومی دھارے سے باہر نکال پھینکا کہ اِن کے
سیاسی کیریئر پر سیاہ دھبہ لگ گیا تھا کہ جو کبھی بھی نہ دھل سکے گا اور
اِس طرح پاکستان مسلم لیگ (ق) کے وہ تمام بڑے سیاسی بُرج جن میں گزشتہ دنوں
راولپنڈی کے حلقہ این اے 55 کے ضمنی الیکشن میں ہارنے والے شیخ رشید احمد
بھی 18فروری 2008 کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں ڈھائے جانے والے
بُرجوں میں شامل تھے۔
میرا خیال ہے کہ اِس مرتبہ یعنی دو سال بعد جب اِن کے اِسی حلقے میں ایک
بار پھر قسمت آزماؤ سیٹ پاؤ کا دنگل ضمنی انتخابی عمل کی صورت میں سجا تو
شیخ رشید احمد نے اپنی بنائی ہوئی ایک نئی جماعت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ
کی حیثیت سے اِس انتخابی دنگل میں خود کو دھکیلا اور چلے انتخابی مقابلہ
کرنے ...اور بالآخر اِس مرتبہ بھی ہوئی ہوا جس کا خدشہ تھا اور وہ اپنے ہی
حلقے سے پھر ہار گئے اور ایسے ہارے کہ اِس مرتبہ تو وہ خود بھی اندر سے
بُری طرح سے ٹوٹتے ہوئے محسوس کئے گئے۔
جہاں تک میرا خیال ہے اگرچہ شیخ رشید احمد بھی شائد یہ خوب جانتے تھے کہ یہ
پہلے ہی ہارے ہوئے اُمید وار ہیں چلو پھر بھی موجودہ حکومتی ٹیم میں 12ویں
کھلاڑی ہی کی حیثیت سے صحیح ایک چانس اور لے لیتے ہیں اور اُنہوں نے اپنے
ماضی کے اُن کارناموں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے۔ ضمنی انتخابی عمل میں
خود کو جھونکا اور پھر اپنی ہار کی شکل میں خود ہی جل بھن کر باہر آگئے۔
اَب یہ اور بات ہے کہ حکومت نے بھی اِن کی حمایت کر کے خود ہی اپنا گراف
گرا دیا ہے کیوں کہ شیخ رشید احمد پر آج بھی مشرف کے ایک بڑے حامی ہونے کا
دھبہ لگا ہوا ہے اور عوام اِس وجہ سے اِن کے سیاسی کردار پر شک کرتے ہیں جو
اِن کی شکست کی بڑی وجہ بنا اور اِسی بنا پر اِن کی حمایت کر کے حکومت نے
بھی عوام میں اپنا رہا سہا وقار بھی خاک میں ملا دیا ہے۔ |