بھارت نے کس طرح ہمارے حصے کا پانی چرایا

قائداعظم محمد علی جناح کی سرپرستی میں برصغیر کے مسلمانوں نے جب آزادی کی جدوجہد شروع کی تو فطری طور پر متعصب اور کینہ پرست ہندوؤں نے انگریزوں سے گٹھ جوڑ کر کے بھرپور کوشش کی کہ مسلمان اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوں، برصغیر کی باگ ڈور ہندوؤں کے ہاتھوں میں ہی رہے لیکن مسلمانوں کے جوش و جذبہ اور قائد اعظم محمد علی جناح کے آہنی ارادوں نے ہندوؤں کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا اور مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان معرض وجود میں آگئی۔ تقسیم کے وقت بھارت نے وسائل میں ڈنڈی ماری اور بعد میں دو جنگیں مسلط کیں لیکن پاکستان کا وجود قائم رہا۔1974ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا اور اپنی ایٹمی صلاحیت کو "پرامن مقاصد"کے لئے قرار دیا لیکن دھماکے کے بعد اس کے تیور اور پاکستان کے ساتھ رویہ بخوبی بیان کررہے تھے کہ اس نے ایٹمی صلاحیت کیوں حاصل کی ہے۔ پاکستان نے بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی اور 1998ء میں چھ ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کی فوجی جارحیت کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا تو بھارت نے پاکستان کے خلاف واٹر بم بنا لیا۔ 1960ءمیں سندھ طاس معاہدے کے تحت راوی بیاس اور ستلج بھارت کو سونپ دئیے گئے جبکہ سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کو ملے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنا حق استعمال کرتے ہوئے بھارت نے دریائے راوی، ستلج اور بیاس پر بند باندھ کر اِن دریاؤں کو تو خشک کر ہی دیا ہے مگر سراسر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت نے پاکستان کے حصّے میں آنے والے دریائے چناب پر بھی بگلیہار ڈیم تعمیر کرلیا جبکہ وہ دریائے نیلم پر کشن گنگا پروجیکٹ شروع کرکے دریائے نیلم کا رخ بدلنے کے لئے بھی کام کر رہا ہے۔ بھارت نے افغان حکومت کو بھی مشورہ دے رکھا ہے کہ دریائے کابل پر اسد آباد کے نزدیک ڈیم بنائے جس کے لئے بھارتی حکومت نہ صرف فنی تعاون فراہم کرے گی بلکہ ایک ارب ڈالر کی امداد بھی دے گی۔

بھارت ایک سوچی سمجھی سازش اور پاکستان کے ساتھ ازلی دشمنی کے جذبے کے تحت اسے ایک صحرا میں تبدیل کردینے کے درپے ہے لیکن ہماری لیڈرشپ نے چپ سادھ رکھی ہے باوجود اِس مسلمہ حقیقت کے کہ بھارت کے اس واٹر بم کی تباہ کاریاں ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم سے سیکڑوں گنا زیادہ ہیں۔ خوفناک اور تشویشناک امر یہ ہے کہ آزادی کی جنگ لڑنے کے لئے ہمیں قائداعظم محمد علی جناح جیسا مخلص لیڈر میسر تھا، بھارتی ایٹمی صلاحیت کا توڑ کرنے کے لئے ایٹم بم بنانے اور اس کے لئے گھاس تک کھانے کے عزم کا اظہار کرنے والی شخصیات موجود تھیں لیکن آج بھارت کے واٹر بم کا توڑ کرنے والی قیادت کا فقدان ہے جس کی وجہ سے بھارت پاکستان کو پانی کی نعمت سے محروم کرکے تباہ و برباد کرنے کے گھناؤنے منصوبے میں تیزی سے کامیاب ہوتا جارہا ہے جس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1951ء کی دہائی میں ہمارے ہاں پانی کی فی کس دستیابی 5300کیوبک میٹر تھی جو سال 2010ء میں کم ہوکر 1000کیوبک میٹر رہ گئی ہے اور اگر حالات یونہی رہے تو آئندہ پچاس سالوں میں پاکستانی قوم کے لئے پانی کی دستیابی نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی جس کے انتہائی خوفناک اور تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔

بھارت اس وقت نیشنل ریور لنکیج پروجیکٹ کے نام سے پانی ذخیرہ کرنے کے بہت بڑے منصوبے پر کام کررہا ہے جس پر ایک محتاط اندازے کے مطابق 120/ارب ڈالر لاگت آئے گی اور یہ 2016ء تک مکمل ہوجائے گا۔ اس منصوبے میں 178کیوبک میٹر پانی کا رخ شمال سے جنوب کی جانب موڑنا، پانی محفوظ کرنے کے لئے تین ہزار ذخیرے تعمیر کرنا اور چودہ ہزار کلومیٹر طویل نہریں تعمیر کرنا شامل ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ گزشتہ پینتیس سالوں سے کوئی بڑا آبی ذخیرہ تعمیر نہیں کیا گیا جبکہ ملکی معیشت کے لئے سونے کے پہاڑ جیسے کالا باغ ڈیم کو موت کی نیند سلا دیا گیا اور وہ بھی ان لوگوں کی خوشنودی کے لئے جنہوں نے آج تک کشمیر پر بھارتی قبضے اور بگلہیار ڈیم کی تعمیر کے متعلق کبھی ایک لفظ تک نہیں کہا لیکن کالا باغ ڈیم جیسے انتہائی مفید منصوبے کے خلاف ہمیشہ شور مچاتے رہے۔ اِن لوگوں کو یہ تو منظور ہے کہ ہر سال ساڑھے تین کروڑ ایکڑ فٹ پانی سمندر میں گر کر ضائع ہوجائے لیکن یہ گوارا نہیں کہ اِس پانی کو ذخیرہ کر کے وافر بجلی پیدا کی جائے اور زرعی اراضی کو سیراب کر کے ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔

اس وقت پاکستان میں تقریباً 9ملین ہیکٹر زرعی اراضی پہلے ہی پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بیکار پڑی ہے اور اگر بھارت پاکستان کے خلاف واٹر بم یونہی استعمال کرتا رہا تو آئندہ پچاس سالوں میں موجودہ زیرِ کاشت زرعی اراضی بھی بنجر ہوجائے گی، ملک عملی طور پر صحرا بن جائے گا، ہر جانب قحط و فاقہ کشی کا دور دورہ ہوگا اور بھارت ایک بھی گولی چلائے بغیر پاکستان پر بالادستی کرنے کے گھناؤنے منصوبے میں کامیاب ہوجائے گا جو ہمارے لئے کسی طرح بھی قابلِ قبول نہیں۔ بھارتی ایٹم بم کے مقابلے میں ہمارے پاس اس سے زیادہ بہتر ایٹم بم تو موجود ہے لیکن ایٹم بم سے کہیں زیادہ تباہ کن واٹر بم کے توڑ کے لئے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے لہٰذا پاکستانی حکومت کو چاہئے کہ روایتی سستی اور غفلت کا دامن چھوڑ کر ہوشیار و خبردار ہوجائے کیونکہ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کی بقاء کا معاملہ ہے۔

حکومت تمام ممکن ذرائع سے بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی حقیقی معنوں میں پابندی کرے جو کہ اس وقت وہ نہیں کررہا۔ سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل VIکے تحت بھارت پاکستان کو دریاؤں کے بہاؤ کے بارے میں معلومات مہیا کرنے کا پابند ہے لہٰذا اس سے اِس سلسلے میں تمام معلومات باقاعدگی سے طلب کی جائیں۔ انٹرنیشنل ایجنسیوں کے تعاون سے دریاؤں پر ٹیلی میٹری سسٹم نصب کیا جائے اور بھارت بگلہیار ڈیم کی وجہ سے پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کرے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر پر انتہائی سخت مؤقف اپناتے ہوئے اس مسئلے کو عالمی سطح پر اچھی طرح اجاگر کرنا چاہئے کیونکہ سابق حکومت نے مسئلہ کشمیر کو پسِ پشت ڈال کر بھارتی مقاصد کی تکمیل کے لئے راہ ہموار کی۔

پاکستان میں آنے والے دریاؤ کا ماخذ کشمیر میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا لہٰذا حکومت پاکستان کی شہ رگ کو بھارت کے ہاتھوں میں نہ دے۔ بھارت پر یہ اچھی طرح واضح کردیا جائے کہ وہ پاکستان کے خلاف آبی جارحیت سے باز آجائے اور واٹر م استعمال نہ کرے وگرنہ پاکستانی قوم پانی نہ ہونے کی وجہ سے سسک سسک کر مرنے کے بجائے ایٹمی صلاحیت کے استعمال کو ترجیح دے گی کیونکہ پاکستان نے ایٹم بم شب برات یا پھر شادی بیاہ کی کسی تقریب میں چلانے کے لئے نہیں بنایا۔ بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں کے ذریعے عالمی برادری کو یہ پیغام دیا جائے کہ بھارت ہٹ دھرمی کے ذریعے برصغیر کو ایٹمی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے لہٰذا عالمی برادری اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بھارت کو گھناؤن اقدامات اٹھانے سے روکے۔ نئی دہلی مذاکرات میں بھی ان مسائل پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی بھارت پہلے کی طرح کوئی نئی شرائط عائد کر دے گا ۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 90643 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.