علاقائی روایات پی کے95خواتین ووٹ سے محروم
(Umer Farooq Sardar, Cheecha Watni)
دنیا کے ہرملک میں ہر
تحریک میں خواتین کا اہم رول رہا ہے اور ہے پاکستان بنایا گیا تو خواتین نے
تحریک پاکستان کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے اور تحریک آزادی
پاکستان کے لیے شوہر ،بیٹوں اور باپ تک کی قربانی دیکر بھی عزم پاکستان کو
بحال رکھا ،آج کے دور میں شائد ہی کوئی سرکاری و پرائیویٹ ادارہ ہو گا جہاں
پر خواتین اپنا کردار نا ادا کررہی ہوں اب ہر ادارے میں اور الیکشن کے لیے
بھی یونین کونسل ،ایم پی ایز ،ایم این ایز کے سیٹوں پر خواتین کے لیے سیٹیں
مخصوص ہیں اس وقت ہر طرف امیر جماعت اسلامی پاکستان سنیٹرسراج الحق کی خالی
کی ہوئی نشست صوبہ خیبر پی کے 95میں ہونے والے مئی2015 ضمنی الیکشن جہاں
جماعت اسلامی کے امیدواراعزازلملک افکاری نے تین جماعتوں اے این پی ،پی پی
پی اور جمیعت علماء اسلام کے کے مشترکہ امیدوارحاجی بہادر خان کو شکست سے
دوچار کیا وہاں ایک حیرت انگیز بات بھی سامنے آئی کہ اس حلقے سے کسی ایک
بھی خاتون نے ووٹ پول نہیں کیا ،حیرت کی بات ہے کہ اس حلقے میں اے این پی ،جماعت
اسلامی ،تحریک انصاف ،پی پی پی ،مسلم لیگ ن،جمیعت علماء اسلام کے امیدوار
الیکشن میں حصہ لیتے ہیں 2013کے الیکشن میں درج ذیل تمام جماعتیں میدان میں
تھیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس وقت بھی کسی خاتون نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا
تھا ،اور اس بھی حیرت انگیز بات یہ کہ اگر اس بات کا الزام جماعت اسلامی پر
لگایا جائے تو پھر یہاں ایک اہم سوال بھی سامنے آتا ہے کہ 2008میں جماعت
اسلامی نے الیکشن سے بائیکاٹ کیا ہواتھا اور اس وقت بھی کسی ایک خاتون نے
بھی ووت کاسٹ نہیں کیا تھا اور کامیاب بھی اے این پی کا امیدوار ہوا تھا ،مقامی
حالات کو سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو پی کے 95کا ماحول ہی ایسا ہے کہ
وہاں خواتین ووٹ کاسٹ کرنے نہیں جاتیں کیونکہ اس علاقے کی روایت بن چکی ہے
کہ جو امیدوار خواتین کو باہر نکالے گا اس کے خلاف ووٹ کاسٹ ہوں گے اور اس
امیدوار کو مختلف قسم کے طعنوں کے ساتھ ساتھ شکست کا سامنا بھی کرنا پڑے گا
حیرت انگیز بات سامنے آئی ہے کہ خواتین ووٹ ڈالنے تو نہیں آتی لیکن ہر
امیدوار نے یہ انتظام کر رکھا ہوتا ہے کہ اگر مخالف امیدوار خواتین کو ووٹ
کے لیے نکالے گا تو ہم بھی فوری اپنی خواتین کے ووٹ کاسٹ کرو دیں گے
امیدوران کی جانب سے خواتین مکمل تیار ہوتیں ہیں ،جماعت اسلامی ،اے این پی
،پی پی پی ،تحریک انصاف سمیت علاقائی روایات کو پامال کرنے کی ہمت کسی میں
نہیں ہے سب جانتے ہیں خواتین کو ووٹ کے لیے نکالنے کی ابتدا جس جماعت نے کی
وہ الیکشن نہیں جیت پائے گا ہم علاقائی روایات کے بالکل مخالف نہیں اگر اس
علاقے کی خواتین خود ووٹ کاسٹ کرنابھی نہیں چاہتی تو زبردستی تو ممکن نہیں
ہے اسی حلقے سے بلدیاتی الیکشن کے لیے سب سے زیادہ بلا مقابلہ خواتین جماعت
اسلامی کی کامیاب ہوئیں ہیں اے این پی ،تحریک انصاف ،پی پی پی ، وغیرہ نے
کم ہی خواتین کو میدان میں اتارا ہے اس لیے خواتین کو آزادی دینے کے لیے سب
سے زیادہ شور اے این پی اورپی پی پی کرتے ہیں لیکن یہاں پر یہ بھی خاموش
اور مجبورنظر آتے ہیں اصل مسئلہ روایات اور مقامی کلچر کا ہے جس کے خلاف
کوئی سیاسی جماعت پریکٹیکل نہیں جانا چاہتی ، ویسے تو ہر جماعت اس بات کی
مذمت بھی کرتی ہے اور اس بات پر زور بھی دیتی ہے کہ خواتین ووٹ لازمی کاسٹ
کریں ،زاہدہ خان سنیٹر ہے اے این پی کی اس نے اپنے امیدوار حاجی بہادر کو
ووٹ کاسٹ کیوں نہیں ،پھر جمیعت علما ء اسلام کی عظمی خان بھی اسی حلقے سے
اپم پی اے ہے جو مخصوص نشست پر کامیاب ہوئی ،سراج الحق نے بھی بار بار
الیکشن والے دن ٹی وای پر آکر مطالبہ کیا خواتین ووت کاسٹ کرنے کے لیے
گھروں سے نکلے لیکن ان کی اپیل نے بھی کام نا کیا اگر سیاسی قیادت اس روایت
کو ختم کرنا چاہتی ہے تو پھر اس حلقے کے امیدواران کو خود پہل کرنی ہوگی کہ
ہر امیدوار اپنے اہلخانہ کے ہمراہ ووٹ کاسٹ کرکے مثال بنے پھر سب جماعتوں
کے کارکنان بھی اپنی خواتین کے ہمراہ ووت کاسٹ کرنے ضرور آئے گے این جی
اووز نے اب بہت شور مچا رکھا ہے اگر یہی شور 2002,2008میں ڈالا جاتا تو
بہتر تھا خیر اصل فیصلہ تو اہلیان دیر نے ہی کرنا ہے کیونکہ ان کی روایات
وکلچر کے حوالے سے ہم زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے ہر علاقے کی اپنی اپنی
روایات ہوتی ہیں کچھ غلط توکچھ ٹھیک ہوتی ہیں - |
|