ماضی میں جب کسی بھی ملک کو فتح
کیا جاتا تھا تو اس کے لئے اہم ذرائع بحری راستے ہوا کرتے تھے ۔ بحری
راستوں سے تجارت کے بہانے کسی بھی کمزور یا مالدار ملک میں داخل ہوکر پہلے
تجارتی بنیادوں پر قدم مضبوط کئے جاتے اور پھر اس کی معاشی پالیسیوں پر
حاوی ہوکر بتدریج اندرونِ خانہ بغاوت پیدا کرکے اس کی سر زمین پر قبضہ
کرلیا جاتا ۔ متحدہ ہندوستان کی مثال تو ہمارے سامنے ہی ہے کہ سونے کی چڑیا
قرار دیئے جانے اس ملک پر قبضہ کرنے کیلئے دنیا بھر سے مغرب نے بحری جہازوں
کے ذریعے اپنے قافلے بھیجے اور بالاآخر ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان پر
قبضہ کرلیا اور سو سال سے زائد ہندوستان پر حکومت کرنے کیلئے متحدہ
ہندوستان کی تقسیم کچھ اس طرح کی آج تک سرحدوں کے تنازعات طے نہیں ہوسکے
۔صرف یہی نہیں بلکہ کمیشن نے بحری بندرگاہوں میں بنگال کی کلکتہ بندرگاہ کو
پاکستان میں شامل نہیں ہونے دیا تاکہ پاکستان معاشی طور پر مضبوط نہ رہ سکے
اور جلد از جلد پاکستان ، دوبارہ ہندوستان میں ضم ہونے پر مجبور ہوجائے۔ آج
کے اس جدید دور میں بندرگاہوں کی جس قدر اہمیت ہے غالباََ ماضی میں بھی
نہیں تھی ، تجارتی سامان کے علاوہ جنگی بھاری ساز و سامان کی ترسیل بحری
راستوں سے ہی ممکن بنائی جا رہی ہے بلکہ اب تو بحری جنگی بحری اڈوں کا ایک
نیا تصور بھی آچکا ہے کہ طاقت ور ملک اپنی طاقت کا مظاہرہ اور کسی بھی ملک
کو میزائیل سے نشانہ بنانے اور تیز ترین جنگی جہاز فوراََ روانہ کرنے کیلئے
بحری بیڑے کا سہارا لیتا ہے۔
چین اور بھارت اپنی معاشی ترقی کو برقرار رکھنے کیلئے وسائل کے حصول کیلئے
سرگرداں ہیں اور اس سلسلے میں ایشین ٹائیگر بننے کیلئے بھارت ایسے بحری
منصوبوں پر کام کر رہا ہے جو اس کی جنگجوؤانہ فطرت کو تسکین پہنچا سکے ۔
لیکن یہ بھی تاریخ گواہ ہے کہ بھارت کبھی کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرنے کی
صلاحیت نہیں رکھتا ، جبکہ افغانستان سے لیکر برطانیہ تک نے ہندوستان پر
سینکڑوں سال حکومت کی اور اپنی طاقت کا لوہا منوایا ہے۔یہ بھارتی سرز مین
کی باسیوں کی خود بو میں شامل ہے کہ وہ اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھ سکتے
۔لیکن’ بنیا ‘ہونے کے سبب دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا بھی بھارتی
برہمن فطرت میں شامل ہے۔
بھارت اپنی نئی انتہا پسند جنگجواؤنہ پالیسی کے تحت ایران کی جنوب بندرگاہ
چاہ بہار کے ذریعے وسطی ایشیا اور افغانستان تک رسائی کی امید پر منصوبہ
بندیوں میں مصروف ہے اور اس کیلئے کسی بھی ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش
اور منصوبہ بندی کرنا ، بھارتی ہندو انتہا پسندوں کی خصلت بن چکی ہے۔ایران
کی بندرگاہ چاہ بہار پاکستان کے ڈیپ سی پورٹ سے محض 75کلو میٹر کے فاصلے پر
واقع ہے ، چین چونکہ ایک عالمی طاقت بننے کیلئے غیر مستحکم ممالک میں بھاری
سرمایہ کاری کر رہا ہے ، بھارت چاہ بہار بندرگاہ اور چین گوادر کے ذریعے
افریقہ ، لاچینی امریکہ اور افغانستان تک سے اقتصادی معاہدے کرنا چاہتا ہے
، موجودہ پاک ، چین اقتصادی راہدری معاہدہ اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ بھارت
اس منصوبے سے گوادار پورٹ کے فعال ہونے پر خوش نہیں ہے ۔ بھارت نہیں چاہتا
کہ پاکستان میں گوادر پورٹ فعال ہوجائے کیونکہ اس سے ، بھارت کے مفادات کو
شدید نقصان پہنچے گا ، بھارت نے تو برہم ہوتے ہوئے با قاعدہ چین کے سفیر کو
طلب کرکے اقتصادی راہداری ،منصوبے پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا اور دہمکی
دی۔ گذشتہ دنوں پہلی مرتبہ گوادر سی ڈیپ پورٹ سے پہلا کمرشل بحری جہاز
دوبئی کیلئے مچھلیوں کی بہت بڑی کھیپ لیکر روانہ ہوا۔ چین کولمبو شہر کی
بندرگاہ کو ۴ء۱ ؍ ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کر رہا ہے سری لنکا جیسے چھوٹے
جزیرے پر مشتمل ملک کیلئے یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔ چین کی سرکاری چائنا
کیمونی کیشن کنسٹرکشن کمپنی نے سری لنکا کی بندرگاہوں کی وزرات سے بولی کی
صورت میں یہ منصوبہ حاصل کیا جس کا قلم دان اُس وقت کے صدر اراجاپا کسے کے
پاس تھا۔ سری لنکا میں بھی بھارت نے سازش کرکے اس منصوبے کو متنازعہ بنا
دیا گیا ، کیونکہ بھارت نہیں چاہتا کہ چین کولمبو کے قریب زمین پر قبضہ
جمائے کیونکہ وہ بھارتی سامانِ تجارت کی گزرگاہ بھی ہے، بھارتی اثر رسوخ کا
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب نریندر مودی ۲۸ برس کے دوران پہلے
دوطرفہ دورے پر سری لنکا پہنچے تو بندرگاہ پر کام کو معطل کرادیا گیا۔بھارت
نے گزشتہ سال بندرگاہ کے چینی تجارتی حصہ پر چین کی عسکری آبدوز کی موجودگی
پر بھی اعتراض کیا تھا۔
آسٹریلیا کے لو وی انسٹی ٹیوٹ میں بین الاقوامی سلامتی امور کے ماہر روری
کا کہنا ہے کہ ’ ان بندرگاہوں کے ذریعے چین اور بھارت اپنے مفادات کا دائرہ
وسیع کرنا چاہتے ہیں ، تجارت اور بیرونی مارکیٹیوں تک رسائی کے مواقع کو
بڑھانا چاہتے ہیں ‘۔
بھارت ایرانی حکام سے چاہ بہار بندرگاہ کو وسعت دینے کیلئے متواتر دباؤ
ڈالتا رہا ہے ۔گو کہ یہ بندرگاہ فعال تو ہے لیکن اس کی گنجائش پچیس لاکھ ٹن
سالانہ ہے ، جبکہ اس کیلئے ایک کروڑ بیس لاکھ ٹن سالانہ کا ہدف رکھا گیا ہے
، امریکہ ایران میں اس چاہ بہار بندرگاہ کی وسعت کا مخالف ہے لیکن بھارت
پاکستان میں چین کے تعاون سے بنائی جانے والی بندرگاہ گوادار کا شدید ترین
مخالف ہے۔ چین نے اس بندرگاہ کیلئے دو سو اڑتالیس ملین ڈالر کے ابتدائی
ترقیاتی کا 80فیصد فراہم کیا تھا ، اسی بندرگاہ کے ذریعے چین کو اپنی
توانائی کی ضروریات کیلئے تیل کی سپلائی حاصل کرنے میں آسانی ہوجائے
گی۔بھارت و چین اپنی معاشی ترقی کے تیز رفتار پہیے کو جاری رکھنے کیلئے
ایران و پاکستان میں بڑی لاگت کے منصوبے جلد از جلد تکمیل تک پہنچانا چاہتے
ہیں تو دوسری جانب بھارت یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان اور پھر خاص طور پر
بلوچستان کے عوام اپنے پیروں میں کھڑے ہوسکیں اور بھارت نے سازشوں کے ذریعے
پاکستان کے طول و عرض میں جو انارکی پھیلا رکھی ہے اور سرمایہ کاروں کو
پاکستان آنے سے خوف زدہ کرنے کیلئے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بھیانک سازش کر
رہا ہے اس کا اولین مقصد بھی یہی ہے۔گوادر بندرگاہ بحیرہ عرب کے سرے پر
خلیج فارس کے داہانے پر واقع ہے کراچی کے مغرب میں تقریباََ 460کلومیٹر ،
پاکستان کی سرحد کے مشرق میں ایران سے 75کلو میٹر اور شمال مشرق میں بحیرہ
عرب کے پار عمان سے380کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔گوادر بندرگاہ کلیدی مقام
آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے جو کہ خلیجی ریاستوں کے تیل کی بر آمدات کا
واحد بحری راستہ ہے اس کے علاوہ یہ زمین بند افغانستان اور وسطی ایشیائی
ریاستوں جو کہ توانائی کی دولت سے مالا مال ہیں ، کی قریب ترین گرم پانی کی
بندرگاہ ہے۔1955ء میں علاقے کو مکران ضلع بنا دیا گیا 1958ء میں مسقط
نے10ملین ڈالرز کے عوض گوادر اور اس کے گرد نواح کا علاقہ پاکستان کو دے
دیا ، یکم جوالئی 1970ء کو جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور بلوچستان بھی ایک
صوبے کی حیثیت اختیار کرگیا تو مکران کو بھی ضلعی اختیار مل گئے 1977میں
مکران کو ڈویذن کا درجہ دے دیا گیا اور یک جوالئی کو تربت ، پنجگور اور
گوادر تین ضلع بنا دئے گئے۔اگر گوادر سی ڈیپ پورٹ بین لاقوامی سازشوں سے بچ
جاتا ہے اور اپنے منصوبے کے مطابق کامیاب ہوتا ہے تو اس بندرگاہ سے چین ،
افغانستان ، وسط ایشیا کیممالک تاجکستان ، قازقستان ، آزربائیجان ،
ازبکستان ، ترکمستان اور دیگر روسی ریاستوں کو براہ راست فائدہ پہنچے گا
اور ان کا انحصار دوبئی پورٹ کے ساتھ ساتھ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ پر کم
خرچ ہونے کی بنا پر صوبے اور پاکستان کی عوام کیلئے سود مند اور فائدہ مند
ہوگا۔اس بندرگاہ کی سب سے بڑی خوبی بھی یہی ہے کہ یہ خلیج فارس ، بحیرہ عرب
، بحر ہند خلیج بنگال اور اسی سمندری پٹی میں واقع تمام بندرگاہوں سے زیادہ
گہری بندرگاہ ہے اس میں ڈھائی لاکھ ٹن وزنی جہاز بھی با آسانی لنگر انداز
ہوسکیں گے۔بندرگاہ کی گہرائی 14.5میٹر ہے۔ بندرگاہ پر تیزی سے ترقیاتی کام
جاری ہے۔اور اس کے ساتھ چین کے تعاون سے M8کی تعمیر کا آغاز بھی شروع ہوچکا
ہے جو 892کلو میٹر طویل موٹر وے ہوگی ۔جبکہ بھارت نے ایران کے ساتھ گوادر
بندرگاہ کے مقابلے میں ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر و توسیع کے
منصوبے شروع کردیئے ہیں ۔2003ء میں بھی بھارت اور ایران نے پاکستان کی سرحد
سے متصل خلیج عمان میں ایرانی بندرگاہ چاہ بیار کو تعمیر کرنے پر اتفاق کیا
تھا لیکن ایران پر پابندیوں کے سبب اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ، اب ایران
، امریکہ ایٹمی معاہدے کے بعدایران کی چاہ بہار بندرگاہ پر تیزی سے کام کیا
جائے گا۔بھارت پہلے ہی چاہ بہار بندرگاہ کو مغربی افغانستان کے ساتھ جوڑنے
کے لئے220کلو میٹر لمبی سڑک بنانے کیلئے 100ملین ڈالر خرچ کرچکا ہے۔بھارت ،
ایران سے چار سو ارب ڈالر کی مصنوعات درآمد کرتا ہے ۔بھارت چاہ بہار
بندرگاہ کو فری ٹریڈ زون کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔30جون کو ممکنہ
پابندیاں ایران بھی عالمی ممالک کی ایک اہم مارکیٹ بن سکتا ہے اسلئے بھارت
بھی خوف زدہ ہے کہ کایران اپنا ارادہ نہ بدل لے کیونکہ ایران نے بھارت کی
جانب سے ’ فرزاد بی ‘ گیس خائر پر اربوں ڈالرز کے تعمیری حقوق حاصل کرنے کی
درخواست پر انکار کردیا تھا، ا دوسری جانبچین کے صدرشی چن پنگ کے حالیہ
دورہ پاکستان میں 46ارب ڈالر کے معاہدے کس کیلئے تکلیف کا باعث بن رہے ہیں،
بلوچستان اور پاکستان میں امن قائم نہ ہونا ، فرقہ وارانہ، نسلی اور لسانی
خانہ جنگی کس کس کی منصوبہ بندی میں شامل ہے ۔ اس پر معمولی غور کرنے سے
عالمی سازش بے نقاب ہوجاتی ہے۔ |