خراج کی جو گدا ہو !وہ قیصری کیا ہے

ایک بادشاہ کا کسی علاقے سے گزر ہوا جہاں پر فقیروں اور عادی مانگنے والوں کے جھونپڑے اور رہائش تھی۔وہاں سے گزرتے ہوئے بادشاہ کی نگاہ ایک خوبصورت اور نوجوان فقیرنی پر پڑی جو ایک ہی آنکھ میں بادشا ہ کو بھاگئی اور بادشاہ نے اس سے شادی کا قصد کیا ۔معاملات طے پانے کے بعد وہ فقیرنی بادشاہ کے حرم کی زینت بن گئی۔بطور ملکہ اسے تمام سہولیات اور مراعات مہیا کردی گئیں۔ نوکر چاکر، انواع واقسام کے مرغن کھانے زر و جواہرات کی ریل پیل۔لیکن اکثر بادشاہ نے نوٹس کیا کہ ملکہ(فقیرنی) جب بھی بالکونی میں بیٹھی ہو تو اس کا ایک ہاتھ باہر کی طرف ہوتا ہے اور اس ہاتھ میں اکثر و بیشتر چند سکے بھی ہوتے ہیں۔ آخر کار ایک دن بادشاہ نے تجسس سے مجبور ہوکر پوچھ لیا کہ اس بات کا مقصدکیا ہے تو فقیرنی نے جواب دیا کہ اس طرح ہاتھ باہر پھیلانے سے لوگ مجھے سکے دے جاتے ہیں اس بات پر بادشاہ کو غصہ آیا کہ ملکہ ہوکر رعایا سے بھیک مانگتی ہو جب کہ آپ کو ہرقسم کی مراعات و اختیارات ودیعت کردیئے گئے ہیں ملکہ نے جواب دیا بادشاہ سلامت مانگنے اور ہاتھ پھیلانے کا عمل ہمارے لئے فطری ہے ہماری گھٹی میں پڑا ہے ہمارے انگ انگ میں رچا بسا ہے جو ہاتھ میں ہے وہ تو ہمارا ہے ہی اور اگر کچھ اور مل جائے تو اس میں مضائقہ ہی کیا۔پس فطرت سے مجبور ہوں

پاکستان کے حکمران جن کے اثاثے بے شمار ہیں اتنے ہیں کہ اگر شو کردیں تو دنیا کے امیر ترین لوگوں کی دوڑ میں یقینا اول نمبر پر ہوں۔یہ لوگ جب بھی حکومت میں آتے ہیں مسند اقتدار سنبھالتے ہیں تو پھر ان کے کشکول انکے جبوں سے نکل آتے ہیں دنیااور اپنے خود ساختہ آقاؤں کے سامنے اپنی غربت کارونا روتے ہیں افلاس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور پھر ملک کے نام پرسود پر قرض حاصل کرکے اپنے اللے تللوں پر خرچ کردیتے ہیں اور اس کے عوض پاکستانی قوم ان کے اقدار،تہذیب اورروایات کوگروی رکھ دیتے ہیں۔اپنے دنیاوی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے عوام کش اور ملک دشمن کاروائیوں تک میں ملوث ہوجاتے ہیں۔کوئی منی لانڈرنگ میں ملوث ہوتاہے توکوئی ۔۔کوبیچ دیتاہے۔کوئی سٹیل مل کوبیچنے کے درپہ ہوتا ہے تو کوئی واپڈا ور پی ٹی سی ایل کی نجکاری کررہا ہوتا ہے ان میں سے کوئی مخلص عوام دوست اور ملک و قوم کا خیر خواہ دکھائی نہیں دیتا۔ بس زبانی جمع خرچ کی بات اور خالی خولی نعروں دعوؤں سے کام چلا رہے ہوتے ہیں اگر پاکستانی حکمران اور اشرافیہ کشکول توڑتے ہوئے اپنی رقوم ملک میں لے آئیں اور سرمایہ کاری کریں تو کیا وجہ ہے کہ ملک کوترقی کی جانب گامزن ہونے سے روکاجاسکے۔ جب آپ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو all is ok کی رپورٹ دیتے ہیں انہیں سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہے ہوتے ہیں۔ سنہری خواب دکھاتے ہیں اور پھر ان کی نا جائز شرائط بھی ماننے پر تیار ہوجاتے ہیں صرف اس وجہ سے کہ آپ کویقین ہوتا ہے کہ ان کا سرمایہ ڈوب جائیگا ملک میں ترقی و خوشحالی ہونا ممکن نہیں اس لئے اپنا روپیہ بچاؤ اورسب اچھا ہے سب ٹھیک ہے کا طبل بجاتے رہو

اصل میں پاکستانی حکمران بیچارے بھولے بادشاہ ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم غیر ملکیوں، امریکا، چائنا، سعودی عرب اور آئی ایم ایف کو چونا لگا کر رقوم بٹور ہے ہیں ہماری چکنی چپڑی باتوں میں آکر وہ ہم پر کمال مہربانی فرماتے ہیں حالانکہ معاملہ بالکل برعکس ہے کہ وہ ہماری باتوں اور حالات کی وجہ سے قرض نہیں دیتے بلکہ اس میں ان کے مفادات پوشیدہ ہوتے ہیں جو ہمیں بعد میں معلوم ہوتے ہیں اور پھر ہم بغلیں جھانکتے ہیں سو پیاز بھی کھاتے ہیں اور سو جوتے بھی ۔ علامہ اقبال کا ایک شعر شدت سے یاد آرہا ہے کہ
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے

المختصر اگر ہمارے حکمران جو کہ عوام کی فلاح کا علم اٹھائے پھر رہے ہیں جو اپنا جینا مرنا اوڑھنا بچھونا عوام کے ساتھ بتاتے ہیں اگروہ صرف اپنی رقوم جو کہ انہوں نے غیر ممالک میں چھپا رکھی ہیں یاانویسٹ کررکھی ہیں اسے واپس لاکر اپنے ملک میں انویسٹ کریں تو یقین کریں دہشت گردی ختم ہوجائیگی۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ رقم انویسٹ کرنے سے دہشت گردی کے خاتمے کا کیا تعلق تو جناب بڑا گہرا تعلق ہے کہ ان کی رقم جہاں پر لگی ہوگی تو وہ چاہیں کے یہاں ہر طرف سکون اور امن ہو۔ ادارہ اس کے ملازمین اور کسٹمرز بلا خوف و خطر اپنے معمولات زندگی سر انجام دیں تو پھر ان کی کوشش ہوگی کہ وہاں پر پولیس کا نظام بھی بہتر ہو سکیورٹی بھی ٹائٹ ہو ڈاکہ زنی رہزنی بھی نہ ہونے پائے وغیرہ وغیرہ۔بس لانڈرنگ کرنے والوں کو غیر ممالک سے بھی اپنی رقم اپنے ملک میں لانڈری کرنا ہوگی۔اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے ساتھ ساتھ ملکی و قومی مفاد کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔یہ سب ہے تو ذرا مشکل لیکن……
 
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211635 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More