پاک چین اقتصادی راہداری
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
14 اگست 1947ء کوہم نے لاکھوں شہیدوں کے خون سے رنگین ’’پاکستان‘‘نامی ایک
مکان توحاصل کرلیا لیکن اڑسٹھ سال گزرنے کے باوجود اُس مکان کو’’گھر‘‘ میں
تبدیل نہیں کرسکے ۔وجہ یہ کہ اِس مکان کے ’’اہلِ اختیار‘‘نے ’’اہلِ
اعتبار‘‘کو لہولہان ساعتوں میں بھی سبزباغ ہی دکھائے کہ وطیرہ اِن کایہی
اور نیت بھی یہی ۔اِس مکان کے مکیں دو واضح حصوں میں تقسیم ۔اہلِ
اختیاردُنیا جہاں کی نعمتوں سے مالامال اورنہال جبکہ اہلِ اعتبارپاشکستہ ،سراسیمہ
اورایسے نڈھال کہ اگراُن میں زیست کی رمق ہے بھی تونرغۂ وہم وگمان میں،تہی
دامانی کایہ عالم کہ دشت دردشت ایک ایک بوندکو ترسے ہوئے اورکم نصیبی ایسی
کہ اندوہِ رفتہ کوبھلانے کی سعی کرتے کرتے فلک تازہ زخم دے جاتاہے ۔اگرکسی
روزن سے اُمیدکی کرن پھوٹتی دکھائی دے تواہلِ اختیاراُس کوبند کرنے کی تگ
ودَو میں اپنی تمامتر توانائیاں بروئے کارلے آتے ہیں۔ خلیل جبران نے
کہا’’ترس کھاؤ اُس قوم پرجو کسی سَرکش انسان کواپنا ہیروبناتی ہے ‘‘۔لیکن
ہماراتو واسطہ ہی ایسے سرکشوں سے ہے جوپاکستان کوپھلتاپھولتا نہیں دیکھ
سکتے ۔
چینی صدر کے دَورۂ پاکستان کے بعدصرف امریکہ ،یورپ اوربھارت ہی نہیں،ہمارے
اپنے بھی حیران وپریشان کہ چھیالیس ارب ڈالرز کے منصوبوں کو کیسے ثبوتاژکیا
جائے ۔وزیرِاعظم میاں نوازشریف صاحب نے قومی اتفاقِ رائے پیداکرنے کے لیے
وزیرِاعظم ہاؤس میں 13 مئی کو آل پارٹی کانفرنس بلائی ۔اُسی دن کراچی میں
صفورا چورنگی پراسماعیلی کمیونٹی کی بس پردہشت گردوں نے حملہ کرکے 47
بیگناہ افرادکو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔اِس افراتفری میں اے پی سی نتیجہ
خیزتو ثابت نہ ہوسکی لیکن احسن اقبال صاحب نے شرکاء کومقدوربھر مطمئن کرنے
کی کوشش ضرورکی البتہ نیتوں کے فتورکا علاج توکسی کے پاس بھی نہیں۔ اِس اے
پی سی کے چار روزبعد عوامی نیشنل پارٹی نے کوئٹہ میں ایک اوراے پی سی بلالی
۔یہ وہی اے این پی ہے جس کے بانی ’’باچاخاں‘‘نے دمِ واپسیں وصیت کی کہ مرنے
کے بعد اُسے پاکستان میں دفن نہ کیاجائے ۔یہ وہی اے این پی ہے جس نے
کالاباغ ڈیم بننے نہ دیاحالانکہ اگریہ ڈیم بن جاتاتو نہ صرف لاکھوں ایکڑ
بارانی زمین سیراب ہوجاتی بلکہ لوڈشیڈنگ کاعذاب بھی نہ جھیلناپڑتا ۔کالاباغ
ڈیم کے بارے میں تمام ماہرین کی متفقہ رائے یہی تھی اورہے کہ اِس میں فائدہ
سبھی کا اورنقصان کسی کابھی نہیں۔اب یہی اے این پی کہتی ہے کہ اقتصادی
راہداری کے منصوبے کو ’’کالاباغ ڈیم‘‘ بنادیں گے ۔کوئٹہ میں منعقدہ اے پی
سی میں اے این پی بلوچستان کے صدر اصغراچکزئی نے دھمکی آمیزانداز میں کہاکہ
یہ منصوبہ کالاباغ ڈیم کے منصوبے کی طرح ناکام بھی ہوسکتاہے ۔پیپلزپارٹی
بھی اِس منصوبے میں واضح نہیں۔ جنابِ آصف زرداری 46 ارب ڈالرزکے منصوبوں کا
کریڈٹ خودلیتے رہتے ہیں جبکہ سیدخورشید شاہ صاحب کواِن میں جھول نظرآتی ہے
۔وزیرِاعظم صاحب کی طرف سے بلائی گئی اے پی سی کے بعدشاہ محمودقریشی صاحب
نے کہاکہ احسن اقبال نے شرکاء کوبہت احسن اندازمیں ’’بریف‘‘کیالیکن کپتان
صاحب کواِس میں خامیاں نظرآتی ہیں ۔سبھی بیک زبان کہ حکومت نے اقتصادی
راہداری کے ’’روٹس‘‘ میں تبدیلی کی لیکن احسن اقبال کاچیلنج کہ اگرروٹ میں
ایک انچ کی تبدیلی بھی ثابت ہوجائے تووہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاست چھوڑدیں
گے ۔پھربھی ’’میں نہ مانوں‘‘کی رَٹ ،اصل معاملہ یہ کہ اقتصادی راہداری سے
پنجاب کو’’بھی‘‘ فائدہ پہنچنے کااحتمال ،جیسے پنجاب تو پاکستان کاحصہ ہی
نہیں۔ اندریں حالا ت حکمرانوں کا یہ عالم کہ
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
انسانی تاریخ تویہی بتلاتی ہے کہ جب بھی قوموں کو بحرانوں کا سامناہوا ،وہ
یک جان ویک زباں ہوگئیں۔ قوم تویک جان ویکسوہے لیکن رہبری کے داعی منتشر ۔ہرکسی
کی اپنی اپنی ڈفلی اوراپنا اپناراگ ۔اب قوم کی نظریں جنرل راحیل شریف پرکہ
اُن پراعتبارسینوں میں جگہ پاچکا۔ سانحہ صفوراکے فوری بعدجنرل صاحب سری
لنکاکا دورہ منسوخ کرکے کراچی جاپہنچے،حالات کاجائزہ لیا،سول اورعسکری
اداروں سے کئی میٹنگزکیں ،ایک میٹنگ میں وزیرِاعظم صاحب بھی شریک ہوئے
اورکراچی آپریشن کوکامیاب بنانے کے لیے کئی فیصلے ہوئے۔ اِن فیصلوں کی ایک
جھلک نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں’’امن، سکیورٹی اورگورننس‘‘کے موضوع پربلائی
گئی کانفرنس میں کور کمانڈرکراچی ،لیفٹیننٹ جنرل نویدمختار کے خطاب میں
دکھائی دی ۔جنرل صاحب نے لفظی بازی گری سے بے نیازہوکر صاف اورکھرے لہجے
میں کہا کہ اُنہیں معلوم ہے کہ خرابیاں کہاں ہیں۔یہ خرابیاں اچانک پیدانہیں
ہوئیں،انہیں ایک مخصوص اورطے شدہ اسلوب میں اِس شہرپر مسلط کیاگیا اورمافیا
نے اِس عروس البلادکو یوں یرغمال بنایاکہ دَم گھٹنے لگا ۔اب کراچی کی
روشنیاں لوٹانے کی ساعت آن پہنچی ہے جس کے لیے ملک میں متوازی حکومتوں اور
طاقت کے مراکزکا خاتمہ کرناہوگا ،انتظامیہ اورپولیس کو سیاسی آلائشوں سے
پاک اوردہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کا ہرصورت خاتمہ کرناہوگا ۔اُنہوں
نے کہاکہ کراچی میں سیاست اوردہشت گردی میں فرق ختم ہوگیاہے ۔سیاست تشددسے
اورمیڈیاخوف سے آزادہونا چاہیے ،سیاسی اورمذہبی جماعتیں اپنے عسکری ونگز
ختم کریں ۔اُن کایہ بیان توقوم کے لیے مژدۂ جاں فضاء اور تازہ ہواکا جھونکا
ثابت ہواکہ ’’ہم انشاء اﷲ اِن تمام پیچیدہ معاملات کوجلد حل کرلیں گے
کیونکہ ہمارے پاس آپریشن کی ناکامی کاکوئی آپشن نہیں۔ قوم کی دعاؤں کے ساتھ
ہم کراچی کی روشنیاں لوٹا کرہی دَم لیں گے‘‘۔ جنرل نویدمختار صاحب کاخطاب
یقیناََپالیسی بیان ہے اوراچھی خبریہ ہے کہ اِس معاملے پرسیاسی اورعسکری
قیادت ایک صفحے پرہے ۔اگرافہام وتفہیم کی فضاء قائم رہی (جو انشاء اﷲ
ضروررہے گی)تو ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے
کوناکام بنانے کے لیے 30 کروڑ ڈالرتو کیا30 ارب ڈالرز کا’’سیل ‘‘بھی قائم
کرلے ،یہ منصوبے انشاء اﷲ پایۂ تکمیل تک پہنچ کرہی رہیں گے لیکن اِس کے لیے
بھارت کواُسی کی زبان میں جواب دیناہوگا اور یہ جواب پاکستان کی محبِ وطن
اوربے مثال خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی دینا خوب جانتی ہے۔ بھارت کویاد
رکھناہوگا کہ اگربلوچستان میں بی ایل اے اوربی ایل ایف نامی چھوٹے چھوٹے
گروہ ’’را‘‘ کی سرپرستی میں علیحدگی کے لیے کوشاں ہیں توہندوستان میں
علیحدگی کی کئی ایسی تحریکیں سرگرم۔ اگربھارت اچھے پڑوسیوں کی طرح امن
وسکون سے رہناچاہتا ہے تواسے ’’را‘‘کو لگام ڈالناہوگی وگرنہ نریندرمودی
’’چراغِ رخِ زیبا‘‘لے کرامن وسکون اور’’شانتی‘‘ کو ڈھونڈتے ہی رہ جائیں گے
۔ |
|