بول کہ لب آزاد ہیں

آجکل ایک بار پھر بول ٹیلی ویژن چینل اور اسکے مالک کے بڑے چرچے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام چینلز کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے کہ وہ اس معاملہ پر دن رات پروگرام چلائیں بلکہ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ایشو پر جیسے ایک مہم چلائی جارہی ہے بول نیٹ ورک کے مالک شعیب کی کمپنی ایگزٹ نے اگر آئی ٹی کے شعبہ میں کمال مہارت سے اپنا نام اور پیسہ بنا لیا ہے تو اس میں کون سی برائی ہے کیا ہمارے سیاستدانوں سے لیکر بیوروکریٹس تک نے مال نہیں بنایا کیالوگ جعلی ڈگری کے زریعے الیکشن لڑ کر ایم پی اے اور ایم این اے منتخب نہیں ہوئے اور ثابت ہونے کے بعد عوام نے پھر انہیں ہی دوبارہ منتخب کرلیااور کیا ہم صبح سے لیکر شام تک گھٹیا ،غیر معیاری ،دو نمبر نہیں بلکہ جس کا نمبر ہی کوئی نہیں ہوتا ملاوٹ شدہ اور جعلی مرچ مصالحوں اور دودھ سے لیکر گدھے کاگوشت تک نہیں کھا رہے ؟ کیا ہمارے سیاستدانوں نے باہر سے اعلی قسم کا کا سامان منگوا کر ضبط کروانے کے بعد اربوں کا مال لاکھوں میں نہیں اٹھایا ؟کیا ہمارے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والے ہمارے بچوں کو آگ میں جھلسنے سے بچا پائے ؟کیا ریسکیو 1122جیسے ادارے کے اندر بیٹھے ہوئے موٹی توندوں والوں نے قبضہ نہیں کررکھا؟ کیا فائر بریگیڈ جیسے ادارے کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ناکارہ نہیں بنا دیا گیا؟ کیا پبلک ریلیشنز کی آڑ میں بیٹھا ہوا مافیا مک مکا نہیں کررہا ؟کیا پٹواری سے لیکر وزیر اعظم اور صدر پاکستان تک افراد عیش وعشرت میں زندگی نہیں گذارہے؟ کیا پولیس کے تھانے اور ہماری جیلیں جرائم کی پرورش گاہیں اور یونیورسٹیاں نہیں ہیں ؟کیا کراچی جیسے بڑے شہر میں تعلیم فروخت نہیں ہورہی ؟کیا پانی اور زمین پر قبضے نہیں کیے جارہے؟ کیا ایک رہڑی والے سے لیکر اوپر تک کرپشن اور چور بازاری کا بازار گرم نہیں ہے؟ کیا ہمارے ٹھیکیداروں سے لیکر اوورسیئر ،ایس ڈی او ، ایکسیئن اور اوپر تک کمیشن نہیں جاتا؟ کیا گذشتہ روز علماء دین کی طرف سے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات کے خلاف لگنے والے فتوے کے لیے اخبارات کے پاس سنگل کالم خبر اور ٹیلی ویژن چینلز کے پاس ایک ٹکر کی بھی جگہ نہیں تھی ؟ اگر یہ سب کچھ کھلے عام ہورہا ہے تو پھر ایگزٹ کے کام پر اتنا شور شرابہ کیوں کیا یہ صرف ایک چینل کو مارکیٹ میں آنے سے باز رکھنے کے لیے ہے یا واقعی حکومت ملک سے ہر طرح کی کرپشن اور چور بازاری ختم کرنا چاہتی ہے اگر ایسا ہے تو پھر سب سے پہلے ایسی رقم پاکستان واپس لائی جائے جو یہاں سے لوٹ کر بیرون ملک رکھی گئی ہے ایسے ججوں ،جرنیلوں اور صحافیوں کا بھی احتساب کیا جائے جن پر کرپشن کے کیسز ہیں ایسے افسران کو بھی گرفت میں لایا جائے جن کی تنخواہ تو 50ہزار کے قریب ہے مگر انکے اخراجات لاکھوں میں ہیں جنہوں نے سرکاری خزانے کو لوٹنے کی قسم کھا رکھی ہے جو اپنی ذاتی گاڑیوں میں بھی سرکاری پیٹرول ڈلواتے ہیں اور ایسے افسران کا بھی محاسبہ کیا جائے جو سرکاری ملازمین کو اپنے ذاتی کاموں میں مصروف رکھتے ہیں اگر یہ سب کچھ نہیں ہونا اور یہ نظام ایسے ہی چلنا ہے روٹی چرا کر کھانے والے کو جیل اور اربوں لوٹنے والے حکمران بنتے رہیں گے تو پھر ایگزٹ کے کام پر اتنا شور شرابہ کیو ں؟کیا اس طرح کے کاموں سے نیا چینل نہیں آئے گا ہوسکتا ہے کہ حکومت بول کا لائسنس کینسل کردے مگر وہ کسی اور نام سے کوئی اور چینل مارکیٹ میں لے آئیں گے پھر انکے مخالفین کیا کرینگے اسکے ساتھ ساتھ ہمارے اداے اور ایجنسیاں کہاں سوئی تھی کہ جن کو آج تک یہ ہی نہیں معلوم ہوسکا کہ پاکستان میں کون کیا کررہا ہے اگر ہم نے ساری کاروائیاں اخباروں کے زریعے ہی کرنی ہیں تو پھراداروں میں مزید رپورٹروں کو بھرتی کرلیا جائے جو ہمارے ان اداروں کی خامیاں دور کرسکیں رہی بات بول ٹی وی کی اسکی انتظامیہ نے بہت عرصہ سے تیاریاں شروع کررکھی ہیں جتنی انہوں نے اشتہار بازی کردی ہے ہوسکتا ہے کہ یہ کسی کو پسند نہ آئی ہو اس لیے بول کو بھی اب منظر عام پر آثابت کرنا پڑے گا بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 611697 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.